پاکستان میں شرح سود پڑوسی ملک سے دگنی ہوگئی۔

mian zahid hussain fpccimian za

مہنگائی میں پاکستان خطے کے تمام ممالک سے آگے ہے۔
غلط پالیسیوں کا خمیازہ عوام اورروپیہ بھگت رہے ہیں۔ میاں زاہد حسین

22نومبر2021
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں شرح سود پہلے ہی خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ تھی جواب بھارت سمیت کئی ممالک سے دگنی سے زیادہ ہوگئی ہے جبکہ افراط زر بھی خطے کے دوسرے ممالک سے بہت زیادہ ہے جس کی وجہ اکنامک مینیجرز کی جانب سے زمینی حقائق سے متصادم پالیسی سازی اورآنکھیں بند کر کے ان پر بھرپورعمل درآمد ہے۔ جس کا نتیجہ امریکی ڈالر کے ہاتھوں روپے کی درگت ہے۔ مئی میں جو ڈالر 152روپے کا تھا اب 175 روپے کا ہے جس کا سارا کریڈٹ اکنامک مینیجرز کو جاتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مانیٹری پالیسی سے قبل ہی سوسے زیادہ اقتصادی ماہرین نے ایک سروے کے دوران شرح سود میں زیادہ سے زیادہ ایک فیصد اضافہ کا اندازہ لگایا تھا جوغلط ثابت ہوا اوراس میں ایک سو پچاس بیسزپوائنٹ کا اضافہ کیا گیا۔ بزنس کمیونٹی میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مرکزی بینک مقامی حالات کو مدنظر رکھے بغیر آئی ایم ایف کے احکامات پرعمل درآمد کررہا ہے جوعوام اورمعیشت کے لئے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ارباب اختیار کی غلطیوں کا خمیازہ بزنس کمیونٹی، عوام اور روپیہ بھگت رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ شرح سود میں اضافہ اوراس سے قبل توانائی کی قیمتیں بڑھانے اور گیس کی شدید قلت کے بعد حکومت جی ڈی پی میں بڑھوتری کا ہدف حاصل نہیں کر سکے گی جبکہ اس سے محاصل میں بھی کمی آئے گی۔ شرح سود بڑھانے کے فیصلے سے مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کے علاوہ اہم فصلوں کی پیداواری لاگت بڑھنے کے سبب ان میں کمی آئے گی جو فوڈ سیکورٹی کی صورتحال کو مذید خراب کردے گی جبکہ اس سے نجی شعبہ کی جانب سے قرضے لینے کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی جس سے سرمایہ کاری میں کمی آئے گی۔ جب تک اسٹیٹ بینک کے ذمہ اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے اورمہنگائی کم کرنے کا ٹاسک ہوگا وہ اپنا کام نہیں کرسکے گا کیونکہ یہ دونوں اہداف ایک دوسرے کی ضد ہیں۔