کنڈوم پر ٹیکس: ’ایک اسی چیز پر ٹیکس نہیں تھا جو اب لگا دیا‘


21 غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد نے مانع حمل ادویات پر ٹیکس لگانے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے خاندانی منصوبہ بندی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
====================
اظہار اللہ

===============

سلیم خان (فرضی نام) کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ملاکنڈ کے ایک متوسط گھرانے سے ہے۔

ان کے ہاں 2020 کے اواخر میں بیٹے کی پیدائش ہوئی، جس کے بعد انہوں نے اپنی اہلیہ سے مشورے کے ساتھ دو سال خاندانی منصوبہ بندی کا فیصلہ کیا۔

سلیم کہتے ہیں کہ یوں تو خاندانی منصوبی بندی کو لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے لیکن آج کل اس حوالے سےآگاہی نے کچھ نہ کچھ لوگوں کو اس بات سے باور کرایا ہے کہ وہ منصوبہ بندی کریں۔

سلیم خاندانی منصوبہ بندی کے لیے کنڈوم استعمال کرتے ہیں جو کسی بھی جنرل سٹور یا فارمیسی سے مل سکتا ہے۔

ان کے مطابق آج کل بازار میں ایک عام کنڈوم کی قیمت تقریباً 20 سے 300 روپے تک ہے۔

سلیم کو جب یہ بتایا گیا کہ حکومت نے حالیہ دنوں میں دوسری اشیا کے ساتھ ساتھ کنڈوم پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے توجواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہی ایک چیز تھی جس پر ٹیکس نہیں لگا تھا تو اس پر بھی لگا دیا۔‘

انہوں نے اس ٹیکس کو خاندانی منصوبہ بندی کرنے والے سے ناانصافی قرار دیا۔

’ویسے بھی ہمارے معاشرے میں اس منصوبہ بندی کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا اور اوپر سے اب حکومت نے بھی ٹیکس لگا دیا۔‘

وفاقی حکومت نے پارلیمںٹ سے 13جنوری کو ایک سپلیمنٹری فنانس بل پاس کیا ہے جس میں کنڈوم سمیت مانع حمل ادویات پر دو ارب سے زائد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا گیا۔

لک بھر میں تقریباً 21 غیر سرکاری تنظیموں کے ’اتحاد برائے آبادی‘ نے وفاقی حکومت کی جانب سے مانع حمل ادویات پر ٹیکس لگانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس لگانے سے خاندانی منصوبہ بندی کے لیے ہونے والی کاوشوں کو نقصان پہنچے گا۔

سول سوسائٹی تنظیموں کے مطابق اس سے پہلے مانع حمل ادویات ٹیکس سے مستثنٰی تھیں لیکن اب ان پر ٹیکس لگا کر غریب عوام کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔

اسی اتحاد کے اعلامیے میں لکھا گیا کہ ’پاکستان میں مانع حمل طریقوں کی پوری نہ ہونے والی ضروریات کی بلند شرح کی ایک بڑی وجہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں تک رسائی میں کمی اور ان کا مہنگا ہونا ہے۔‘

اعلامیے کے مطابق اس وقت پاکستان میں امیر و غریب طبقے سے رکھنے والے 53 فیصد شادی شدہ جوڑے مانع حمل ادویات فارمیسیزاور نجی سیکٹر سے خریدتے ہیں۔

اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی کرنے والے شادی شدہ جوڑوں کی شرح میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔

پاکستان کے سرکاری ادارہ برائے شماریات کی رپورٹ کے مطابق 20- 2019 میں 19- 2018 کے مقابلے میں مانع حمل کی شرح میں تقریباً 24 فیصد کمی دیکھی گئی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ 19-2018 کے مقابلے میں اب 100شادی شدہ جوڑوں میں سے اوسطاً 24 جوڑے فیملی پلاننگ کرتے ہیں۔

اسی رپورٹ کے مطابق سندھ کے علاوہ تمام صوبے بشمول پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور اسلام آباد میں مانع حمل طریقوں کے استعمال کی یہ شرح کم ہوئی۔

اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں مانع حمل کی شرح میں 13 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔

تاہم اس شرح میں پنجاب میں 19 فیصد، خیبر پختونخوا میں 74 فیصد اور بلوچستان میں 19 فیصد کمی دیکھی گئی۔

اسلام آباد میں یہ شرح 28 فیصد، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کمی کا تناسب 39 فیصد، گلگت بلتستان میں 13فیصد جبکہ قبائلی اضلاع میں اس شرح میں 59 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی احاطہ کیا گیا کہ کس قسم کے مانع حمل طریقوں میں کمی سامنے آئی ہے تو اس میں سر فہرست ’انجیکٹبلز‘ یعنی انجکشن لگا کر خاندانی منصوبہ بندی کے طریقہ کار میں 27 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔

جبکہ دوسرے نمبر میں کنڈوم ہیں جس کے استعمال میں 25 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔

خاندانی منصوبہ بندی پر کام کرنے والی سول سوسائٹی تنظیموں کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ 2018میں سپریم کورٹ کی جانب سے سوموٹو نوٹس لینے کے بعد آبادی میں پائیدار اضافے کے حصول کے لیے مشترکہ مفادات کونسل نے اپنی سفارشات پیش کی تھیں۔

مشترکہ مفادات کونسل کے مطابق اگر ان سفارشات پر عمل کیا جا سکے تو آبادی اور وسائل کے درمیان توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔

ان سفارشات میں عوام تک مانع حمل ادویات اور طریقوں تک رسائی میں بہتری شامل ہے۔

تاہم حکومت کی جانب سے اب ان ادویات اور طریقوں پر سالانہ بنیادوں پر ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں۔

اعلامیے کے مطابق ’نئے سپلیمینٹری بل میں کچھ روزمرہ اشیاٗ کے استعمال پر ٹیکس عائد کیا گیا جن میں مانع حمل ادویات بھی شامل ہیں جو پہلے ٹیکس سے مستثنی تھیں۔

نئے ٹیکسز سے کنڈوم سمیت مانع حمل ادویات کی قیمتوں پر کتنا اثر پڑے گا؟

پاکستان میں اس وقت استعمال ہونے والا سب سے سستے کنڈوم کا پیکٹ 60 سے 70روپے کا ملتا ہے جس میں تین کنڈوم ہوتے ہیں۔ سول سائٹی تنظیموں کے ا تحاد برائے آبادی میں شامل پاپولیشن کونسل تنظیم کے سربراہ اکرام الاحد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب اس کنڈوم پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا۔

اکرام نے بتایا کہ ’جو نیا ٹیکس لگایا گیا ہے یہ سٹورز پر ملنے والی مختلف ضرورت کے اشیا پر ہے جن میں اب کنڈوم بھی شامل کر دیا گیا ہے۔‘

قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو اگر تین کنڈوم والے پیکٹ کی قیمت 60 روپے ہو اور 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے تو اس کی ممکنہ نئی قیمت تقریبا 70 روپے ہو جائے گی۔

منظر خان پشاور میں ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان سے جب قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایک غریب شخص کے لیے دس روپے بھی بچیں تو بڑی بات ہوتی ہے۔

’حکومت کو کم از کم اس معاملے میں غریبوں پر ترس کھانا چاہیے تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اگر دو سال تک مانع حمل طریقے پر عمل کیا جائے تو سالانہ تقریباً چار ہزار اور دو سال میں آٹھ ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ ڈاکٹروں کی فیس علیحدہ ہے۔‘

حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی مانع حمل ادویات اور طریقوں پر ٹیکس لگانے کی مذمت کی ہے۔

قومی اسمبلی میں ’منی بجٹ ‘ پاس ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے عمران خان جیسے کھلاڑی سے مانع حمل ادویات پر ٹیکس لگانے کی امید نہیں تھی۔

’پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور ہمارے اس خطے میں بے تحاشہ آبادی کی وجہ سے ہم ان کے لیے روزگار، صحت و تعلیم اور خوراک کا بندوبست نہیں کر سکتے۔

’جبکہ دوسری جانب ہم اس پر ٹیکس لگا رہے ہیں۔ پوری دنیا میں اس سیکٹر کو سپورٹ کیا جا رہا ہے جبکہ عمران خان اس پر ٹیکس لگا رہے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے مانع حمل ادویات پر ٹیکس لگانے پر وفاقی حکومت کا موقف لینے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔

===============================================
https://www.independenturdu.com/node/90621