توانائی شعبہ میں بدانتظامی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا رہی ہے۔


توانائی شعبہ میں بدانتظامی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا رہی ہے۔
چھ سال میں ایل این جی امپورٹ ہموار نہ ہوسکی، تجربات کئے جا رہے ہیں۔
تیل اورگیس ڈھونڈنے والی درجنوں کمپنیاں ملک چھوڑ گئی ہیں۔ میاں زاہد حسین

05جنوری2022
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ توانائی کے شعبہ میں گورننس کے فقدان سے ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ آئی ایم ایف، منی بجٹ، مہنگائی، کمزورکرنسی اورزمینی حقائق سے متصادم پالیسیوں کی وجہ سے مسائل میں مبتلاء معیشت گیس سیکٹرمیں نا اہلی کی وجہ سے اربوں ڈالرسے زیادہ کا نقصان برداشت کرچکی ہے۔ گزشتہ ماہ پنجاب میں صرف پندرہ روزمیں ٹیکسٹائل سیکٹرکوگیس نہ ہونے کی وجہ سے ڈھائی سوملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ عالمی سطح پرملکی ساکھ بھی متاثرہوئی۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گیس بیوروکریسی گزشتہ دوسال سے ایل این جی کی بروقت درآمد میں مسلسل ناکام ہورہی ہے جس کا خمیازہ معیشت اورعوام بھگت رہی ہے۔ جب گیس سستی تھی تو اسے درآمد نہیں کیا گیا اوراب اسکی قیمت پاکستانی صارفین کی قوت خرید سے زیادہ ہوچکی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان چھ سال سے ایل این جی امپورٹ کررہا ہے اوردنیا کا نواں بڑا ایل این جی امپورٹربن چکا ہے مگراب تک کوئی نظام نہیں بنایا جا سکا ہے بلکہ ناکام تجربات کئے جا رہے ہیں۔ اس دوران نہ توگیس پائپ لائن بنائی جاسکی ہے، نہ نئے گیس ٹرمینل بنے ہیں، نہ پرانے ٹرمینلز میں توسیع کی جا سکی ہے اورنہ ہی نجی شعبہ کوگیس درآمد کرنے دی جا رہی ہے تاکہ گیس کمپنیوں کی اجارہ داری برقرار رہے جو ملکی مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ ملک کی ساٹھ فیصد برآمدات ٹیکسٹائل سیکٹرسے وابستہ ہیں جبکہ مارچ کے بعد سے اس شعبہ کی پیداوارمیں چھ فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ برآمدات 11.4 ارب ڈالر رہی تھیں مگرموسم سرما آتے ہی اس سارے سلسلہ کوبریک لگ چکی ہے اورگیس لوڈ شیڈنگ نے پیداواری عمل کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ گیس سپلائیرز نے بھی پاکستان کوگیس فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کردی ہے کیونکہ انھیں یورپ سے زیادہ منافع مل رہا ہے جبکہ دوسری طرف مقامی گیس کے ذخائر میں سالانہ نو فیصد کمی آرہی ہے۔ درجنوں آئل اور گیس تلاش کرنے والی بین الاقوامی کمپنیاں یا تو پاکستان میں اپنا کاروبار بند کرکے جا چکی ہیں یا انھیں ملک چھوڑنے پر مجبورکردیا گیا ہے جبکہ مقامی کمپنیاں بھی مس منیجمنٹ کی وجہ سے اس ضمن میں کچھ نہیں کرپائی ہیں۔