امن روٹی اور برابری کے لیے عورتوں کی جدوجہد جاری رہے گی۔ عورتوں کی آزادی ہی میں سماج کی آزادی مضمر ہے۔ لیونگ ویج کو نافذ کیا جائے۔ ۸ مارچ ۲۰۲۲ محنت کش عورتوں کا اعلان نامہ

کراچی (پ۔ ر) تمام ترجبرکےباوجود عورت مزاحمت کی علامت بن کرابھر رہی ہے۔ وہ نہ صرف اپنی آزادی بلکہ سماج کے مظلوم طبقات کی معاشی اور سیاسی آزادی کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہے۔ عورت دشمن ہر دستور قانون اور روایات کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا اب عورتوں کی تحریک کا نصب العین ہے اس لیے سماج کی آزادی عورت کی آزادی ہی میں پنہاں ہے۔ ان خیالات کا اظہار عورتوں کے عالمی دن کے موقع پرنکالےجانے والی ریلی سے خطاب کے دوران عورت مزدور رہنماوں نے کیا۔ اس ریلی کا اہتمام ہوم بیسڈ وومین ورکرزفیڈریشن نے کیا تھا جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں محنت کش عورتوں ، طالبات اور سماجی کارکنوں نے شرکت کی۔ ریلی کی قیادت کامریڈ زہرا خان کر رہی تھیں – ریلی کے شرکاء نے سرخ پرچم اور اپنے مطالبات پر مبنی بینرز اُٹھاے ہوئے تھے –اس سال محنت کش عورت ریلی کا نعرہ امن، روٹی اور برابر ی ” تھا- ریلی فوارہ چوک سے شروع ہوکر آرٹس کونسل میں اختتام پزیرہوئی جس کے بعد آرٹس کونسل میں محنت کش عورتوں نے اپنا ثقافتی شو بھی پیش کیا۔

ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ہوم بیسڈوومین ورکرز فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری زہرا خان نے کہا کے معاشرے میں عورتوں کےخلاف پرتشدد کاروائیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ عورتیں گھروں، گلی، محلوں،کارخانوں، آفیسسز اور تعلیمی اداروں میں بھی محفوظ نہیں۔ایک اندازے کے مطابق ستر فیصد سے زائد خواتین گھریلوں تشدد کا شکار ہوتیں ہیں۔ عورتوں کے خلاف پر تشدد کاروائیوں میں خصوصاّ عورتوںکے قتل کے معاملے میں پاکستان دنیا کا تیسرا خطرناک ملک ہے جبکہ دنیا بھر میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی عورتوں میں سے ہر پانچویں عورت کا تعلق پاکستان سے ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طالبات اور وہاں ملازم عورتوں کے خلاف ہراسگی، اور تشدد کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔جبکہ قتل اور پر سرار خود کشوں کے واقعات تسلس کے ساتھ ہو رہے ہیں ۔ خواتین کے ساتھ ساتھ ٹرانس جینڈر ار بچے بھی جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں ۔

مزدور رہنماوں نے کہا کہ کھیتوں میں کام کرنے والی لاکھوں عورتیں اکیسوی صدی میں بھی غلامی کے ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں ۔ انہیں بناء اجرت جبری مشقت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کے خاندانوں کی غلاموں کی طرح خریدو فروخت کی جاتی ہے۔ محنت کش طبقہ سے تعلق رکھنے والیغیر مسلم عورتیں خصوصا بچیاں خوف کے ماحول میں زندہ ہیں، انہیں زبردستی مذہب تبدیلی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور جبریشادیاں کر دی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ایک ہزار سے زائد مسیحی اور ہندو بچیوںکا مذہب تبدیل اورا ان کی زبردستی شادی کر دی جا تی ہیں ۔کام کی جگہوں پر ہراسگی ، گھر یلو تشدد ، زبردستی کی شادی ، غیرت کے نام پر قتل ، عورت دشمن قوانین کی بنا پر پاکستان دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک ہے

سندھ کمیشن برائے عورت حیثیت کی رہنما نذہت شیریں نے کہا کہ خطے میں جنگی ماحول اور مذہبی دہشت گردی کی بناء پر عورتیں سب سے زیادہ متاثر ہو رہیں ہیں اور لاکھوں عورتیں ہجرت کے دکھ سے گزر رہیں ہیں۔ اسی طرح سیاسی و سماجی کارکنوں کی گمشدگی بھی عورتوں کو ذہنی اور معاشرتی اذیت سے دو چار کررہیں ہیں۔اور اس ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئیں ہیں ۔

بلدیہ فیکٹری سانحہ ایسوسی ایشن کی چیر پرنس سعیدہ خاتون نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جہاں عورتین سماجی، سیاسی و معاشی استحصال کا شکار ہیں اور صنفی عدم مساوات کی فہرست میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں ایک کڑور بائیس لاکھ بچیاں اسکول جانے سے محروم ہیں ۔ ملکی آبادی کا چالیس فیصد ناخواندہ ہے جس میں بڑی تعداد عورتوں کی ہے۔ گھر کے کام، بچوں کی دیکھ بھال اور بوڑھوں کو سنبھالنے جیسے اہم معاملات کی وجہ سےعورتیں مردوں سے دس گناہ زائد کام کرتیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صحت و سلامتی عورتوں کے لیے شجر ممنوعہ ہے ۔ یونی سیف کی ایک رپورٹ کےمطابق جنوبی ایشیاء میں دس لاکھ سے زائد نو زائیدہ بچے ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ حاملہ ماوں کی اموات کے لحاظ سے یہ خطہ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

ہوم بیسڈ گارمنٹ یونین کی جنرل سیکرٹری سائرہ فیروز نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نے کہا کہ عورتیں بدترین معاشی استحصال کا شکار ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت سب سے زیادہ عورتوں کو متاثر کرتی ہے۔ پاکستان میں 39.2 آبادی خطے افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس میں عورتوں کا تناسب پچاس فیصد سے زائد ہے۔ عورتوں کی بڑی تعداد غیر منظم شعبے میں کام کرتیں ہیں جن کی اجرتیں نا ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ فارمل سیکٹر میں کام کرنے والی عورتوں کو مردوں کی نسبت 34 فیصد کم اجرت ملتی ہے، جو دنیا کی اجرتوں میں اوسط فرق کا دوگناہے۔اگر یہی صورت حال رہی تو اجرتوں کے اس فرق کو ختم کرنے میں 136 سال لگیں گے۔

سب رنگ کی رہنما اور ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ کامی سیڈ نے کہا کہ اشیاء خودو نوش کی قیمتوں میں بیس فیصد سے زائد ہو گیا ہے ۔ ادوایات کی قیمتیں دو سو فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ بے گھر افراد کی تعداد دو کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔جبکہ گزشتہ تین سالوں میں غربیوں کی تعداد میں دو کروڑ سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس صورت حال سے ٹرانس جینڈر بھی دیگر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔

اس ساری صورت حال میں کہا جا سکتا ہے کہ ملک کا آئین، قانون اور اس کو نافذ کرنے والے ادارے عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں نا کام ہو گئے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے پر عورتوں کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہِں ہے ۔ ایسے میں محنت کش عورتوں کی تحریک ہی ملک کے دیگر مظلوم طبقات کے ساتھ جڑ کر بڑی سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلی رونما کر سکتی ہے۔ملک میں ایک انقلابی تبدیلی کے لیے جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے ہی سے عورتوں کو حقیقی آزادی اور سماجی انصاف مل سکتا ہے۔

محنت کش عورت ریلی اور کلچرل پروگرام میں مطالبہ کیا گیا کہ۱۔ یکساں کام کی یکساں اجرت دی جائے۔۲۔ مہنگائی کےتناسب سے اجرتوں میں اضافہ کیا جائے۔۳۔ جنس کی بنیاد پر تنخواہوں میں تفاوت ختم کیا جائے۔۴۔ تمام محنت کشوں بشمول گھر مزدوروں اور ہاریوں کو سوشل سیکورٹی اور پینشن کے اداروں سے رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے۔۵۔ ذچگی کے دوران اور بعد کی چھٹیوں میں اضافہ کیا جائے اور زچگی کے دوران خواتین محنت کشوں کو قانون کے مطابق چھٹیاں معاوضے کے ساتھ ادا کی جائیں ۔۶۔ کام کی جگہوں پر عورتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور قانون کے مطابق تمام اداروں میں ہراسگی کے خلاف ویجیلنس کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے. 7. جہاں خواتین محنت کشوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں لازماً ان کے لیے چائلڈ کیئر سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے۔۸۔ کام کے اوقات کار زیادہ سے زیادہ ۸ گھنٹہ روزانہ کیا جائے اور ہفتہ وار تعطیل پر بھی ورکرز سے زبردستی کام کرنے کے عمل کو روکا جائے۔۹۔ عورتوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔۱۰۔ عورتوں کو صدیوں سے قید رکھنے والے جاگیرداری اور قبائلی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔۱۱۔ ہندو ہاری خواتین پر جنسی تشدد ، اغوا اور جبری مذہب کی تبدیلی ختم کیا جائے۔ ۱۲۔ عورتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے تمام منتخب اداروں میں نمائندگی دی جائے۔۱۳۔ ترقی کے نام پر مزدور اور قدیم بستیاں گرانے کا سلسلہ بند کیا جائے اور عوام کو بے گھر کرنا بند کیا جائے۔۱۴۔ عورتوں ، بچوں، اقلیتوں، ٹرانس جینڈر کے خلاف تشدد جرم کیا جائے۔

پروگرام کے اختتام پر تصاویری مقابلے میں شریک تین کامیاب امیدواروں کو انعامات بھی دیئے گئے ۔

شرکاء شکیل خان ( چوڑی ورکرز یونین )، ساجدہ کوثر ( ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن )، کوثر النساء ( گارمنٹ ورکرز شاہ پور چاکر )، ناصر منصور (نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن )، =ناصرہ پروین (آل سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرز ایمپلائی یونین )، ایلسا قاضی( اسٹوڈنٹ ایکٹوسٹ) بھاگی بھیل (صدر سندھ ایگریکلچر جنرل ورکرز یونین)، مومل ناصر( ڈاکٹر)، اصغر دستی(استاد وفاقی اردو یونیورسٹی) کرامت علی( کنوینر نیشنل لیبر کونسل)، عاقب حسین( الٹرنیٹ یوتھ گروپ ) ، زینب ناصر (الٹرنیٹ یوتھ گروپ )، قاضی خضر ( ہومن رائٹس کمیشن آف پاکستان )، سعید بلوچ (پاکستان فشر فورک فورم )، جمیلہ الطیف (ہوم بیسڈ وومن بینگل ورکرز یونین)، حانی بلوچ (رائٹر )، ساجد ظہیر (انجمن ترقی پسند مصنفین)، ، عثمان بلوچ ( ٹریڈ یونین رہنما )، و دیگر

====================================