جسٹس ریٹائرڈ رانا شمیم اور وزیر اعلی سندھ کی قربتیں ۔۔۔۔۔کب کیوں کیسے ؟

پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشافات کرنے والے جسٹس ریٹائرڈ رانا شمیم اب ہاٹ کیک بنے ہوئے ہیں ہر طرف ان کا چرچا ہے اور لوگ ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی جستجو میں نظر آ رہے ہیں ۔انہوں نے جو کچھ کہا ۔ان کے حلف نامے میں کیا کچھ سامنے آیا ۔۔۔اب انہوں نے عدالت میں کیا کہنا ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے ۔۔۔۔۔اگرچہ یہ سب باتیں اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان باتوں سے ہٹ کر ایک اور معاملہ بھی دلچسپ ہے کہ گلگت بلتستان کے چیف جج رہنے والے جسٹس ریٹائرڈ رانا شمیم نے اپنی طویل وکالت تو کراچی شہر میں کی اور یہاں پر سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے کیسز لڑے ان کا بیٹا بھی وکالت کرتا ہے ۔


سندھ کے وزیراعلیٰ نے انہیں شہید ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کرنے کی منظوری دی۔اس کے بعد مختلف سمریاں اور فائلیں بھی وزیراعلی کے پاس جاتی رہی اور وہ خود وائس چانسلر کی چھٹی بھی منظور کرنے کا بتا چکے ہیں ۔لوگ پوچھ رہے ہیں کہ رانا شمیم سے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی قربتیں کب کیوں اور کیسے پیدا ہوئیں۔ بظاہر وزیراعلی نے رانا شمیم کے بارے میں بہت زیادہ کچھ جاننے کا دعویٰ نہیں کیا نہ ہی کوئی خاص باتیں کی ہیں بلکہ سرسری ذکر کیا ہے ۔ہوسکتا ہے مراد علی شاہ رانا شمیم کو بہت پرانا نہ جانتے ہوں لیکن رانا شمیم تو مراد علی شاہ اور ان کے والد عبداللہ شاہ کو بھی بہت اچھے سے جانتے ہیں ۔وزیراعلی ہاؤس کے ذرائع کا بتانا ہے کہ رانا شمیم کی کراچی میں تعینات بعض انتہائی طاقتور غیر سولین شخصیات سے دوستی اور رشتہ داری کے بارے میں وزیر اعلی اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو پتہ چلا تو پھر انہیں لا یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کرنے میں دیر نہیں کی گئی ۔گویا وزیراعلی اور پارٹی قیادت کو بوقت ضرورت رانا شمیم ایک کارآمد شخصیت لگے اس لیے ان کو وائس چانسلر مقرر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ اور پارٹی قیادت نے احسان مند کر دیا ۔
آپ لوگ رانا شمیم کے نام سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے لیکن قانونی حلقوں میں ان کا نام انتہائی جانا پہچانا بلکہ بہت مانا ہوا ہے اور وہ اپنی وکالت اور عدالتی کیریئر کے دوران کافی دفعہ انت قابلیت اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں ۔
جب وہ چیف جسٹس گلگت بلتستان بنے تو وہاں کے وزیراعلی کی نااہلی کا معاملہ بھی ان کے ہاتھ لگ گیا تھا اور یہ معاملہ بھی کافی اہم اور مشہور ہوا تھا وہ ابھی چیف جج کی حیثیت سے رانا شمیم کا دور تہلکہ خیز تھا وہاں چیف سیکریٹری اور چیف منسٹر کے درمیان اختلافات اور سرد جنگ بھی چل رہی تھی تھی جس میں چیف سیکرٹری کو گھر جانا پڑا تھا۔
رانا شمیم کے بارے میں وکیل دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پتے بہت ہوشیاری سے اور کمال ٹائمنگ سے کھیلتے ہیں بلکہ وہ اپنے کارڈ بڑی چالاکی اور ذہانت سے کھیلنے کے عادی ہیں اور ان کا کیریئر ایک کے بعد دوسری بڑی کامیابی سے عبارت نظر آتا ہے جو ان کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی کا کھلا ثبوت ہے ۔

================================

کراچی ( 20 نومبر ): وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وکلاءکیلئے ہیلتھ انشورنس دینے کا اعلان کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ بار کی سالانہ عشائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ نے ایگزیکٹو اور مقننہ کے پاورز پر قبضہ کرلیا ہے اس طرح کرنے سے ادارے کمزور ہوگئے ہیں جبکہ مقننہ کو کمزور کرنے کیلئے سات قابلیت کی شرائط رکھ دی گئی ہیں جس میں صادق و امین بھی شامل ہے۔ اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میرا بچپن ہائی کورٹ کی لان میں کھیلتے گزرا جب میرے والد ہائی کورٹ کے وکیل تھے۔ ان دنوں میرے والد مجھے اور میری بہن کو اسکول سے یہاں چھوڑتے اور خود اپنے کیسز کیلئے نکل پڑتے ۔ انھوں نے کہا کہ میرے والد زندگی میں ایام میں ویل چیئر پر سخت بیماری کی حالت میں آکر بیل کیلئے پیش ہوئے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس ملک کا آئین ہے جس سے ہم سب نے فالو کرنا ہے۔ میں 2002 سے رکن اسمبلی ہوں، 1973 کے آئین میں اسمبلی رکنیت کیلئے دو اہلیت تھیں جس میں اس ملک کا شہری ہونا اور عمر کی حد شامل تھی۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وقت کے ساتھ مقننہ کو کمزور کرنے کیلئے 7 اہلیت رکھی گئی جس میں صادق و امین بھی شامل ہوگئی جبکہ پہلے نااہلیت کی چارحدیں تھیں اب 16 ہوگئی ہیں جس میں پروفیسر اور سیکنڈ ایئر بھی اہل ہونا شامل کردیا گیا ہے اور اب ایف بی آر، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک اور دیگر اداروں سے رپورٹ منگوائی جاتی ہیں۔ جسٹس منصور علی خان کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جس وقت جسٹس منصور علی خان چیف جسٹس پنجاب تھے تو کسی نے لکھا کہ یہ مریکل ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جب ایک مقننہ انتخابات کیلئے جاتے ہیں پھر اسکروٹنی شروع ہوتی ہے۔ اگر رکن اسمبلی بن گیا تو چینلنج بھی ہونا شروع ہوجاتا ہے، میں انسٹرکشس کو کمزور کرنے کیلئے جو بات کرتا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آئین کو تحفظ نہ دے سکے، اگر کوئی رکن اسمبلی بن جاتا ہے تو چیلنج کی صورت میں ٹربیونل کو چھ ماہ فیصلہ کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ایگزیکٹو کو کمزور کیا گیا ہے، ایگزیکٹو کیسز بھی مجھے بھگتنے پڑتے ہیں، اگر کچھ کہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ توہین عدالت لگ جائے گی، باقی دنیا میں توہین عداہت کے کیسز ختم ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لندن میں ایک اخبار نے جج کا الٹا فوٹو شایع کرکے کیپشن لکھا پرانا فوٹو ۔ جس پر جج نے کہا میں پرانا ہوں، لیکن بیوقوف نہیں اس کا فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے لیکن میں توہین عدالت نہیں لگاؤ ں گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ اب عدلیہ ایگزیکٹو کا پاور بھی لے گئی ہے، عدلیہ نے ایگزیکٹو اور مقننہ کے پاور پر بھی قبضہ کیا ہے اس طرح کرنے سے ادارے کمزور ہوگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان نے آج لاہور میں کہا کہ ہم دباؤ یا ڈکٹیشن نہیں لیتے، چیف جسٹس کی یہ بات سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی خان نے لکھا تھا کہ عدلیہ آخری امید ہے، عدلیہ نے جمہوریت کو تحفظ دینا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں جب سیاست میں آیا تو میرے والد نے کہا کہ آپ کے کام پر شک کیا جائے گا،میں امریکا میں نوکری کررہا تھا جب مجھے والد نے بلاکر انتخابات لڑنے کیلئے کہا۔ خطاب کے آخر میں وزیراعلیٰ سندھ نے وکلاءکیلئے ہیلتھ انشورنس دینے کا اعلان کیا اور سندھ ہائی کورٹ کے دیرینہ مسئلہ پارکنگ کا حل بھی نکالنے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے شرکاء کو سندھ کابینہ میں میرپورخاص میں ہائی کورٹ سرکٹ بینچ قائم کرنے کی بات بھی کی ۔
عبدالرشید چنا
میڈیا کنسلٹنٹ، وزیراعلیٰ سندھ

=======================================

تحریر:: طارق ابوالحسن

سابق وزیراعظم نواز شریف کے حق میں لندن میں بیان حلفی دینے والے اور
پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں کے مہنگے ترین وائس چانسلر رانا محمد شمیم کراچی کی شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء کے وائس چانسلر ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس رانا محمد شمیم ماہانہ تقریبا ۳۰ لاکھ اور سالانہ ساڑھے تین کروڑ روپے سے زائد تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کی تقرری پر بھی سوالاٹ اٹھے ہیں ،لیکن وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ رانا شمیم کی تقرری اور تنخواہ قانون کے مطابق ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے مقدمات سے متعلق لندن میں بیان حلفی دے کر مشہور ہونے والے ریٹائرڈ جسٹس رانا محمد شمیم ستمبر 2019 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی آف لاء زیبل کے وائس چانسلر مقرر ہوئے ۔۔۔ دستاویزات کے مطابق رانا شمیم کی ماہانہ تنخواہ الاونسز سمیت 29 لاکھ 48 ہزار روپے سے زیادہ ہے اور وہ سالانہ تین کروڑ 53 لاکھ 80 روپے وصول کر رہے ہیں ۔ رانا شمیم کی وائس چانسلر کے عہدے پر تقرری پر بھی سوالات اٹھے ہیں لیکن وزیر اعلی سندھ کہتے ہیں یہ سب قانون کے مطابق ہے ۔۔۔ پریس کانفرنس میں اس بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے کہا کہ “”رانا شمیم کی تقرری سرچ کمیٹی کے ذریعہ ہوئی تھی ،ہمارا وائس چانسلر کی قانون یہ کہتا ہے کہ اس عہدے کیلئے جج ہوں یا اس پائے کے وکیل ہوں ، رانا شمیم گلگت بلستان کے چیف جج رہ چکے ہیں اس بنیاد پر رانا شمیم کی تقرری ہوئی تھی اور جب میرے پاس نام آیا تھا مجھے یاد نہیں کہ کتنے نام آئے تھے ،لیکن قانون کے مطابق تقرری تھی ، تین نام آئے ہوں گے ، یہ چیف جج رہ چکے ہیں گلگت بلستان کے ، تنخواہ کا جہاں تک تعلق ہے اس کا بڑا آسان طریقہ ہے کہ جو آخری تنخواہ کسی کی ہوتی ہے وہ کم از کم رکھنی پڑتی ہے ، اور اس کے بھی قوانین موجود ہیں ، جہاں تک یہ کہ وہ دیڑھ سال سے یونی ورسٹی نہیں آئے یہ غلط ہے ، اس لئے کہ پچھلے دنوں مجھے صحیح یاد نہیں مجھ سے ملاقات ہوئی تھی وہ ڈیڑھ سال سے کم عرصہ ہوا ہے مجھ سے ملاقات ہوئے ، ایسا نہیں کہ وہ ڈیڑھ سال سے نہیں آئے۔””

رانا شمیم کو تنخواہ سندھ حکومت ادا کرتی ہے ۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی آف لا کراچی میں واقع ہے ۔ جبکہ یونیورسٹی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ رانا شمیم گزشتہ 20 ماہ میں بمشکل 20 دن ہی یونی ورسٹی آئے ، وہ اسلام آباد میں اپنے گھر میں بنے آفس سے ہی یونی ورسٹی کے معاملات چلاتے ہیں ۔ ان کی سہولت کیلئے یونی ورسٹی کا اسٹاف بھی اسلام آباد میں تعینات کیا گیا ہے۔
رانا شمیم جنرل مشرف کے دور میں پی سی او کے تحت سندھ ہائی کورٹ میں ایڈہاک جج بنے ، تاہم اس وقت کے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے رانا شمیم کو تاریخ پیدائش میں رد وبدل کرنے اور عدالتی عملے کے ذریعے سے غلط فائدے حاصل کرنے جیسے کاموں میں ملوث ہونے کی بنا پر رانا شمیم کو 2008 میں سندھ ہائی کورٹ کے مستقل جج کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔