اقلیتیں

ڈاکٹر توصیف احمد خان
——

بانی پاکستان نے اپنی ساری زندگی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد میں گزاری یہی وجہ ہے کہ اقلیتوں کے کئی نمایاں افراد نے پاکستان بنانے کی حمایت کی۔

متحدہ ہندوستان کی پنجاب اسمبلی میں جب پنجاب کی پاکستان میں شمولیت کے بارے میں قرارداد پیش ہوئی تو اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی تو دونوں طرف کے ووٹ برابر ہوگئے تو عیسائی اسپیکر سینگا صاحب نے پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر پنجاب کی پاکستان میں شمولیت کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کیا۔ تحریک پاکستان کے دوران مشرقی پاکستان کے دور دراز علاقہ سے منتخب ہونے والے ہندو رکن نے پاکستان کی حمایت کی۔

جب 10اگست 1947ء کو نئی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس کراچی میں شروع ہوا تو مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح نے اسمبلی کی صدارت کے لیے مینڈل کا نام تجویزکیا، یوں ایک ہندو رکن نے تمام اراکین سے حلف لیا۔ نئے گورنر جنرل محمد علی جناح نے مینڈل کو ملک کا پہلا وزیر قانون مقرر کیا۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد بیرسٹرمحمد علی جناح نے گورنر جنرل کا عہد ہ سنبھالا تو اس دوران کراچی میں مذہبی فسادات ہوئے۔ جناح صاحب نے ہندو برادری کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کی ہدایت کی، وہ شام کو جب کراچی شہر کے دورہ پر نکلے تو تباہ حال عمارتوںکو دیکھ کر ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ کہا جاتا ہے کہ جناح صاحب عوام کے سامنے دو دفعہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے تھے۔ جب ان کی اہلیہ رتی کی تدفین قبرستان میں ہورہی تھی تو وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پاسکے تھے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے ۔

اس صدی کے آغاز کے ساتھ دہشت گردی کی لہر آئی۔ مخصوص جنونی گروہوں نے اقلیتوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ پہلے مسلمانوں کے چھوٹے فرقے دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ مذہبی جلوسوں پر خودکش حملے ہوئے، امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ عیسائیوں کے چرچ بھی اس دہشت گردی کی زد میں آئے۔ خیبرپختون خوا میں ہندو اور سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی اور متنازعہ امتناعی قوانین کا نشانہ اقلیتیں بننے لگیں۔

صورتحال اس حد تک خراب ہوئی کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی سالانہ رپورٹوں میں ان واقعات کا ذکر ہونے لگا۔ پاکستان کی گارمنٹس کی مصنوعات کے سب سے بڑے خریدار یورپی یونین میں شامل ممالک ہیں اور یورپی یونین نے ان مصنوعات کی مارکیٹ میں کھپت کے لیے ٹریف کی بنیاد پر جی ایس پی پلس کا درجہ دیا ہوا ہے۔ یہ یورپی یونین پوری دنیا میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے انتہائی سنجیدہ ہے، یوں یورپی یونین کے ایجنڈا میں پاکستان میں انسانی حقوق کا مسئلہ شامل ہوگیا۔

پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو انتہائی اہمیت دی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کھوسہ کی صدارت میں فل بینچ نے ایک کمی خاتون کو انصاف فراہم کیا۔ سپریم کورٹ کے ایک اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کی ابتر حالت کو محسوس کیا اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت کا ازخود نوٹس لینے کا اختیارSuo Moto استعمال کیا۔ جسٹس جیلانی نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی معروضات کو سنا اور ایک جامع فیصلہ دیا۔

جسٹس جیلانی کے پیش رو جسٹس نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ایک سینئر پولیس افسر ڈاکٹر شعیب سڈل کی قیادت میں ایک رکنی کمیشن مقرر کیا۔ ڈاکٹر شعیب سڈل نے مکمل تحقیقات کے بعد ایک رپورٹ بنائی۔ اس رپورٹ میں ایسے قوانین کی نشاندہی کی گئی جس سے اقلیتوں سے امتیازی سلوک ہوتا ہے اور تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ لے کر ایسے مواد کی نشاندہی کی جس کی بنیاد پر طالب علموں میں ایک مخصوص ذہن تیار ہوتا ہے، ابھی اس کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کے کئی مراحل باقی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن (HRCP) کی سالانہ کانفرنس گزشتہ ہفتہ لاہور میں منعقد ہوئی۔ کمیشن کی چیئرپرسن حنا جیلانی اپنی بڑی ہمشیرہ عاصمہ جہانگیر کی ہم پلہ ہیں۔ انھوں نے اس موقع پر اپنی تقریر میں بتایا کہ وہ اور انسانی حقوق کے دیگر وکلاء اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے مسلسل کوششیں کررہے ہیں اور جلد ہی سپریم کورٹ اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے سماعت کرے گا اور وہ اس سماعت کے موقع پر تصدق جیلانی کے کیس پر عملدرآمد کے بارے میں حقائق سے معزز ججوں کو آگاہ کریں گی۔ اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے اقدامات بھی تجویز کریں گی تاکہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کیے جاسکیں۔

اس کانفرنس میں ایک نوجوان نے شکوہ کیا کہ جب لوگ مر جاتے ہیں تو ساری دنیا میں یہ روایت ہے کہ مرحومین کو دنیا کے معاملات سے مبرا سمجھا جاتا ہے مگر تدفین کے بعد ان کی آخری آرام گاہوں کا کہیں تقدس پامال نہیں ہوتا۔ انھوں نے اپیل کی کہ حکومت مرنے والوں کی آخری آرام گاہوں کے تقدس کی بحالی کے لیے اقدامات کرے۔ موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد اقلیتوں کے تحفظ کے لیے انتہائی حساس ہیں۔ جسٹس گلزار کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں ان عمارتوں کو جن پر ناجائز قبضہ ہوا ہے ہندوؤں کو واپس کرنے کے احکامات دیئے۔ جسٹس گلزار کے حکم پرخیبر پختون خوا کے چھوٹے شہر کرک میں ہندو کے مندر شری پارام ہنس جی مہاراج مندر کو بازیاب کرایا گیا۔

چند ماہ قبل بہاولپور کے قریب مندر پر حملہ کا نوٹس لیا۔ جسٹس گلزار کے حکم کی بناء پر حملہ آور گرفتار ہوئے۔ عدالت نے حکم دیا کہ حملہ آوروں کے مندرپر حملہ میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ اب دیوالی کے تہوار کے موقع پر جسٹس گلزار کرک تشریف لے گئے۔ انھوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا تمام اداروں کی ذمے داری ہے۔

تحریک انصاف کے سندھ سے منتخب ہونے والے اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار جسٹس گلزار کے ساتھ کرک گئے تھے۔ انھوں نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ رواں سال 8نومبر کا دن پاکستان میں بسنے والے محب وطن غیر مسلم اقلیتی کمیونٹی بالخصوص ہندو برادری کے لیے ہر لحاظ سے تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے جب ایک طویل پرامن جدوجہد کے نتیجہ میں انصاف کا بول بالا ہوگیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ ہندو دھرم کا بڑا تہوار دیوالی شری رام کی اپنی پتنی سیتا اور بھائی لکشمن کی ایوبیہ واپسی کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ وہ 14 سال کے بعد لنکا کے طاقتور راجہ راون کو شکست دینے کے بعد گھر لوٹے تھے، ان کی واپسی کی خوشی میں پورے علاقہ میں جشن منایا گیا تھا مگر پاکستان میں اس سال یہ تہوار ہندو برادری کے لیے دوبالا ہوگیا جب صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع کرک کے علاقہ نیری میں ایک انسان دوست ہندو شخصیت شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی ایک طویل عرصہ بعد روشنیوں سے جگمگا اٹھی۔ معزز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ہندو کمیونٹی کے ساتھ دیوالی کی خوشی میں شریک ہو کر ملک بھر کے پسے ہوئے عوام کے دل جیت لیے۔

اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ اسلام آباد قدیم گندھار تہذیب کا حصہ ہے۔ اس پورے علاقہ میں بدھوں اور ہندوؤں کے قدیم مندروں کے آثار پائے جاتے ہیں ۔ ہندو پنچایت کی عرضداشت پر اسلام آباد کے سیکٹر G9 میں مندر کی تعمیر کے لیے پلاٹ دیا گیا ہے، حکومت نے اپنی ذمے داری کو محسوس کیا۔ مندر کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا مگر رواداری، برداشت، آئین کی شقوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی اہمیت کو محسوس نہ کرنے والے عناصر نے ایک واویلا مچادیا۔ یو ں سندھ پنچایت نے مندر خود تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔سی ڈی اے نے 8نومبر2021ء کی صبح پلاٹ کی منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔

سی ڈی اے کے اس مسئلہ پر ملک میں اور بین الاقوامی سطح پر احتجاج ہوا تو کسی دانا آدمی کی مداخلت سے سی ڈی اے نے یہ نوٹیفکیشن منسوخ کیا۔ حکومت کا فرض ہے کہ جو بااثر گروہ صورتحال کی حساسیت کا ادراک نہیں رکھتے ان کے طرزِ عمل میں تبدیلی کی کوشش کرے اور ریاست خوبصورت مندر کی تعمیر کے لیے وسائل فراہم کرے۔ اس مندر کی تعمیر سے کوئی مسلمان اپنا مذہب تبدیل نہیں کرے گا مگر یہ واضح ہوجائے گا کہ پاکستان کی ریاست اپنے بانی کی تعلیمات کے مطابق اپنے شہریوں کے درمیان کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کرتی۔

https://www.express.pk/story/2248454/268/