ڈینگی بخار کا کامیاب ہومیوپیتھک علاج

( جہانزیب راشد کے قلم سے )
ڈینگی بخار مچھر سے پھیلنے والی بیماری ہے، مچھروں کی ایک قسم ایڈیز (Aedes) کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو خود ڈینگی وائرس کا شکار ہوتا ہے اور انسان کو کاٹتے ہی خون میں وائرس کو منتقل کردیتا ہے۔ جس سے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 40 کروڑ افراد متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان بھر میں ڈینگی کے وار تیزی سے جاری ہیں تمام صوبوں میں یہ مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے بلکہ ایک وبائی شکل اختیار کررہا ہے۔

ڈینگی بخار کی علامات؟
ڈینگی بخار کی علامات میں تیز بخار کے ساتھ ساتھ ہڈیوں میں شدید دردیں شامل ہیں درد کی شدت خاص طور پر ٹانگوں اور کمر میں پائی جاتی ہے جسم پر سرخ دھبے یا نشانات کا بن جانا ، اس کے ساتھ ساتھ مریض کو متلی اور الٹیوں کی ساتھ ساتھ غنودگی کی شکایت ہوجاتی ہے اور پلیٹلیٹس کی کمی کے باعث ناک اور مسوڑھوں سے خون رسنا بھی شامل ہے بعض اوقات مریض کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن کا تیز ہونا بھی پایا جاتا ہے۔ آنکھوں میں دھکن کا احساس پایا جاتا ہے۔ جوڑوں اور ہڈیوں میں شدید درد ہوجانا علامت عام شمار کی جاتی ہے۔

احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟
صفائی اور مچھر مار سپرے کا بروقت استعمال ہی اس بیماری کا خاتمہ کرسکتی ہے ڈینگی بخار سے بچاؤ کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ کسی بھی جگہ پانی جمع نہ ہونے پائے۔ چاہے پانی صاف ہو یا گندہ، گھروں میں خاص طور پر جگہ جگہ پانی کا جمع ہونا کسی خطرے سے کم نہیں ہوتا ۔ بارشوں کے بعد گھروں میں جگہ جگہ پانی جمع ہوجاتا ہے لہٰذا اسے صاف کرکے سپرے کیا جائے۔ اس کے علاوہ ضروری ہے کہ مچھر دانیوں اور سپرے کا استعمال متواتر کیا جائے کیونکہ ڈینگی بخار ملیریا سے کئی زیادہ خطرناک بیماری ہے جس میں مریض کی حالت نازک ہوسکتی ہے کیونکہ وائرس کو جسم سے ختم ہونے میں دو سے تین ہفتوں تک کا دورانیہ لگ سکتا ہے۔

ڈینگی بخار کا سبب؟
ایڈیِز ایجپٹی نامی مچھرجو کہ دھبے دار جلد والا ہوتا ہے یہ مچھر پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی مون سون کی بارشوں کے بعد پھیلنا شروع ہوجاتا ہے اور دسمبر تک موجود رہتا ہے۔اس مچھر کے انڈوں اور لاروے کی پرورش صاف اور ساکت پانی میں ہوتی ہے ۔

تشخیص کیسے کی جائے؟
ڈینگی بخار کی تصدیق کے لیے این ایس ون (NS-1) یا پی سی آر (PCR) نامی خون کے تجزیوں سے ہوتی ہے۔ عام طور پر خون کا تجزیہ (CBC) سے اس مرض کی تشخیص میں مدد لیا جاتا ہے جس میں پلیٹلیس کی مقدار کم پائی جاتی ہے ۔

عام طور پر علاج کیا ہے؟
اس بیماری کا کوئی حتمی علاج موجود نہیں محض علامات کو کم کرنے کےلیے ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے جیسے درد کش اور بخار کو کم کرنے کے لیے پیناڈول کا سہارہ لیا جاتا ہے جس سے وقتی طور پر بخار کم ہوجاتا ہے لیکن اس بیماری سے خون میں پلیٹلیٹس کا کم ہوجانا عام پایا جاتا ہے یعنی کہ خون پتلا ہوجاتا ہے جو کہ نہایت خطرناک صورتحال پیدا کرسکتی ہے جس کے لیے بعض اوقات مریض کو خون اور فلیوڈز کی ڈرپ لگائی جاتی ہے

#ہومیوپیتھک علاج؟
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عام طور پر جو علاج کیا جاتا ہے اس میں ڈینگی بخار کا کوئی حتمی علاج نہیں البتہ چند علامات کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں وہی پر دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ علاج ہومیوپیتھی ہے جہاں اس بیماری کے لیے بہترین ادویات کا گروپ موجود ہے جس سے نا صرف اس بیماری کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ جس علاقے میں بیماری پھیلنے کا خدشہ ہو وہاں حفظ ماتقدم کے طور پر بھی دواء استعمال کروائی جاسکتی ہے ۔ ڈینگی بخار کی عام علامات ہوں یا شدید دونوں صورتوں میں ہومیوپیتھک ادویات فائدہ مند ہیں حتٰی کہ 24 سے 48 گھنٹوں میں پلیٹلیس کی مقدار بھی ادویات سے بڑھائی جاسکتی ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت دیگر طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو بھی قومی صحت کی پالیسی میں شامل کرے تب ہی ہم مختلف طبی مسائل سے بچ سکتے ہیں کسی ایک طریقہ علاج کو اپناکر صحت مند پاکستان کا خواب پورا نہیں کیا جاسکتا لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ متبادل طریقہ علاج کو پروان چڑھایا جائے وگرنہ مستقبل میں مختلف مسائل ہمارے لیے وبال جان بن سکتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں متبادل ادویات تیزی سے استعمال ہورہی ہیں یورپ کے ساتھ ساتھ چائنہ اور انڈیا جیسے ممالک میں بھی متبادل ادویات کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت صحت مند پاکستان کی خواہش مند ہے اگر ایسا ہے تو تمام طریقہ علاج قومی دھارے میں لائیں جائے تاکہ قوم کو بروقت ہر قسم کا علاج میسر ہو یعنی لوگوں کے پاس چوائس موجود ہو۔ ایسا نا ہو کہ محض علامات کو دبانے کو ہی علاج سمجھ بیٹھے جس کی پیچیدگیاں نہ صرف اس دور میں دیکھی جاسکتی ہیں بلکہ مستقبل میں مزید تباہی پھیلا سکتی ہیں۔