نسلہ ٹاور، بارُود، دوہرے معیارات،کیوں۔۔؟

نسلہ ٹاور، بارُود، دوہرے معیارات،کیوں۔۔؟
محاسبہ
ناصر جمال

اپنے کاٹے ہوئے پیڑوں کے تنوں پر بیٹھے
دم بہ دم دُھوپ کی شدت سے جھلستے ہوئے لوگ
(رفیع رضا)
ابھی کالم لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ خبر آگئی۔ جنرل ندیم انجم کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔ بے اختیار لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ٹی۔ ایل۔ پی سے لیکر ڈی۔ جی( آئی۔ ایس۔ آئی) کی تقرری تک’’سو جُوتے اور سو پیاز‘‘ کھانے کا فن کوئی تبدیلی سرکارسے سیکھے۔ مگر ’’لُچ فرائی‘‘ کرنے سے یہ پھربھی باز نہیں آتے۔ نوٹیفکیشن کی زبان اور شرائط اسے واضح کرنے کیلئے کافی ہیں۔ یعنی کہ ’’پکچر ابھی باقی ہے دوست‘‘ اور کسی کو کوئی شک ہو تو وہ، دو، بارہ سینگوں کی لڑائی دیکھ لے ۔جب اُن کے سینگ پھنستے ہیں۔ تو انجام کیا ہوتا ہے۔
پاکستان ایک تباہ کن صورتحال سےگزر رہا ہے۔ اس کا ریاستی ڈھانچہ منہدم ہو رہا ہے۔ اُسے روکنے کی بجائے، ذات عہدوں اور اختیارات کی لڑائیاں، لڑی جارہی ہیں۔ ہم پوری دنیا میں تماشا بنے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں کئی کو کچھ بھی بنتے، وقت لگتا ہے۔ بطور خاص،’’مونسٹر‘‘ ۔مگر ہمارے لوگوں کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ کسی بھی چوہے کو چند دنوں میں ’’مونسٹر‘‘ بنا دیتے ہیں۔ آپ بطور خاص سیاسی، انتظامی، قانونی اور صحافتی دنیا کو دیکھ لیں۔ لوگ راتوں، رات، بونوں سے ’’مینار پاکستان‘‘ بن جاتے ہیں۔ وہ ڈوریوں پر چلتے ہیں۔ پھر انھیں ٹھوکر لگتی ہے۔ انھیں خود لڑکھڑانا آجاتا ہے۔ وہ اسی زُعم میں چلنے کی بجائے، بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔ اس ضمن میں ایسے، ایسے نتائج آئے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ویسے ہم اس میں خود کفیل ہیں۔ عبرت کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ مگر ہم پھر بھی ’’تخلیق کاری‘‘سے باز نہیں آرہے۔ آج ریاست اور ملک دونوں ’’چُوک‘‘ ہوگئے۔ مگر ہم ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ غیر ملکی آقائوں کے اشارے اور ملکی آقائوں کی خوشنودی کیلئے۔ ہم نے ریاست کے ستونوں میں تباہی مچا دی ہے۔ چُن ، چُن کر سفارشی، فرمائشی اور رشوتی، لوگوں کے اتنے اقبال بلند کیے ہیں کہ قبر میں لیٹے، جناحؒ اور اقبالؒ بھی پریشان ہوگئے ہونگے۔
سیاستدانوں کو بیورو کریسی میں سیکرٹری نہیں پرائیویٹ سیکرٹری چاہئے ہیں۔ سیاستدانوں، عسکریوں اور قانونیوں، نے بیورو کریسی کے شیر کو چوہا بنا دیا ہے۔ پوسٹنگ تقرری اور تبادلے ، اتنے بے توقیر اور تباہ کن طریقے سے ہوئے ہیں کہ ’’الامان الحفیظ، الامان الحفیظ‘‘ ۔ جو جتنا طاقتور ہے ،وہ اتنا ہی بااثر اور شتر ِبے مہار ہے۔ اسلام آباد، عامر احمد علی کو ’’الاٹ‘‘ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم سیکرٹریٹ، اعظم خان کو۔ ہے کوئی پوچھنے والا جو پوچھے کہ تین سال ہوگئے، وزیراعظم ، ایسے افسروں کے تبادلے کیوںنہیںکرتے۔ میرٹ، محنت، ذہانت اور ڈلیور کرنے والےافسر چاروں صوبوں میں خاک چھانتے پھر رہے ہیں۔ جبکہ لاڈلے بیس ، بیس سال سے اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔ ان کو بلوچستان کیوں نہیں بھیجا جاسکتا۔ کہاں ہیں ’’سٹون ہارٹیڈ‘‘ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ، وہ ہمت دکھائیں یا اُن کے تمام قواعد و ضوابط صرف کمزوروں کیلئے ہیں۔کہاں ہیں وزیراعظم، جو ہمیں اخلاقیات، قانون، قواعد و ضوابط کے بھاشن دیتے نہیں تھکتے۔ ویسے پاک بھارت میچ میں سعودی ہوٹل میں میز پر پڑی ’’سادگی‘‘ سے قوم ضرور محفوظ ہوئی ہوگی۔ کہاں گئی چاہے اور دو بسکٹ اور کہاں گئے وہ پھٹے کوٹ۔ ہمارے خلیفہ اور اُن کے حواری مان لیں کہ وہ بے نقاب ہوچکے ہیں۔
بہت سے دوست ناراض ہوتے ہیں۔ تنقید کو بے جا کہتےہیں۔ جناب، جب دعوے کیئے تھے۔ اب جواب بھی دو۔ دوسروں کی بجائے اپنے اوپر قانون، بچت اور سادگی لاگو کرو۔ عوام کو تو کم نوالے کھانے کے مشورے دیئے جاتے ہیں۔ خُود،باتیں جناب عمر فاروقؓ کی کرتے ہیں۔ عمل’’ نوابوں‘‘ والے ہیں۔
سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کو بارود سے گرانے کا حکم دیا ہے۔ برادرم عبدالقیوم صدیقی نے ٹویٹر پر صرف دو لائنیں لکھی ہیں کہ ’’بنی گالہ اور ون کانسٹیٹیوشن ایونیو ریگولرائز، نسلہ ٹاور#بارود سے اڑا دو۔ عدالتی فیصلے۔‘‘
وہ بحریہ ٹائون کراچی سے صرفِ نظر کرگئے۔ ویسے تو ڈی۔ ایچ۔ اے اور بطور خاص ڈی۔ ایچ۔ اے۔ ویلی پر بھی بات ہونی چاہئے۔ قانون ان کے سامنے ’’موم‘‘ کیوں ہوجاتا ہے۔
آپ نے نسلہ ٹاور گرانا ہے ضرور گرائیں۔ قانون سے تجاوز ہے۔ جنہوں نے قانون سے تجاوز کیا۔ وہ کہاں ہیں۔ سندھ گورنمنٹ اور اس کے بلدیاتی ادارے کیسے معصوم ٹھہرے ہیں۔ وزیراعلیٰ سے لیکر کے۔ ڈی۔ اے اور دوسرے متعلقہ اداروں کو کٹہرے میں لائیں۔ بلڈر کو کیوں دیوالیہ کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ کیا اکیلا بلڈر ذمہ دار ہے۔ جو جتنا قصور وار اتنا ہی سزاوار۔ سندھ گورنمنٹ، بحریہ ٹائون کے پیسوں میں حصہ مانگتی ہے۔ اس تباہی میں، اپنے اغلاط بھی تو مانے اور کٹہرے میں کھڑی ہو۔ نسلہ ٹاور گرانے سے ملک سیدھا ہوتا ہے تو، ضرور کریں۔ مگر اس سے اور تباہی آئے گی۔ کراچی میں کنسٹرکشن انڈسٹری بیٹھ جائے گی۔اور اگر وہ بیٹھی تو تباہی کا سونامی آئے گا۔ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ بے روزگار ہوں گے۔ (ویسے تو اس کی ابتداء وزیراعظم نےگیس کے کنکشن پر پابندی لگا کر شروع کردی ہے۔ آپ دیکھ لیجئےگا۔)
ہاں، آپ اگر شروعات کرناچاہتے ہیں تو، بنی گالہ سے کریں۔ ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو کو گرائیں۔ بحریہ ٹائون گراچی کو ریگولرائز کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، ڈی۔ ایچ۔ اے، نیوی اور فضائیہ کی اسکیموں کو ختم کریں۔ بحریہ ٹائون کا فرانزک آڈٹ کروا کر،کئے گئے مظالم کا ازالہ کریں۔ سب کو ایک نظر سے دیکھیں۔ کسی کو پتلی گلی سے فرار نہ ہونے دیں۔ پھر سب کے شادی ہال، شاپنگ مالز، انڈسٹریاں بند کریں۔ اُن کو اُن کے مینڈیٹ تک محدود کریں۔ مجوزہ سپریم کورٹ ایمپلائز ہائوسنگ کے منصوبے کے حوالے سے بھی جائزہ لیں۔ اس ضمن میں دی گئی ڈائرکشنز کا بھی محاسبہ ضروری ہے۔
محترم چیف جسٹس کو چاہئے کہ لارجر بینچ تشکیل دے کر بنی گالہ سے بحریہ ٹائون، ون کانسٹیٹیوشن ایونیو اور ڈی۔ ایچ۔ اے و عسکری (سویلین) منصوبوں کا بھی جائزہ لیں۔ ایڈن والے سمدھی کی لوٹ مار بھی دیکھیں۔
اگر منصف سب کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھیں گے ،ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکیں گے ،تو بے چینی پھیلے گی۔ مایوسی بڑھے گی۔ اداروں سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔ ملک میں یہ عمل نہ صرف شروع ہے بلکہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد، جیسے وکیل شترِ بے مہار ہوئے ہیں۔ بار اور بینچ کے مابین جو کچھ ہوا ہے۔ججوں کے سر تک پھٹے ہیں۔ نچلی سطح پر عدالتوں میں بیٹھے، منصف، پریشان ہیں۔ دبائو میں ہیں۔ طاقتور ترین وکیل، انصاف کی فراہمی کے عمل پر حاوی ہیں۔ ٹائم لائنز، آئوٹ آف کنٹرول ہوچکی ہیں۔ مقدمات میں التوا اور ٹائم فریم یا ٹائم لمٹ کہہ لیں۔ وہ ناقابل برداشت ہیں۔ انصاف دہائیوں پر محیط ہوگیا ہے۔ بڑے چیمبرز والے امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر ان کا دوست ہے۔ ہم نے پہلی بار اسی شہر میں یہ بھی سنا کہ ’’فلاح جج، فلاں چیمبر کی وجہ سے جج بنا ہے۔‘‘ ہم حیران ہوتے ہیں۔ ’’واللّٰہ اَعلم بالصواب‘‘(اور اللہ ہی بہتر علم رکھنے والا ہے)
آخر ججز، پارلیمانی کمیٹی یا کسی اور پلیٹ فارم کی بجائے، براہ راست لوئر جوڈیشری سے کیوں نہیں آسکتے۔ آپ میکنزم بنائیں۔ وکیلوں کو جج بنانے کا عمل ختم ہونا چاہئے۔ باخبرلوگ کہتے ہیں کہ رفیق تارڑ (مرحوم) سول جج کے امتحان میں فیل ہوگئے تھے۔ وہ پھر اس ملک میں اعلیٰ عدالتوں میں براہ راست جج لگے۔ منیر ملک، عاصمہ جہانگیر، حامدخان کے چیمبرز ، خاص شہرت کیوں رکھتے ہیں۔ جیسے کسی زمانے میں غلام قادر صاحب کا چیمبر تھا۔ آپ کیریئر ججز کیوں پیدا نہیں کرسکتے۔ آج عوام میں یہ تاثر کیوں زور پکڑ رہا ہے کہ بار، ججوں پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ اور بہت کچھ کہنے اور لکھنے کو ہے۔ آج عام آدمی پوچھتا ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان چوہدری کے کیس کا کیا ہوا۔ ہمارا قومی ہیرو قدیر خان جن حالات میں دنیا سے گیا ہے۔ اس کے ساتھ، انصاف میں جو التوا اور دیر ہوئی۔ وہ سب کیا ہے۔ نواز شریف کی ٹائم بار اپیل کیسے سُن لی گئی۔ ہر سیاستدان ترجیحی بنیادوں پر کیسے ریلیف لے جاتا ہے۔ یہی سلوک عام آدمی کے ساتھ کیوں نہیں ہوتا۔ فخرو بھائی، یہی گلہ کرتے دنیا سے چلے گئے۔ آپ نسلہ ٹاور گرائیں۔ مگر وہاں کے رہائشیوں کو پہلےمعاوضہ دیں۔ اس سے قبل نسلہ ٹاور کو گرانا اور اُس کے مکینوں کے بجلی، گیس، اور پانی کے کنکشن منقطع کرنا غیر انسانی اور انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ پہلے انھیں معاوضہ دیا جاتا۔ اُس کے بعد اُنھیں کم ازکم متبادل رہائش لینے کیلئے،دو سے تین ماہ کا وقت دیا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ سندھ حکومت، کے۔ ڈی۔ اے اور بلڈر پر ان کے قصور کے مطابق مالیاتی بوجھ منتقل کریں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کو ان کے واجبات کی جنگی بنیادوں پر ادائیگی کی جائے۔ ایک اور انسانی المیے کو جنم دینے سے روکاجائے۔
بنی گالہ، بحریہ ٹائون،ون کانسٹیٹیوشن ایونیو، عسکری زمینوں کے کمرشل استعمال کے کیسز نہ صرف فوری طور پر کھولے جائیں ، بلکہ ان پر جنگی بنیادوں پر فیصلے بھی دیں۔ سول اداروں کی زمینوں کا تجارتی استعمال بند کروائیں۔ آپ سرکاری زمینوں پر وکیلوں کے چیمبر ہٹوائیں۔ جن وکیلوں نے عدلیہ کو بے توقیر کیا ہے۔ انھیں سزائیں دی جائیں۔ وزیراعظم سے توشہ خانہ کا پوچھیں۔ جو وزیراعظم چلے گئے۔ انھیں بھی طلب کریں۔ توشہ خانہ کی فہرستیں پبلک کی جائیں۔
آپ یقین کریں۔ میرے جیسے عام پاکستانی تو اگلی ہی صُبح، ویسے ہی ’’بندے کے پُتر بن‘‘ جائیں گے۔ وگرنہ آپ ایک کیا، ہزار نسلہ ٹاور بارود سے گرادیں۔ کچھ ٹھیک نہیں ہونے والا۔ آئیں، اشرافیہ سے شروع کرتے ہیں۔ آئیں، اللہ اور رسولﷺ کو خوش کرتے ہیں۔ معاشرے میں قائم دوہرے معیارات کے بت مسمار کردیں۔
صورتیں چھین لے گیا کوئی
اس برس آئینے اکیلے ہیں
(شین کاف نظام)