-مہنگائی کا 70 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا-یکم نومبر سے پیٹرول کی قیمت میں 7 روپے تک اضافے کا تخمینہ

روپے کی قدر کم اور تیل قیمت بڑھنےکا اثر، یکم نومبرسے پیٹرول مزید مہنگاہونے کا امکان ہے۔

آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یکم نومبر سے پیٹرول کی قیمت میں 7 روپے تک اضافے کا تخمینہ ہے۔

انڈسٹری ذرائع کے مطابق ڈیزل قیمت میں 9 روپے فی لیٹر تک اضافے کا خدشہ ہے، اگلے 5 دن امپورٹ ہونے والے تیل کی قیمت کا اتار چڑھاؤ حتمی قیمت کا تعین کریگا۔

خیال رہے کہ حکومت ہر 15 دن میں پیٹرول کی قیمت کا تعین کرتی ہے۔ 16 اکتوبر کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 روپے فی لیٹر تک اضافہ کیا گیا تھا۔
========================

پاکستان میں گزشتہ تین سال اکتوبر 2018ء سے اکتوبر 2021ء میں مہنگائی نے 70سال کے ریکارڈ توڑ دیئے، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ ہوگیا۔

گھی تیل نرخ میں سب سے زیادہ 133؍ فیصد اضافہ ہوا جبکہ ، چینی 84فیصد ، آٹا 52فیصد ، پٹرول 49فیصد، گائے بکری مرغی کا گوشت 60فیصد مہنگاہوا ، دالیں 76فیصد ، ایل پی جی 51فیصد، دودھ 32؍ فیصد تک بڑھا۔ ادھر عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ قیمتیں کہیں زیادہ بڑھیں، سرکاری رپورٹ دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق قیمتوں کے حساس اعشاریئے (ایس پی آئی) کے مطابق اکتوبر 2018ء سے اکتوبر 2021ء تک بجلی کے نرخ 57؍ فیصد اضافے سے 4روپے 6پیسے فی یونٹ سے بڑھ کر کم از کم 6روپے 38پیسے فی یونٹ کی سطح پر آگئے۔

اکتوبر کی پہلی سہ ماہی تک ایل پی جی کے 11.67 کلو گرام سلنڈر کی قیمت 51فیصد اضافے کے بعد 1536 روپے سے بڑھ کر 2322روپے کی سطح پر پہنچ گئی اسی طرح پیٹرول کی قیمت میں تین سال کے دوران 49فیصد تک اضافہ ہوا اور فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 93روپے 80پیسے فی لیٹر سے بڑھ کر 138روپے 73پیسے ہوگئی ہے۔

کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ خوردنی گھی وتیل کی قیمتوں میں ہوا، گھی کی فی کلو قیمت 133؍ فیصد اضافے سے 356روپے تک پہنچ گئی، خوردنی تیل کا 5لیٹر کا کین 87؍ اعشاریہ 60فیصد اضافے کے بعد 1783؍ روپے کا ہوگیا۔

چینی کی قیمت میں 3سال کے دوران 83فیصد اضافہ ہوا اور 54روپے کلو فروخت ہونے والی چینی کی قیمت 100روپے سے تجاوز کرگئی۔

دال کی قیمت میں 60 سے 76 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، ماش کی دال کی قیمت 243روپے، مونگ کی دال کی قیمت 162 روپے، مسور کی دال 180 روپے فی کلو جب کہ چنے کی دال 23 فیصد اضافے سے 145 روپے فی کلو پر آگئی۔آٹے کے 20 کلو کے تھیلے کی قیمت 3 سال میں 52 فیصد اضافے سے 1196 روپے پر آگئی، آٹے کی فی کلو قیمت میں 20 روپے کلو تک کا اضافہ ہوا۔

سرکاری حساب کے مطابق تین سال میں مرغی کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ ہوا اور مرغی کی قیمت اکتوبر 2018 سے اکتوبر 2021 تک 252 روپے کلو کی سطح پر رہی، تاہم بازاروں میں مرغی کا گوشت 400 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق تین سال میں گائے کے گوشت کی قیمت 48 فیصد اضافے سے 560 روپے کلو کی سطح پر آگئی تاہم بازاروں میں گائے کا گوشت 650 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔
https://jang.com.pk/news/1002899?_ga=2.68854481.1705285701.1635256069-74864345.1635256068
========================================

مردان سے پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی طفیل انجم نے ملک میں مہنگائی کے حوالے سے انوکھی منطق پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی ﷲ کی طرف سے آتی ہے۔ طفیل انجم نے مزید کہا کہ ہر صبح اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جو نرخ مقرر کرتا ہے۔ مہنگائی سے متعلق اپنے بیان کی ویڈیو وائرل ہونے پر طفیل انجم نے کہا کہ وہ اب بھی مہنگائی اللہ کی طرف سے ہے کی بات پر قائم ہیں، فرشتے کی جانب سے ریٹ مقرر کرنے کی بات ٹھیک نہیں، یہ بات واپس لیتا ہوں۔
https://jang.com.pk/news/1002922?_ga=2.68854481.1705285701.1635256069-74864345.1635256068
====================================
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف نے ایک بار پھر بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور مہنگائی پر سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار ہے، ہمیشہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی خدمت کی اور کرتے رہیں گے،عام آدمی پاکستان کے موجودہ حالات سے دل برداشتہ ہیں، نیازی سرکار پاکستان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے جن لوگوں نے نوازشریف کے ساتھ ظلم کمایا تھا وہ ایک ایک کرکے آشکار ہو رہے ہیں، ن لیگ نے ہمیشہ اپنے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی خدمت کی ہے اور کرتے رہیں گے۔چیف کوآرڈی نیٹر انٹرنیشنل افیئرز اینڈ اوورسیز پاکستانیز بیرسٹر امجد ملک نے مسلم لیگ (ن )کی نائب صدر مریم نواز شریف سے جاتی امراء لاہور میں خصوصی ملاقات کی جس میں بیرسٹر امجد ملک نے ان کے بیٹے جنید صفدر کی شادی پر انہیں خصوصی مبارکباد دی اور پھول بھی پیش کیے۔اس موقع پر مریم نواز نے کہاکہ نواز شریف نے سخت محنت سے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر ڈالا تھا،اسحق ڈار نے ڈالر کنٹرول میں رکھا اور شہباز شریف نے خدمت کی نئی تاریخ رقم کی۔انہوں نے کہاکہ جن لوگوں نے نوازشریف کے ساتھ ظلم کمایا تھا وہ ایک ایک کرکے آشکار ہو رہے ہیں۔
=====================================
ڈس گئی یہ مہنگائی
—-
سید منہاج الرب
====
وزیراعظم سے لے کر تمام وزراء اور حواریوں کی معاشی امور پر خالص مہارت حاصل ہے۔ مہنگائی کی طرف توجہ دلائی جائے تو ایسی انہونی رائے دیتے ہیں کہ آدمی اپنا سر دھنے کے بجائے سر پیٹنے پہ مجبور ہوجائے۔ ایک “عالم فاضل وزیر” نے کہا کہ اگر گندم مہنگی ہے تو پیٹ بھر کر کھانے کی کیا ضرورت ہے روز کے کھانے سے 9 نوالے کم کردو۔ چینی مہنگی ہے تو چینی کا استعمال کم کردو، تو اب لوگوں نے شروع کردیا ہے کہ ہر چیز کا استعمال کم کردو لیکن وزراء کی فوج کم نہ کرو، وزارتی، صدارتی، محلات، گورنر اور وزیر اعلٰی کے محل نما گھروں کے اخراجات کم نہیں ہوسکتے، ان کے باورچی خانے پر اٹھنے والے اخراجات محدود نہیں کئے جاسکتے اور انہی افراد کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر پانی کی طرح خرچ کئے جانے والا پیسہ کم نہیں ہوسکتا۔ کیوں کیا قربانی صرف عوم کو دینی ہے حکمرانوں کو نہیں۔ کیا وہ آسمان سے اتر کر آتے ہیں کہ ان کی ساری خواہشات پوری ہوجائیں۔ ایک عام رائے یہ ہے کہ ہمارے “خواص” کو جب عیش و عشرت کی زندگی گزارے کا دل چاہتا ہے تو وہ پاکستان میں حکمرانی کرتے ہیں۔ ورنہ وہ اور ان کا خاندان ساری عمر پاکستان سے باہر ہی زندگی گزارتے ہیں۔ یہی تو ان کے “سچے پاکستانی” ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔جب کوئی شخص یہاں رہتا ہی نہ ہو اس کے بچے بھی یہاں نہ رہتے ہوں تو ایسے میں اس شخص کو یہاں کے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل ہی نہیں پتا ہوں گے تو وہ کیسے دعوئ کرسکتا ہے میں آپ۔لوگوں کی قسمت بدل سکتاہوں۔ یقینا یہ دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب ذرا مہنگائی کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں یا غلط پالیسیاں ہیں جن کی بدولت قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ سب سے پہلے آپ یہ دیکھئے کہ کس شعبہ (sector) کو اہمیت دی جارہی ہے۔ یقینا روٹی ، کپڑا ، مکان ، تعلیم اور علاج اب بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام الناس تک ان کی رسائی ممکن بنانے کے لئے اقدامات کرئے۔ لیکن اس کیا ہورہا ہے : حکومت کا سارا زور صرف اور صرف “مکان ” کی فراہمی پر ہے۔ جیسے سارے پاکستانی کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ روٹی ، کپڑے، علاج اور تعلیم تک تو ان کی سو(100) فیصد رسائی ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ کراچی کے دو بڑے رہائشی منصوبوں کی کامیابی اور ان کے لامحدود منافع کی شرح کو دیکھتے ہوئے اب ہر “محب وطن پاکستانی ” کو خیال آتا ہے کہ سب سے “کامیاب بزنس” صرف اور صرف “رئیل اسٹیٹ ” کا ہے۔ بس پھر کیا تھا زرداری کی حکومت ہو کہ نواز شریف کی کہ عمران خان کیا سارے رئیل اسٹیٹس ڈیویلپرز( real estate developers ) حکومت کے حواری بن جاتے ہیں۔ پہلے ان پارٹیوں ( PPP, PML-N , PTI) کو پارٹی فنڈز کے نام پر خوب پیسہ دیتے ہیں اور پارٹی لیڈران ان کو پارٹی کے اہم قرار دیتے ہوئے اپنے قریب کرتے ہیں اور پھر یہی حضرات کابینہ میں شمولیت اختیار کرکے پارٹی میں لگائے گئے پیسوں سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رئیل اسٹیٹس کے لئے زمین کہاں سے آتی ہے۔ پاکستان بظاہر “زرعی ملک” ہے۔ لیکن یہاں جتنی بےدردی سے “زرعی زمینوں” کو “رئیل اسٹیٹس ” میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ کچھ بھروسہ نہیں کہ پاکستان میں اناج کی پیداوار صفر رہ جائے اور ہم ( خاکم بدہن) اناج کے نام پر ایک ایک خوراک درآمد (import) کرنے لگیں۔ کتنی ہی اور ایسی زرعی اراضیاں ہوں گی جنھیں دولت بنانے کی لالچ میں ہاؤسنگ کالونیوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ کیا اس تبدیلی سے خوراک کی قلت کا سامنا نہیں ہوگا؟ تو کیا جب زرعی ملک میں خوراک کی قلت ہوگی تو خوراک کی قیمت میں اضافہ بھی ہوگا یا نہیں ؟؟ یقینا ہوگا تو پھر لوگوں کو “نو لقمے “کم کھانے کا مشورہ دینے سے بہتر ہے رئیل اسٹیٹس ڈیویلپرز اپنا “نوفیصد منافع ” کم کرلیں اور ساتھ کے ساتھ ہر رئیل اسٹیٹ ڈیویلپر صرف اپنے “نومنصوبے” کم کردئے تاکہ کم سے کم زرعی اراضی ہاوسنگ اسکیم میں تبدیل ہوسکے۔ کیا خیال ہے آپ کا قارئین کہ محب وطن پاکستانیوںکے لئے ایسا کرنا مشکل ہے ؟ اپنی رائے سےآگاہ کیجئے گا۔دوسری طرف “فصلوں اور درختوں کو کاٹ کاٹ” کر “کنکریٹ” کی دیواریں کھڑی کرنا ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرنا نہیں ہے؟ وزیر اعظم صاحب ہر وقت بتاتے رہتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی بہت بڑا مسئلہ ہے مگر معصوم یہ نہیں جانتے کہ درختوں کی کٹائی اور کنکریٹ کی افزائش میں ان کی حکومت کی پالیسیوں کا کتنا بڑا حصہ ہے؟ خیر اس سادگی پہ کون کا مٹ جائے اے خدا!
===================================