بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ کشمیری خرم پرویز دہشت گرد۔۔؟؟؟

سچ تو یہ ہے ،


بشیر سدوزئی،

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے پر بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ کشمیری خرم پرویز بھی بھارت کی نظر میں دہشت گرد ٹہرا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا ۔ اس کی گرفتاری محض ایک متحرک سماجی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ انسانی حقوق کے کارکن یا صحافی کی گرفتاری نہیں جو اپنی رپورٹس یا وسیع عالمی تعلقات سے بھارت کے ناپاک مقاصد میں رکاوٹیں کھڑی کرتا تھا یا بھاجپا کے ہندوتوا منشور کے نفاذ میں دیوار بنا ہوا تھا۔ بلکہ اس کے پیچھے بھارت کے لامتناہ مقاصد ہیں۔ کشمیری کی ہر چھوٹی بڑی آواز کو ختم کر دینا، بین الاقوامی دنیا سے کشمیر کو مکمل خفیہ رکھنا،کشمیر سے آخری مسلمان کا بھی خاتمہ تاکہ کہ ہندوتوا ایجنڈے کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے ۔ 5 اگست 2019 کے بعد بھاجپا کو راما برساد مکھر جی کے ” ایک ودھان ایک پردھان” نظریہ کے نفاذ میں بہت جلدی ہے اور اسی رفتار سے وہ اقدامات بھی کر رہی ہے۔ بھارت ایک ایک کر کے راستے کی تمام رکاٹیں صاف کر رہا ہے ۔ اب تو کانٹے بھی چننیں شروع ہو چکا ۔ جماعت اسلامی، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سمیت انقلابی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ،حریت کانفرنس کا شیرازہ بکیھر دیا،گپکار اتحاد کو کرپشن کے الزامات لگا کر اور کسی کو رشوت دے کر بے اثر کیا گیا۔ مقامی بھاجپا شاخ کو طاقت ور بنانے کے لیے وسائل اور خزانہ بہا جانے لگا ۔ نوجوانوں کے ضمیر کو خراب کرنے کے لیے سرکاری سطح پر شراب و کباب کی محفلیں سجھائی جانے لگی تاکہ ان کی غیرت و ہمیت ٹھنڈی پڑ جائے ۔۔آزادی پسندوں کو جیلوں کے ٹارچر سیلوں میں تشدد کیا جا رہا ہے ۔اوسط تین سے چار افراد کو روز مارا جاتا ہے جو مکمل غیر سیاسی اور تحریک آزادی سے لا تعلق پھر بھی قتل ہوتے ہیں ۔خرم پرویز جیسے اعلی تعلیم یافتہ بین الاقوامی تسلیم شدہ متحرک لوگوں کو بھارت اب خطرہ سمجھنے لگا ہے۔ یہ ہندوتوا ایجنڈے کے نفاذ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اور کسی وقت قیادت کے خلاح کو بھی پر کر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب بھارت کا اگلا ہدف سول سوسائٹی، وکلا، سماجی و انسانی حقوق کے وہ کارکن ہیں جو کشمیر کی سوسائٹی میں کچھ اثر رکھتے ہیں یا عوام کو ان کے کردار و گفتار پر اعتماد ہے ۔ انہیں گرفتار کیا جائے گا یا جعلی مقابلوں میں مار دیا جائے گا ۔ آزاد کشمیر کے عوام اور مہاجرین جموں و کشمیر وسائل اور اقتدار کی دوڑ میں ہیں۔ ان کو خبر ہی نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کے ساتھ کیا ہو گیا۔۔ مرد قلندر کے ایچ خورشید کی ایک ایک بات یاد آتی ہے اور کلہجہ منہ کو آتا ہے ۔ اس نے 50 کی دہائی میں کہا تھا کہ “جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا کشمیریوں کو مری سے پار ہی روکو تب یہ بھارت سے آزاد کی جنگ لڑیں گے ۔ یہ پاکستان کے معاشرے میں ضم ہو گے تو پھر بھول جائیں گے آزادی کیا ہوتی ہے” ۔ آزاد کشمیر کے اکثریتی لوگ جس قدر مزے میں ہیں پاکستان کے کسی بھی صوبہ کے عوام کو یہ گل چھرے اڑانے کی سہولت نہیں۔ ملٹری و سول بیوروکریسی میں اعلی عہدے، لوٹ کھسوٹ میں کوئی رکاوٹ نہیں ، اب بات گاڑی کوٹھی کی نہیں ہوائی جہاز بھی اپنے ہو گئے۔ زکوت دینے کے لیے فوٹو گرافر چاہئے۔ پرندوں کی طرح ہجرت کرنے والوں کو کیا خبر کہ وطن کی مٹی کے ساتھ پیڑ بنے کھڑے رہنے والوں کا آج کیا حال ہے ۔ ماشااللہ چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف کے علاوہ یہاں سارے عہدوں کے مزے اور مال و دولت سے مالا مال ہمارے لوگوں کو حاصل ہو چکا ۔ ڈائس پورا بھی پیچھے نہیں ہر کسی نے اپنی ایک تنظیم بنا رکھی ہے ۔ لیکن ہمارے جسم و ضمیر سن ہو گئے ۔ ہم کو کیا خبر کہ جسم کے ایک حصہ کو ظالم زخمی اور گدہ نوچ رہے ہیں۔ آسیہ اندرابی کس کی بہن ہے جو فکر ہو کہ تہاڑ جیل میں کس حال میں ہو گی، شبیر شاہ نے کس کی بھینس چورائی کہ 33 سال سے جیل میں ہے ۔ناتواں دھان پان سا جسم مگر فولادی قوت یاسین ملک کا کیا قصور ہے کہ جسم کی ہر ہڈی توڑ دی گئی۔ ہمارا ان سے کوئی رشتہ نہیں ان کی یاد میں آٹھ کھڑے ہوں۔۔ جو شجر و پیڑ کی طرح اپنی مٹی میں پیوست ہیں زخمی زخمی لہو لہان ہیں۔ کھیت و کھلیان نوجوانوں کے خون سے سرخ ہو گے ۔ بہنوں کی آنسوؤں سے ندی نالے بھر گئے ۔ دریا جہلم و نیلم میں لکڑیاں پکڑنے والوں کے ہاتھ میں انسانی اعضاء اور جڑی بوٹیوں کی خوشبو کے بجائے انسانی خون کی مہک آنے لگی ہے ۔ ہم نے کیوں جھوٹ بولا تھا کہ ” تم بھی اٹھو اہل وادی ہم تمارے ساتھ ہیں “۔ خرم پرویز کے لیے کوئی ایک بھی نہیں نکلا نہ مظفرآباد میں، نہ میر پور، باغ، راولاکوٹ، کوٹلی میں کراچی میں آٹھ لاکھ کشمیری ہیں اگر کشمیر کے مسئلہ پر کوئی جمع ہوتا ہے تو وہ کراچی کی سول سوسائٹی، مہاجر، سندھی بلوچ پٹھان یا پہنجابی۔ خرم پرویز سری نگر کے خوش حال گھرانے کا چشم و چراغ اور ابلاغیات میں ماسٹر ڈگری ہولڈر ہے ۔ اس کے پاس کھانے کو بہت کچھ اور کمانے کی بے پناہ صلاحیتیں ہیں ۔ سب آسایشوں اور سہولیات کو چھوڑ کر کانٹوں بھرا ہار خود ہی گلے میں ڈالا۔ اس لیے کہ اس کا ضمیر زندہ اور غیرت و ہمیت ٹھنڈی نہیں ہوئی ۔ اس کو پہلے نوٹس دیتے رہے لیکن ان کے رنگ میں نہیں رنگا۔ 14 ستمبر 2016 کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ اقوامِ متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے 33ویں اجلاس میں شرکت کے لیے جنیوا جا رہا تھا۔21 ستمبر کو سری نگر کی مقامی عدالت نے رہا کرنے کے احکامات جاری کیے لیکن دوبارہ حراست میں لے کر ‘پبلک سیفٹی ایکٹ’ کے تحت 76 روز تک نطر بند اور تشدد کے بعد 30 نومبر 2016 کو چھوڑا گیا ۔ اب اس کو پھر چار روز قبل ،دہشت گردوں کی مالی مدد ، ریاست کے خلاف بغاوت اور حکومت کے خلاف سازش کے الزام میں سری نگر سے گرفتار کر کے حیدر آباد دکن کے ٹارچر سیل میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ موصول اطلاعات کے مطابق بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)کے اہلکار پیر22 نومبر کی شب سری نگر میں اس کی رہائش گاہ اور دفتر سے لیپ ٹاپ، موبائل فون اور چند کتابیں بھی ان کے ہمراہ لے گئے ۔اس پر یہ الزام بھی ہے کہ یہ مقامی اور بیرونی ممالک سے عطیات کے نام پر بھاری رقوم جمع کرنے کے لیے ملک بھر میں این جی اوز اور ٹرسٹ کے ایک بڑے نٹ ورک سے منسلک ہیں جو کشمیر میں دہشت گردوں کی مالی مدد کر رہا ہے ۔ دنیا اس الزام کو کیسے مانے گی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق پر کام کرنے والا متحرک کارکن دہشت گرد کیسے ہو سکتا ہے ۔ لیکن بھارت سے یہ سوال پوچھے کون قیادت ہو، کوئی تنظیم ہو لاوارث اور یتیموں کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھتا۔۔ خرم پرویز دس ایشیائی ممالک میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تیرہ تنظیموں کے اتحاد ایشین فیڈریشن اگینسٹ انویلینٹری ڈس اپیئرنسز (ای ایف اے ڈی) کے چیئر پرسن اور جموں کشمیر کولیشن آف سِول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) کے پروگرام کوآرڈینیٹر ہے۔وہ دو دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں پائی جانے والی انسانی حقوق کی صورتِ حال کو اجاگر کرنے میں سرگرم ہے۔ 2006 میں ‘ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ’ اور 2016 میں ایشیا ڈیموکریسی اور ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا گیا یہ بین الاقوامی ایوارڈ کیا دہشت گردوں کو دئے جاتے ہیں ۔ خرم نے کشمیر اور پونچھ میں ہزاروں مبینہ گمنام قبروں کے مسئلے کو اٹھایا جو بین الاقوامی خبر بنی۔ جس پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے حرکت میں آئے ۔ بس خرم کا یہی جرم ہے جس کے پاداشت میں گرفتار ہوا ۔این آئی اے بھارت کی بدنام زمانہ فورس ہے جو کسی بھی شہری کو چھ ماہ کے لیے ٹارچر سیل میں رکھ سکتی ہے۔ کشمیر کے آٹھ ہزار سے زائد لا پتہ جوانوں کو اسی ایجنسی نے گرفتاری کے بعد ٹارچر کر کے ہلاک کیا جن کا ابھی تک سراغ نہیں ملتا۔ غالب امکان ہے کہ دریافت ہونے والی گمنام قبریں انہی لاپتہ افراد کی ہیں۔ اس گھناؤنے جرم پر خرم پرویز این آئی اے کا ناقد اور لاپتہ افراد کے ورثاء کی ہر ممکن مدد کرتا رہا۔ اس نے لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے کئی سال تک مہم چلائی۔ اُن کی بیواؤں اور ورثاء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ خرم کی اسی مہم کے دوران ہی لاپتہ افراد کی بیواؤں کو ’آدھی بیوہ‘ کا نام دیا گیا۔بھارتی حکومت نے کشمیر کا نام لینے والے ہر فرد کا صفایا کرنے کی غرض سے تیسرے درجہ کا آپریشن شروع کر دیا ہے ۔ اس میں وہ انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے اراکین کو قتل یا ٹارچر کرنے کا منصوبہ بنا چکا یہ وہ لوگ ہیں جو عسکریت پسند نہیں اور نہ علیحدگی پسند سیاسی کارکن ہیں لیکن ناانصافیوں پر آواز اٹھاتے ہیں بھارت کی دہشت گرد حکومت ہر وہ آواز بند کرنے چاتی ہے جو اس کے سیاہ کاری میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے ۔ اگر بھارت اس کوشش میں کامیاب ہوتا ہے تو پھر صدیوں کشمیر کا نام لینا دشوار اور وہ اٹوٹ انگ بنانے میں کامیاب ہو جائے گا ۔ خرم پرویز کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر فضا ہموار ہے ۔’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور دیگر بین الاقوامی ادارے خرم پرویز کی خدمات سے معترف اور بھارتی اقدام کی مذمت کر رہے ہیں لہذا پاکستان کی جانب سے مذمتی بیان سے کام نہیں چلے گا ۔ فوری طور پر خرم پرویز کے مسلے کو اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جائے آزاد کشمیر کے عوام اور مہاجرین جن کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ۔حریت کانفرنس اسلام آباد چپٹر اور آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت عوام کو جوڑیں اور سڑکوں پر نکلیں ورنہ بھارت کشمیر کو نگل رہا ہے ۔۔