سینئر صحافی شمس کیریو کے ہمراہ جیوے پاکستان ایڈیٹوریل ٹیم کا عمر کوٹ کا یادگار سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔


سینئر صحافی شمس کیریو ایک زندہ دل اور خوش مزاج انسان ہیں صحافت میں انہوں نے اپنی ذہانت اور محنت سے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کا نام ملک بھر کے صحافتی حلقوں میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے ان کی طبیعت میں سادگی اور انکساری ہے ۔


گزشتہ دنوں شمس کیریو کے ہمراہ جیوے پاکستان ڈاٹ کام کی ایڈیٹوریل ٹیم کو سندھ کے تاریخی اور خوبصورت شہر عمرکوٹ کے سفر کا موقع ملا ۔کراچی سے عمر کوٹ تک گاڑی خود شمس کیریو نے ڈرائیو کی ۔ ان کی ڈرائیونگ صلاحیتیں باکمال ہیں ۔لمبی ڈرائیو سے بالکل نہیں گھبراتے بلکہ اسے انجوائے کرتے ہیں ۔نوری آباد کے قریب سدابہار ریسٹورنٹ پر پہلا قیام اور ناشتہ تھا ۔یہ کراچی سے حیدرآباد اور آگے کا سفر کرنے والوں کے لیے ایک بہترین قیام گاہ ہے جو آپ نے محل وقوع سادگی اور جملہ سہولتوں کی وجہ سے

مسافروں میں پسندیدگی اور پزیرائی حاصل کر چکی ہے ۔


شمس کیریو کے ہمراہ جیوے پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور سینئر صحافی طاہر حسن خان اور ایڈیٹر سالک مجید نے اس سفر کے دوران ملک کے سیاسی حالات سمیت مختلف واقعات پر سیر حاصل گفتگو کی اور متعدد اہم اور دلچسپ واقعات کی یادیں تازہ کیں۔ سوپر ہائی وے کا سفر بہت دلچسپ اور معلوماتی گفتگو کے ساتھ تمام ہوا ۔پھر حیدرآباد سے میرپورخاص تک ان علاقوں کی اہم سیاسی شخصیات کے قصے اور پرانے افسران کے واقعات پر باتیں ہوئیں۔ میرپورخاص تک پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے بنائی جانے والی خوبصورت شاہراہ پر سفر واقعی قابل تعریف ہے ۔ٹنڈو جام سے ٹنڈوالھیار تک سڑک کے دونوں اطراف کیلے اور آم کے خوبصورت باغ اور ان سے آگے لہلہاتی فصلیں ایک سحر طاری کر دیتی ہیں بلاشبہ یہ علاقے بہت زرخیز اور شاداب ہیں اور یہاں کے لوگ بہت محنتی اور خوش نصیب ہیں کہ انہیں اتنا زرخیز علاقہ نصیب ہوا اور پانی کی وافر مقدار میں دستیاب یا فراہمی بھی زمینوں سے سونا اگلنے کی بڑی وجہ ہے راستے میں راشد آباد ریلوے اسٹیشن اور سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام اور پی پی ایچ آئی کے سنٹرز گزرنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول رور مبذول کراتے ہیں ۔میرپورخاص شوگر مل اور ڈسٹلری بھی سفر کو خوبصورت یادوں سے جوڑتی ہیں ۔سینئر سیاستدان سائیں علی نواز شاہ کی شوگر مل کی اپنی تاریخ اور یادیں ہیں ۔جو ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق سے لے کر آصف علی زرداری کے دور صدارت تک کے مختلف اہم واقعات کو یاد دلاتی ہیں ۔کسی راستے میں راول پام ہاؤس پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن کی پہچان بن چکا ہے اور علاقے میں ان کی سیاسی مقبولیت کو واضح کرتا ہے
اس پورے خطے کی خواتین بھی زراعت میں بہت محنت کرتی ہیں اور ان کی محنت قابل تعریف ہے ۔

اتوار کے روز جب ہم میرپورخاص کے پریس کلب کے سامنے سے گزرے تو وہاں تالے پڑے ہوئے تھے میرپورخاص سے عمر کوٹ کا سفر ویسے تو بمشکل 78 کلومیٹر پر مشتمل ہے لیکن سڑک زیر تعمیر ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار اس چھوٹی سڑک پر سفر بہت سست روی کا شکار ہو جاتا ہے شمس کیریو کو ان راستوں پر ڈرائیونگ کا کافی تجربہ ہے اس لیے انہوں نے عمرکوٹ تک ڈرائیونگ سیٹ خود سنبھالے رکھی۔طاہر حسن خان اور طارق مجید ان کے ساتھ سیاسی گفتگو کرتے رہے ۔کراچی سے صبح آٹھ بجے شروع ہونے والا یہ سفر تقریبا ڈھائی بجے عمرکوٹ سے آگے چھورچھاؤنی کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں پہنچ کر تھما ۔جہاں پیر صاحب پگارہ کی ہر جماعت کے چیف خلیفہ کے صاحبزادے کی شادی کی دعوت تھی اور ہزاروں کی تعداد میں مہمان ملک اور بیرون ملک وہاں پہنچے ہوئے تھے واقعی جنگل میں منگل کا سماں تھا اور شادی کے انتظامات بے مثال تھے وہاں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر ارباب غلام رحیم اور صوبائی رکن اسمبلی حسنین مرزا اور سردار عبدالرحیم اور کراچی کے ہردلعزیز صحافیوں اکبر جعفری اور شاہ حسین اور دیگر دوستوں سے ملاقات ہوئی چیف خلیفہ اور ان کے ساتھیوں کی بہت بڑی ٹیم کے ارکان تمام مہمانوں کا نہایت گرمجوشی سے استقبال کر رہے تھے ۔شادی کی اس تقریب کے بارے میں مقامی دوستوں نے بتایا کہ تقریبا پچاس ہزار افراد کے کھانے کا اہتمام کیا گیا ہے اور دوپہر تک 20 ہزار سے زائد لوگ کھانا کھا چکے ہیں ۔ہر گھنٹے میں چار مختلف مقامات پر بار بار مختلف شفٹوں میں لوگوں کو کھانا کھلایا جا رہا تھا تقریبا 700 سے زائد افراد خانہ تیار کرنے والوں میں شامل تھے جو تین دن پہلے سے پکوان کی تیاریوں میں مصروف تھے مہمانوں کے لیے متعدد ڈشیں تیار کرائی گئی تھی بھارت سے بھی ہر جماعت کے لوگ اور بھارتی وزیر بھی خصوصی طور پر شادی میں شرکت کے لیے براستہ شارجہ اور دبئی پاکستان پہنچے اور پھر کراچی سے عمر کوٹ کا سفر طے کر کے شادی کی دعوت میں شریک ہوئے ان کے علاوہ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنما اور سیاسی مخالفین بھی اس موقع پر شیروشکر نظر آئے متعدد قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی اس تقریب میں شریک ہوئے ۔
شمس کیریو کے ہمراہ عمرکوٹ سے کراچی واپسی کا سفر بھی شاندار رہا ۔راستے میں عمرکوٹ کے تاریخی کال پر بھی رکھے اور فوٹو سیشن کا اہتمام کیا گیا ۔میرپور خاص اور حیدرآباد کے سفر میں ٹریفک جام میں پھنسے ایک چنچی رکشہ ڈرائیور نے ہماری گاڑی کو بیک سائیڈ سے ایک بھی کیا جس کے نتیجے میں ہماری گاڑی کو معمولی نقصان پہنچا لیکن شمس کیریو بڑے فراک دل انسان ہیں رکشہ ڈرائیور کی غلطی کو نظر انداز کر دیا ۔راستے میں ایک بار پھر آپ پر مکینک سے گاڑی کے انجن کو چیک کرایا اور اس کی مشاورت کے بعد کراچی کا سفر آگے بڑھایا ۔حیدرآباد پہنچ کر شمس قیدیوں نے ایک اور باکمال فیصلہ کیا کریں ان کو حیدرآباد کل کی بجائے

جامشورو پل سے کراس کرنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے 40 منٹ کے قریب سفر بچ گیا کیونکہ حیدرآباد روڈ سے پل کی طرف ٹرکوں اور ٹرالروں کی طویل قطار لگی ہوئی تھی ۔جامشورو پل سے ٹریفک کا رش نہیں ملا اور تیزی سے ڈرائیو کرتے ہوئے ہم لوگ سپر مدینہ ہوٹل موٹروے پہنچ گئے ۔ٹی بریک کے بعد چمپینزیوں نے اپنی ڈرائیونگ کے جوہر دکھائے اور ہم گیارہ بجے سے پہلے رات کو کراچی میں داخل ہو چکے تھے اور یہ سفر نہایت یادگار رہا ۔