حکومت فیملی پلاننگ پروڈکٹس کو شیڈول جی سے نکالے تاکہ ہرقسم کی فارمیسی اور میڈیکل اسٹور پر فیملی پلاننگ پروڈکٹس بآسانی دستیاب ہو سکیں ۔ ماہرین کا حکومت کو مشورہ


ایک طرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے فیملی پلاننگ کے اقدامات کر رہی ہیں دوسری طرف ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ حکومت نے فیملی پلاننگ پروڈکٹس کو شیڈول جی میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے یہ پروڈکٹ صرف ایسی فارمیسی پر دستیاب ہو سکتی ہیں جنہیں کیٹیگری اے کہا جاتا ہے کیٹیگری اے کی فارمیسی وہ فارمیسی ہوتی ہے جہاں پر فارماسسٹ موجود ہونا ضروری ہے ماہرین کے مطابق کے دیگر اہم ادویات کی فراہمی اور فروخت کے حوالے سے تو یہ قانون اچھا ہے لیکن فیملی پلاننگ پروڈکٹس کے حوالے سے یہ قانون نقصان دہ ہے ۔فیملی پلاننگ کے شعبے گزشتہ 25 برسوں سے وابستہ سینئر ایکسپرٹ عامر مجید نے اس حوالے سے جیوے پاکستان کو بتایا کہ پاکستان پہلے ہی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل سے دوچار ہے اور عالمی معاہدوں اور یقین دہانیوں کی وجہ سے پاکستان کو مختلف اہم اقدامات اٹھانے ہی طرح کے فیملی پلاننگ پروڈکٹس عوام کو آسانی سے دستیاب ہوں اور ان کی رسائی آسان ہو لیکن شیڈول جی میں ان فیملی پلاننگ پروڈکٹس کو شامل کرنے سے اب ہر میڈیکل سٹور پر ان کی فراہمی اور دستیابی ممکن نہیں کیونکہ قانون منع کرتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کی پہلی ترجیح اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ پروڈکٹس باآسانی دستیاب ہو ں لہذا ان پروڈکٹس کو شیڈول فور سے نکال دینا چاہیے اور ہر طرح کے میڈیکل سٹور اور فارمیسی پر ان پروڈکٹس کی دستیابی فراہمی اور فروخت کو آسان بنانا چاہیے ۔ انہوں نے بتایا کہ تولیدی صحت کے حوالے سے فیملی پلاننگ پروڈکٹس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھانا حکومت کا ٹارگٹ ہے لیکن شیڈول جی میں ان پروڈکٹس کو شامل رکھنے سے فیملی پلاننگ پروڈکٹس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد ملک میں بڑھنے کی بجائے مزید کم ہو جائے گی حکومت کو اس سلسلے میں غور کرنا چاہئے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا اس سلسلے میں اہم کردار ہے ۔ایک سوال پر انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے گی اور اس مسئلہ کا حل نکالا جائے گا ۔