محسن پاکستان۔ قوم آپ سے شرمندہ ہے۔ سہیل دانش

محسن پاکستان۔ قوم آپ سے شرمندہ ہے۔
سہیل دانش
اس دن گرم دوپہر ڈھل گئی تھی ہلچل مچادینے والی سرگرمیاں جاری تھیں۔ آسمان پر کم ہوتی روشنی غم ناک شام کا پتہ دے رہی تھی۔ ٹیلی ویژن اسکرین پر ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر دماغ سلگتی لکڑیوں کی طرح چٹخنے لگا تھا۔ ان کے چہرے پر ملال کی پرچھائیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کی توانائی اور جذبہ کسی نے نگل لیا ہو۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اسکڈ میزائل مارد یا ہو۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کی تاریخ کی سب سے ممتاز شخصیت ایٹمی پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے نا کردہ جرائم کا اعتراف کر رہے تھے۔
ایک سوال میرے ذہن میں رینگنے لگا کہ کیا ہم ایک آزاد اور خود مختار ملک ہیں؟ حالات خواہ جو بھی ہوں الزامات جس نوعیت کے لگے ہوں دباؤ جس قدر زیادہ کیوں نہ ہو۔ کیا ہم اپنے ہیروز کا دفاع نہیں کر سکتے؟ ان کی حفاظت نہیں کر سکتے۔؟ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دبک جانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ مجھے وہ دن یا د آگیا جب کولن پاول نے ہمارے حکمران جنرل مشرف کو فون کر کے کہا تھا۔ صدر امریکہ دریافت کر رہے ہیں کہ آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ ہیں؟ جواب ہاں یا نا میں چاہئیے اور ہم نے اس وقت کی دی گئی مہلت سے پہلے ہی انہیں بتا دیا تھا کہ آپ ہمارے مائی باپ ہیں آپ کے لئے ایجاب و قبول کے تکلف کی بھی ضرورت نہیں۔ اس کے چند دنوں بعد ایڈیٹرز کے ساتھ جنرل مشرف کی ایک گفت وشنید کی محفل میں مجھے مجید نظامی مرحوم کا وہ سوال بھی یاد ہے۔ انہوں نے دریافت کیا تھا جناب صدر۔ اگر آپ انکار کر دیتے۔ اگر آپ ڈٹ جاتے۔ آپ اپنے ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف امریکی بربریت اور اندھا دھند بمباری میں حصہ دار بننے سے منع کر دیتے تو کیا ہو جاتا؟ جنرل مشرف نے حیرانگی سے نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر کی طرف دیکھا نظامی صاحب آج ہم یہاں اندھیرے میں بیٹھے ہوتے امریکہ اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ ہم پر چڑھ دوڑتا۔ وہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔حکمت اور تدبر سے کیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک جذباتی فیصلہ ہمیں ناختم ہونے والے بحران میں پھنسا دیتا۔ صدر کی بات سن کر مجھے جنرل نیازی یاد آگئے۔ 1972میں جب شملہ معاہدے کے تحت پاکستانی فوجیوں کی رہائی کا شیڈول طے ہو گیا تو اس وقت کلکتہ کے قلعہ فورٹ سنڈیمن میں جہاں پاکستان کے اعلیٰ افسران کو رکھا گیا تھا ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“میں صدیق سالک لکھتے ہیں کہ وہ اس وقت میجر تھے اور ہندوستان کے قیدی تھے۔ میں نے جنرل نیازی سے اس مرحلے پر ایک انٹرویو میں دریافت کیا اگر ہم ہتھیار ڈالنے کے بجائے گوریلا وار شروع کر دیتے تو بھارتی فوج کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا سکتے تھے۔ جواباً جنرل نیاز ی نے کہا کہ اگر ہم ایسا کر تے تو مشرقی پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر خون ریزی ہوتی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ڈھاکہ کی سڑکوں اور گلیوں میں انسانی خون بہہ رہا ہوتا۔ صدیق سالک نے لکھا کہ میں نے جنرل نیازی سے کہا کہ ممکن ہے کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں لیکن اگر ہم جرأت مندی سے گوریلا وار کے ذریعے بھارتیوں کا مقابلہ کرتے تو نقصان خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو جاتا لیکن ہماری اور مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی۔
سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہی وہ لمحہ تھا جب ہالینڈ کی اعلیٰ ترین میٹالرجی ریسرچ لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر نے سوچا تھا کہ یہ تو ہم پاکستانیوں کے لئے من حیث القوم بڑی مایوسی اور بے بسی کے لمحات ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کا منظر ڈاکٹر صاحب کو بے چین اور مضطرب رکھتاتھا۔ انہوں نے سوچا کہ یہ خطرات تو ہمیشہ ہمارے سروں پر تلوار بن کر لٹکتے رہیں گے۔ یہ 1974کی بات ہے انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھ ڈالا جس میں اپنے دل کی بات کہہ دی۔ بھٹو صاحب کو یوں محسوس ہوا جیسے یہ ان کی دل کی آواز ہے۔ اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ہمیں ایٹمی قوت حاصل کرنی ہو گی۔ بھٹو صاحب نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستان بلایا اور ان سے پراجیکٹ شروع کرنے پر اصرار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی سب کچھ بھول کر اس منصوبے کی تکمیل کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔یہ آج سے تقریباً37قبل کی بات ہے جب ڈاکٹر صاحب سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ روزنامہ جنگ کے بانی محترم میر خلیل الرحمن صاحب نے وقت طے کر کے ہمیں انٹرویو لینے کی ہدایت دی۔ مجھے یاد ہے میں اور مرزا سلیم بیگ جنگ میگزین کے لئے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ نشست کے لئے وقت مقررہ پر پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کاایک تصور ذہن میں موجود تھا لیکن یقین مانئیے کہ روئیے کی شائستگی اور ان کی لہجے کی انکساری نے مجھے دم بخود کر دیا ایک گھنٹے کی وہ ملاقات زندگی کا انوکھا تجربہ تھا۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب سے متعدد ملاقاتیں ہوتیں اگر ان سب باتوں واقعات اور یادوں کو سمیٹنا چاہوں تو شاید کتاب لکھنی پڑے خواہش تو ہے کہ ایسا کروں۔ اس پہلی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے اس منصوبے پر کام شروع کیا تو مجھے جلد احساس ہوا کہ پاکستان میں لال فیتہ کے پالیسی کے سبب شاید میں اس منصوبے پر تیزی سے کام نہ کر سکوں۔ میں ایک دن بھٹو صاحب کے پاس پہنچ گیا اور اپنی مایوسی سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان حالات میں مجھے اجازت دیدیں۔ یہ سن کر بھٹو صاحب کرسی سے کھڑے ہوگئے انہوں نے مجھے گلے سے لگاتے ہوئے کہا ”ڈاکٹر صاحب بھول جائیں اب ہم ساتھی ہی جئیں گے“انہوں نے گھنٹی بجا کر غلام اسحاق خان کو طلب کیا جو اس وقت سیکرٹری خزانہ تھے۔ بھٹو صاحب نے غلام اسحاق خان سے کہا کہ اس لمحے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو ایک روپیہ یا ایک ارب روپیہ کی ضرورت ہو اسے قومی ذمہ داری سمجھ کر بلا تاخیر فراہم کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کو آئندہ اس قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئیے۔ ڈاکٹر صاحب نے دن رات کو ایک کر کے اپنے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کے ایک زبردست اور با صلاحیت ٹیم تشکیل دے دی۔8سال کی کاوش کے بعد ڈاکٹر صاحب اپنے مشن میں کامیاب ہو چکے تھے۔ جب پہلے بار ڈاکٹر صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو بتایا کہ بم تیار ہے۔ صرف ایک ہفتے کے نوٹس پر ہم دھماکہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت جنرل ضیا ء نے فرط جذبات میں ان کا ماتھا چوم لیا تھا۔ چند دن بعد جب مشاہد حسین سید اپنی شادی کا کارڈ دینے ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے تو بھارت کے نامور صحافی کلدیپ نئیر بھی ان کے ساتھ تھے۔ کلدیپ نے اس ملاقات میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ کا بم کہا ں تک پہنچا؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا”صرف اسکرو“ٹائٹ کرنے رہ گے ہیں“کلدیپ نئیر نے یہ سٹوری دس ملین روپے میں ٹائمز آف انڈیا کو بیچ دی کہ پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا۔ دنیا میں کھبلی مچ گئی۔ جنرل ضیاء نے ڈاکٹر صاحب کو فون کر کے کہا کہ آپ کے انکشاف میں دنیا بھر میں ایک نئی بحث کا آغازکر دیا ہے۔ ڈاکٹرصاحب نے کہا کہ میں نے یہ انکشاف دانستہ کیا۔ تاکہ دنیا کو اندازہ ہو جائے کہ اب پاکستان ایٹمی طاقت بن چکاہے۔ اس سے قبل جنرل ضیاء اس وقت جب بھارت کی فوجیں پاکستانی سرحد پر جمع ہو رہی تھیں کر کٹ ڈپلومیسی کے تحت دہلی پہنچ کر وزیر اعظم راجیو گاندھی کے کان میں یہ بات کہی کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو یہ ضرور سوچ لیجئے کہ ہمارے پاس بھی وہ کھلونا موجود ہے۔یہ سن کر راجیو گاندھی کو پسینہ آگیا ان کا چہرہ فق ہو گیا تھا انہوں نے صرف 48گھنٹے بعد ہی بھارتی فوج کو واپس اپنی پرانی پوزیشنوں پر آنے کا حکم جاری کر دیا۔ مئی 1998میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئیے تو پاکستان دنیا کا ساتواں اور اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بن چکا تھا۔ نواز شریف نے یہاں پوری جرأت اور بصیرت سے یہ فیصلہ کے ملک کو ناقابل تسخیر بنانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس سے قبل ڈاکٹر صاحب پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کر چکے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میزائل ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے میں بینظیر اور نوازشریف کا بڑا ہاتھ تھا۔ بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے جو پودا اگایا تھا وہ اب جڑ پکڑ چکا تھا۔ پاکستان کا دفاع نا قابل تسخیر ہو چکا تھا۔یہی وجہ تھی کہ 2000میں جب بھارت کی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر جمع ہوئیں اور جنگ کے بادل چھا گئے تو اس مرحلے پر جنرل مشرف نے سفارتی ذرائع سے بھارت کو یہ پیغام دیا تھا۔ اگر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان آخری نہیں پہلی ترجیح کے طور ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا۔ بھاریتوں کے لئے یہ ایک جھٹکا تھا وہ پیچھے ہٹ گئے۔ جنرل مشرف کو معلوم تھا کہ یہ ڈاکٹر صاحب کی کرشمہ سازی ہے جس نے پاکستان کو محفوظ کر دیا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ 2004کے بعد سے جو سلوک روا رکھا گیااس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا اس پر ہم سب کو من حیث القوم ہمیں شرمندہ ہونا چاہئیے۔ ڈاکٹر صاحب کے خطوط پڑھ کر، ان کے انٹرویوز سن کر، اپنے کانوں سے ان کے گلے شکوے جان کر، اب پچھتاوے کے علاوہ ہمارے پلے کیا رہ گیا؟ ڈاکٹر صاحب تو بے بسی، مایوس، اضطراب اور بے چینی کے ساتھ اس دنیا سے چلے گئے باتوں اور یادوں کا ایک ہجوم ہے لیکن ہمارے لئے ایک سبق چھوڑ گئے۔
قوموں کوسرمایہ کھیت، فیکٹریاں، گاڑیاں، ادارے اور نوٹوں سے لبالب بھری تجوریاں نہیں ہوتیں لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے ملک سے محبت کرنے والے ہنر مند لوگ۔
کسی قوم کا ایک دانشور، عالم یا سائنسدان حالات سے پریشان ہو کر نقل مکانی کر جائے، یاڈاکٹر قدیر جیسا عظیم محسن اور ہیرو ایک طویل عرصے بددلی اور مایوسی کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس قوم سے بڑی قلاش قوم کوئی اور نہیں سکتی۔ خواہ اس کے سارے پہاڑ سونے کے بن جائیں۔ ساری ندیوں، سارے دریاؤں اور سارے بیراجوں سے تیل بہنے لگے اور اس کے سارے درختوں سے اشرفیاں اترنے لگیں۔
پاکستان سے عشق کرنے والا یہ عظیم انسان یوں دکھ اور ملال کو سمیٹ کر رخصت ہوا جس نے من حیث القوم ہمارے چہروں پر سے چادر سرکا دی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے گھر جیسا بھی ہے، ہے تو اپنا۔ ہم اسے چھوڑ کر کہا ں جائیں اس لئے لگے ہوئے ہیں کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں آخری سانس تک۔ ڈاکٹر صاحب سے عام لوگوں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ بیمار ہو کر آغاخان ہسپتال میں داخل ہوئے تو اس کے بیرون دروازے کے باہر گھاس پر ڈاکٹر صاحب کی تصویریوں کے ساتھ پھولوں کے گلدستوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ معصوم بچے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اور بزرگ ڈاکٹر صاحب کی تصویروں کو چوم رہے تھے اور وہاں پر پھول رکھ کر ان سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کر رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب سادہ طبیعت انسان تھے۔ جیب میں پاکٹ سائیزقرآن مجید رکھتے تھے صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ حضورﷺکا ذکر ہوتا تو آنکھیں نم ہو جاتیں اب اللہ کے حضور حاضر ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ دوسرے جہاں میں انہیں بنی آخرں الزماں ؐ کی شفاعت یقینی طورپر نصیب ہوئی ہوگی۔ دعا ہے اللہ رب العزت اس عظیم انسان کے درجات بلند کرے۔