ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ نے کہاہے عالمگیر وبا کورونا کے دوران ہمارے ملک میں موت کا شکار ہونے والوں میں اکثریت سی او پی ڈی یا پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد کی تھی

کراچی : ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ نے کہاہے عالمگیر وبا کورونا کے دوران ہمارے ملک میں موت کا شکار ہونے والوں میں اکثریت سی او پی ڈی یا پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد کی تھی اس کے بعد شوگر یا دیگر پیچیدہ امراض شامل ہیں یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ علاج مہنگا اور بیماری سے بچاؤ بہت سستا ہےمگر ہمارے ملک میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے بیماری اور زہر بھی سستا ہے یعنی سگریٹ اور تمباکو کی دیگر اشیا سستی ہیں ہرتعلیمی ادارے کے قریب سگریٹ پان کی دکان پرسارے زہر با آسانی دستیاب ہیں جس سے ہمارے بچے یہ زہر خرید رہے ہیں تنفس کی بیماری سی او پی ڈی کی بڑی وجہ درحقیقت سگریٹ کا دھواں ہے چاہے وہ براہ راست سگریٹ نوشی سے آئے یا کسی اور کے پینے سے پھیپھڑوں تک پہنچا ہو یہ بات انہوں نے اوجھا انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز( او آئی سی ڈی )کے زیر اہتمام ورلڈ سی او پی ڈی دے کے موقع پر آگہی واک کے بعدمنعقدہ سیمینار سے بہ طور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی اس موقع پرآغاخان یونیورسٹی کے شعبہ پلمونولوجی کےسربراہ ڈاکٹر جاوید اے خان،او آئی سی ڈ ی کے سربراہ ڈاکٹر فیصل فیاض زبیری،نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈایابیٹس اینڈ انڈو کرائنالوجی کے سربراہ پروفیسر اختر علی بلوچ،ڈاکٹر سیف اللہ بیگ ،ہیڈ آف تھوراسک سرجری ڈاکٹر نیاز حسین سومرواور دیگر بھی موجودتھے ۔ قبل ازیں شرکا نے او آئی سی ڈی سے ڈاؤ اسپتال کے صدر دروازے اور وہاں سے واپس او آئی سی ڈی تک واک کی شرکا نے سی او پی ڈی کی آگہی کےلیے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ۔آگہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر نصرت شاہ نے کہاکہ ہمارے دیہات میں ٖغربت کے باوجود مرد سگریٹ کے ذریعے اور خواتین گٹکے اور پان چھالیہ کے ذریعےتمباکو نوشی کرتی ہیں وہ بچوں کو بھی گٹکایا چھالیہ اس لیے کھلاتے ہیں کچھ بھوک سے بے تاب ہوکر روٹی نہیں مانگے گا انہوں نے کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سگریٹ اور تمام ایسی اشیا تک رسائی مشکل بنائی جائے سگریٹ پر ٹیکس بڑھا کراسے مزید مہنگاکیا جائے حکومت میں بیٹھے لوگوں کو ایک رائے ہونا پڑے گا سگریٹ پر ٹیکس کے حوالے سے وزرا الگ الگ رائے رکھتے ہیں ڈاکٹر فیصل فیاض زبیری نے کہاکہ دنیا میں ایک ساٹھ لاکھ افراد میں سی او پی ڈی کی تشخیص ہوچکی ہے جبکہ اب بھی بہت سارے لوگ ایسے جنہیں معلوم نہیں کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہرپانچ میں سے ایک شخص سی او پی ڈی میں مبتلا ہے ہمارے یہاں درست اعداد وشمار دستیاب نہیں لیکن یہ تو کہاجاسکتاہے ہماری یہاں تعداد اس سے کم نہیں زیادہ ہی ہوسکتی ہے مستند اعداد وشمار کے مطابق سی او پی ڈی میں مبتلا افراد میں سے پچیس فیصد براہ راست سگریٹ نوشی نہیں کرتے تھے بالواسطہ اسموکنگ کے نتیجے میں متاثر ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان میں سب سے زیادہ جوکینسر پایا جاتاہے وہ پھیپھڑے کا کینسر ہے دوسرے نمبر پر ہیڈ اینڈ نیک کینسر ہے انہوں نے کہاکہ سی او پی ڈی درحقیقت پھپھڑوں کی نالی کے ایسے سکڑاؤ کی بیماری ہے جس کے نتیجے میں پھیپھڑے بالکل ناکارہ ہوجاتے ہیں امریکا میں اموات کی تیسری بڑی وجہ سی او پی ڈی کی بیماری ہے ہمیں صاف شفاف فضا کےلیے کوششیں کرنا چاہئیں ڈاکٹر جاوید اے خان نے کہاکہ ایک مصدقہ ریسرچ کے مطابق ابراہیم حیدری اور گڈاپ کے علاقوں میں آبادی کا اسی فیصد حصہ گٹکا کھاتاہے تھرپار کر کے دور دراز دیہات میں غریب سے غریب گھرانوں کی ماہانہ آمدنی کا ایک چوتھائی سگریٹ پان گٹکے چھالیہ پر خرچ ہورہاہے ڈاکٹر سیف اللہ بیگ نے کہاکہ سی او پی ڈی ایک دائمی مرض جو دواؤں سے ٹھیک نہیں ہوتا صرف عارضی افاقہ ہوتا ہے اس لیے کوشش کریں اس کےجو رسک فیکٹر ہیں انہیں کم کیا جائے اس کے نوے فیصد کیسز سگریٹ دھویں اور دیگر ماحول خراب کرنے والے عناصر کے باعث ہوتے ہیں ۔۔تقریب کے آخر میں فیصل فیا ض زبیری نے شرکا کا شکریہ اداکیا جن میں مریض اور ان کے تیماردار بھی شامل تھے