اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آبادکے زیر اہتمام عالمی نعتیہ مشاعرہ اور پاکستان میں نعت کی روایت کے حوالے سے سیمینار


اقبال نے اپنی نظموں کو نعت کا انگ دیا ہے۔ ڈاکٹر احسان اکبر
نعت ایک صنف کا نام نہیں بلکہ ایک کلچر کا نام ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید
حضور کی حیات مبارکہ ہمارے لےے قیامت تک مشعل راہ ہے۔ ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین اکادمی
اسلام آباد(پ۔ر) حضور کی حیات مبارکہ ہمارے لےے قیامت تک مشعل راہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر یوسف خشک ، چیئرمین اکادمی نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ،پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے سلسلہ کی اٹھارویں تقریب”پاکستان میں نعت کی روایت “ کے موضوع پرمنعقدہ آن لائن عالمی مذاکرہ میں ابتدائیہ پیش کرتے ہوئے کیا۔مجلس صدار ت میں ڈاکٹر احسان اکبر(اسلام آباد)اور ڈاکٹر ریاض مجید(فیصل آباد) شامل تھے۔ ڈاکٹر تقی عابدی(کینیڈا) اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد(اسلام آباد) مہمانان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر عزیز احسن(کراچی) مہمان اعزاز تھے ۔قرة العین نقوی (اسلام آباد)، ڈاکٹر شاکر کنڈان (سرگودھا)، سرور حسین نقشبندی (لاہور)، ڈاکٹر اشرف کمال (بھکر)، ڈاکٹر کاشف عرفان (اسلام آباد)اور ڈاکٹر بی بی امینہ (اسلام آباد)نے موضوع کی مناسبت سے اظہار خیا ل کیا۔ ذکریا اشرفی نے نعت پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ نظامت ڈاکٹر شبیر احمد قادری نے کی۔ یہ مذاکرہ ادبی تنظیم نثر بان ، فیصل آبادکے تعاون سے منعقد ہوا۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ آج کی تقریب ”پاکستان میں نعت کی روایت“ کے حوالے سے ہمارے معتبر اہل قلم نعت پر سیر حاصل گفتگو کریں گے جس سے ہمارے سامنے نعت کے نئے نئے زاوےے آئیں گے۔ انہوں نے کہاکہ حضور کی حیات مبارکہ ابتداءسے اُن کی رحلت تک ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے اپنی تعلیمات اور وحی کے توسط سے ہماری زندگیوں کو روشن تر کیا۔ ہمیں آج جو سائنس کے علم سے کائنات کے حوالے سے معلوم ہورہا ہے ، وہ کئی سو سال پہلے حضور کی تعلیمات سے ہم پر آشکار ہو چکی ہےں۔ انہوں نے کہا کہ حضور کی تعلیمات اور ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے قیامت تک مشعل راہ ہے۔ ڈاکٹر احسان اکبر نے کہاکہ ہمار ا آج کا نعت گو شاعر غزل سے اچھی نعت کہہ رہا ہے۔ا نہوں نے کہاکہ مولانا الطاف حسین حالی نے بہت اچھی نعتیں کہی ہیں جن میں مسلم کلچر کا عکس ملتا ہے۔ اقبال نے تو نعت کے مزاج کو متعین کیا ہے۔ آج کی نعت اقبال کی تقلید میں کہی جار ہی ہے۔ اقبال نے اپنی نظموں کو نعت کاانگ دیا ہے ۔ اقبال کا نعت میں تہذیبی انگ ہی تو ان کا کرشمہ ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید نے کہا کہ نعت میں نئی ڈکشن اور نئی لفظیات کے حوالے سے ایک لغت تیار کر رہا ہوں ۔ انہوں نے کہاکہ عوامی اور ادبی نعت میں فرق رہے گا۔ چونکہ 25،30سال کے بعد نعت عوام میں زیادہ مقبولیت حاصل کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ نعت ایک صنف کا نام نہیں بلکہ ایک کلچر کا نام ہے۔ اس پر مناظرے ، مکالمے ہونے چاہییں۔ نعت کو ادبی قرینوں اور ان کے تقاضوں کے مطابق لکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے کہاکہ پاکستان نعت کے گل دستہ کا گل سرسبتد بنا ہواہے۔ تمام مسلم دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں نعت لکھی جارہی ہیں۔ دیگر مسلم ممالک کی زبانوں میں ان کے تراجم ہونے چاہیے۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے کہا کہ نعت کے طویل سفر میں خوب صورت لفظیات اس وقت پاکستان میں اسالیب اور رنگوں کی ہما ہمی پائی جاتی ہے۔ اس میں ہماری تہذیب اور تشخص کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے جس نے ہمارے نعتیہ سرمایہ کو ہمہ گیر اور ثروت مندکیا۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے کہا کہ ہمارے ہاں خوبصورت نعتیں لکھی گئی ہیں۔ انہوں نے احسان اکبر کی نعت کا حوالہ دیا ۔ انہوں نے کہاکہ نعت کے حوالے سے کوئی بات مکمل نہیں کی جاسکتی ۔ قرة العین نقوی نے کہاکہ اقبال، حالی، ظفر علی خان، حفیظ جالندھری ، حفیظ تائب ، ریاض مجید ، خورشید رضوی ، افتخار عارف و دیگر شعراءنے نعت میں فکر کی نئی شمعیں روشن کیں۔ شاکر کنڈان نے افواج پاکستان میں نعت گوئی کی روایت کے موضوع پر عسکری نعت گو شعراءکا تذکرہ کیا۔ سرور حسین نقشبندی نے نعت کے فروغ کے حوالے سے نعت کے رسائل و جرائد کی اشاعت پر زور دیا اور کہا کہ قومی اداروں کا کام ہے کہ وہ نعتیہ رسائل کو مختلف لائبریریوں تک پہنچائیں۔ڈاکٹر اشرف کمال نے کہا کہ نعت حضورکی محبت اور عقیدت کی دین ہے جس کو عطاءہوجائے تووہ کہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نعت ہمارے رسم و رواج کی عکاس ہے۔ڈاکٹر کاشف عرفان نے نعت کے مختلف ادوار کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور ہر دور میں چیدہ چیدہ شعراءکا تذکرہ کیا۔ شہزاد بیگ نے فیصل آباد میں اردو نعت کا سفر کے عنوان سے 50کی دہائی میں نعت کے فروغ کے حوالے سے گفتگوکی۔ انہوں نے کہاکہ خلیق قریشی، حافظ لدھیانوی ، صائم چشتی، منظور احمد منظور و دیگر نے خوبصورت نعتیں کہی ہیں جس کے سبب فیصل آباد آج شہر نعت کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر امینہ بی بی نے نعت کی لفظیات پر تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ اردو میں نعت کا دامن بہت وسیع ہے۔