طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 2 تا 3 فیصد بچے پیدائشی طور پر سماعت سے محرومی کا شکار ہیں جس میں زیادہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ ان میں ستر فیصد بچے کزن میرج (خاندان کی آپس کی شادی) کے سبب اس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں


کراچی() طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 2 تا 3 فیصد بچے پیدائشی طور پر سماعت سے محرومی کا شکار ہیں جس میں زیادہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ ان میں ستر فیصد بچے کزن میرج (خاندان کی آپس کی شادی) کے سبب اس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں، پیدائشی سماعت سے محروم یہ بچے دماغی افزائش اور بولنے کی صلاحیت کے لحاظ سے کمزورہوتے ہیں معاشرے کے عام لوگوں کی طرح اپنامقام بنانے سے محرومی کے باعث یہ معاشرے پر بوجھ تصور کئے جاتے ہیں کیونکہ صرف دو سے تین سال کی عمرتک بچہ بولنا سیکھتا ہے اور تین سے چار سال تک دماغ کی کھڑکیاںکھلی رہتی ہیں بس یہی عمر ہے جب بچوںمیں ا ندرونی کان کا آلہ(سماعت کے لئے) نصب کیا جا سکتا ہے، ساڑھے تین سال کی عمر کے بعد یہ آلہ نصب نہیں کیا جاسکتا ہے، اسکے بعد اگر یہ امپلانٹ کربھی دیا جائے تو وہ بے سود اورپیسے کا زیاںہوگاکیونکہ اسکے بعد بچے کی الفاظ کا ذخیر ہ کرنے اور سن کر بولنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی، یہ باتیں ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ ہیڈ اینڈنیک سرجری کے زیر اہتمام تیسری کاکیلر امپلانٹ ورکشاپ کے مختلف سیشن سے خطاب میں کہی گئی، اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی پروفیسر محمد سعید قریشی جبکہ مہمانِ اعزازی ایدھی فاؤنڈیشن کے مہتمِ اعلیٰ فیصل ایدھی تھے،ورکشاپ سے ملک کے مختلف حصوں سے ناک کان حلق کی سرجری سے وابستہ ڈاکٹرز نے شرکت کی جنہیں کا کیلرامپلانٹ کی تربیت دی گئی، مہمانِ خصوصی پروفیسر محمد سعید قریشی نے خطاب میں کہا کہ کاکیلر امپلانٹ کے ذریعے ہم پاکستان کی آبادی پر بوجھ تصور کئے جانے والے افراد کی تعداد کم کر سکتے ہیںاور ” روشن دماغ” افراد کی تعداد بڑھاسکتے ہیں، نتائج اور اخراجات کا موازنہ کیا جائے تو یہ مہنگا ترین علاج ہے ابھی اس شعبے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس علاج کو سستا اور ذیادہ موثربنایاجاسکے، ورکشاپ کے مختلف سیشن سے خطاب اور تربیتی لیکچرز میں مقررین نے کاکیلر امپلانٹ کی بر وقت تنصیب کی افادیت پر زوردیا، ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسرنصرت شاہ نے کہا کہ” احتیاط علاج سے بہتر ہے” کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہمیں آگاہی پھیلانا ہوگی کہ کزن میرج کو روکنے کے لئےاقدامات کئے جائیں،دیہات کے مقابلے میں شہروں میں تو تعلیم کی شرح بھی ذیادہ اور کزنز میرج کا تناسب بھی نسبتاً کم ہے دیہات میں کزن میرج عام ہے اس لحاظ سے ایسے کیسز بھی بہت ہیں، ان کے پاس نہ علاج کی سہولت ہے نہ وسائل، میڈیکل کمیونٹی کو کزنز میرج کے بارے میں آگاہی پھیلانا چا ہیئے اور مذہبی اسکالرز کو بھی یہ واضح کرنا چا ہیئے کہ ہمارے مذہب اسلام نے آپس میں شادی کی اجازت دی ہے ، لازمی قرار نہیں دیا، کاکیلر ورکشاپ سے پروفیسر فوزیہ پروین، پرنسپل ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج پروفیسر شجاع فرخ، چیرمین شعبہ ناک کان اور حلق ڈاؤ یونیورسٹی پروفیسر سلمان مطیع اللہ شیخ، پروفیسر زیبااحمد ہیڈ آف ای این ٹی یونٹ ٹو ڈاؤ یونیورسٹی ، پروفیسرنسرین ناز، ڈاکٹر اقبال خان، ڈاکٹر نجم الحق اور دیگر نے خطاب کیا۔

پروفیسر اقبال خیانی نے کہا کہ دنیا بھر میں دسمبر 2019تک سات لاکھ 36ہزار 900 بچوں میں کاکیلر امپلانٹ ہو چکے ہیں اور ان کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں چونکہ اندونی کان کے لئے کاکیلر امپلانٹ کی قیمت اور آپریشن سے قبل کے ٹیسٹ اور اسپتال کی مد میں خطیر رقم درکار ہوتی ہے لہٰذا کاکیلر امپلانٹ سرجری کے مناسب امیدوار کا تعین کرنے کے لئے سخت طریقہ کار اپنایا جاتاہے، ہمارے ملک میں کاکیلر امپلانٹ کا پروگرام 15سے 12 سال قبل شروع ہوا، اس سلسلے میں ڈائو یونیورسٹی نے برطانیہ کے ایک فلاحی ادارے کے ساتھ باہمی تعاون کی یادداشت (MOU)پر دستخط کئے اور 2012-13 میں اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں ایک آڈیولوجسٹ ) (Audiologist ایک اسپیچ تھراپسٹ(Speech Therapist) اور دو کاکیلر امپلانٹ سرجن کو لندن میں تربیت کے لئے بھیجا گیا، ڈاؤ یونیورسٹی نے اپنی کاوشوں اور فنڈز سے 52بچوں میں کاکیلر امپلانٹ کئے لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے بہت سارے رجسٹرڈ بچے اس طریقہ علاج سے تاحال محروم ہیں4سے 5 برس کے وقفے کے بعد چند فلاحی اداروں اور ڈاؤ یونیورسٹی کی کاوشوں سے یہ پروگرام جزوی طور پر بحال کیا گیاہے جوکہ ضرورت کے برعکس سست روی کا شکار ہے، اب تک 65 بچوں کے کاکیلر امپلانٹ آپریشن ڈاؤ یونیورسٹی میں ہو چکے ہیں، دیگر ماہرین نے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق 36کروڑ افراد کسی بھی وجہ سے سماعت کی کمزوری یا محرومی کا شکار ہیں، پاکستان میں انداز 14 سے 15 فیصد لوگ سماعت سے محرومی کاشکار ہیں جن میں 2.5 سے 3فیصد بچے پیدائشی طور پر سماعت سے محرومی کا شکار ہیں،ان ماہرین نے مزید کہا کہ امریکا اور برطانیہ میں پیدائشی سماعت سے محروم بچوں کاکیلر امپلانٹ1-2 سال تک کی عمر میں کئے جا رہے ہیں تاکہ خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جاسکیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ پیدائشی سماعت سے محروم بچوںکی بر وقت تشخیص کے لئے والدین کو آگاہ کیا جائے اور پیدائش کے وقت دوسرے اسکریننگ ٹیسٹ کے ساتھ قوت ِسماعت کی اسکریننگ کو شامل کیا جائے جیسا کی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے تاکہ اس نئے طریقہِ علاج سے ذیادہ سے ذیادہ افراد مستفید ہو سکیں اور نارمل سوسائٹی میں عام افراد کی طرح اپنا مقام حاصل کرسکیں، فیصل ایدھی نے کہا کہ ایدھی فاؤنڈیشن ، ڈاؤ یونیورسٹی سمیت بے شمار اداروں کا فلاحی کاموں میں ہاتھ بٹاتی رہی ہے، انسانیت کی خدمت کایہ سلسلہ جاری رہے گا، انہوں نے مزید کہا کہ روپے کی قدر میں کمی سے ڈالر کی شرح تبادلہ بڑھ جاتی ہے اسلئے ڈالر اور روپے کی قدر میں جو بھی تبدیلی ہوتی رہے، ایدھی فاؤنڈیشن اپنی خدمات کی روش تبدیل نہیں کرے گی۔