بے حس قوم کے ہیرو

امیر محمد خان
==================

ہم اپنے محسنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور کسی بھی شرم سے بے نیاز ہیں اسکا اندازہ ہمیں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کی سوانح پڑھکر اور دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے ، جب ملٹری آمر نے امریکہ کی اطلاع پر ڈاکٹر عبدالقدیر کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ ایٹمی راز فروخت کرنے کا الزام اپنے سر لے لیں، اگر ایسا نہ کیا تو امریکہ کا دباؤ ہے کہ آپکو انکے حوالے کر دیا جائے، اسکے بعد امریکہ کی دوسری خواہش تھی کہ ڈاکٹر صاحب کی پوری ٹیم کو وہ امریکہ لیجا کر تفتیشی عمل سے گزاریں گے، تیسری خواہش پاکستان کا ایٹمی پراجیکٹ رول بیک کرنے کی تھی،امریکہ اپنے نمک خوار ممالک کے ساتھ کیا کرتا ہے اسکا اندازہ پاکستانی قوم کو عافیہ صدیقی کے امریکی قید میں جہاں اس نازک و تعلیم یافتہ خاتوں جس نے امریکہ سے ہی PHDکی ڈگری حاصل کی تھی اسے 86 سال کی سزا دیکر قید میں رکھا ہوا
ہے، ہمارے کسی تیس مار خان سیاست دان کو آج تک یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ امریکہ کے سامنے اس مسئلے پر زبان کھول سکے یہ ہیں اس محسن پاکستان کے ساتھ ہوا، چونکہ امریکہ سرکار یہ کہہ رہی تھی بلکل اسطرح عراق پر چڑھائی کیلئے وہان ایٹمی ہتھیاروں کا ہوا چھوڑا تھا، جس طرح اپنے نو آبادیاتی نظام کو تقو یت دینے کیلئے 9/11 کے بعد افغانستان میں طالبان کو ختم کرنے کے بہانے سے فوج کشی کی اسی طرح جب پاکستان نے اسکے باوجود وکہ امریکی سرکار نے بذر یعہ ہنری کسینگرنے مرحوم ذولفقار علی کی جانب سے ایٹم ’بم بنانے کے عندیہ پر یہ پیغام دیا تھا کہ ”ہم تمھیں نشان عبرت بنادینگے ورنہ یہ ایٹم بنانے کی خواہش کو دفن کردو“ ذولفقار علی بھٹو جمہوریت کے حوالے سے لاکھ خرابیا ں ہوں مگر ایٹمی پروگرام نہ روکا ، ڈاکٹرعبدالقدیر جیسے محب وطن جسکی محب وطنی کی لا متناہی داستان ہے کوپاکستان لاکر انہیں تمام تر سہولیات پہنچا کر پاکستان کو ناقابل تسخیر کرنے کے عزم کے ساتھ انہیں ایٹمی پرگرام جاری رکھنے کو کہا ، جسکے نتیجے میں وہ ہوا جسکی دھمکی دی گئی تھی کہ ”نشان عبرت“ بنادیا جایگا، اسے ایک ایف آر اے میں نامزد ہونے کی وجہ سے نشان عبرت بنا دیا گیا اور انہوں نے امریکہ کے زرخرید غلاموں نے پھانسی دے دی۔جب پرویز مشرف نے ڈاکٹر صاحب کو یہ کہا کہ آپ ایٹمی راز کوریا، ایران فروخت کرنے کو ٹیلی ویثرن پر خطاب کے ذریعے تسلیم کرلیں تو پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والے پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہوجائے گا اس محسن اور وطن کیلئے لازوال قربانیاں دیکر ایٹم صلاحیت اس ملک میں اپنی اعلی ملازمت، عیش کی زندگی چھوڑ کر آنے والے شخص نے ایک مرتبہ پھرقربانی دی پرویز مشرف کے سکھائے ہوئے الفاظ ٹی وی پر بول کر ایٹمی راز فروخت کرنے کا الزام اپنے سر لے لیا، ڈاکٹر صاحب کی قومی نشرعاتی رابطے پر نشر ہونے والی تقریر کے پاکستان کے سیاست دانوں میں ایک سیاست دان اللہ انہیں صحت و زندگی دے چوہدری شجاعت نے بیان دیا تھا کہ ”ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایک مرتبہ پھر پاکستانکو بچا لیا، پاکستان کیلئے ایک اور قربانی دے دی۔مگر غیرملکی آقاؤں کی کٹھ پتلی کب تک بننا ہوگا؟ ڈاکٹر قدیر کا یہ بیان، اسکے بعد انہیں نظر بند کی صوبتیں، اور انکی موت تک انکی کسمپرسی کا حالت یہ وہ عوام ہیں کہ یہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ، اور یہ تاریخ پڑھکر آنے والی نسل میں کون ایس بے وقوف محب وطن ہوگا جو وطن کیلئے اتنی قربانیاں دے گا جتنی ڈاکٹر عبدالقدیرنے دیں ہمار ے ہاں اب تو قومی ہیرو ناپید ہوجائینگے جنکی سوانح حیات میں ملک کی خدمت لکھی جاسکے۔ آج یہ سوچ کر ہر پاکستانی کی یقنینا روح کانپ جاتی ہے اگر ہماری تاریخ میں 14اگست کے بعد اگر 28مئی ہماری تاریخ میں نہ ہوتی تو تاریخِ پاکستان کا کیا حال ہوتا۔بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد جنکی ہم صرف سرکاری دفاتر میں بڑی بڑی تصویروں تک محدود کردیا ہے اور انکے افکار، طریقہ حکمرانی کو بوسیدہ سمجھ کر ”نئے پا کستان“ کا راگ الاپناء شروع کردیا ہے جبکہ قائد کے بتائے ہوئے کسی قران و سنت کی تعلیمات سے دور نہیں،پھر جس شخصیت کو زندگی کے تمام شعبوں میں بے مثال پذیرائی اور محبت ملی انکا نام ڈاکٹر عبد القدیر خان ہے۔وہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد میں یکساں طور پر مقبول تھے۔پوری قوم یہ سمجھتی تھی کہ پاکستان کو محفوظ اور مامون بنانے میں انکا بنیادی کردار ہے وہ حسن صورت کیساتھ ساتھ حسن سیرت کا بھی شہکار تھے۔انتہائی نرم اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے۔ ایک مستقل مسکراہٹ انکے چہرے پر رقصاں رہتی تھی۔وہ پاکستان کے محسن تھے۔انکی وجہ سے پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوا تھا۔انہوں نے اپنی ساری زندگی تحفظ پاکستان کیلئے صرف کر دی تھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہم نے گھر تک محدود کر دیا۔جس شخص نے پوری دنیا میں ہمارے لئے عزت کے دروازے کھولے تھے اس شخص پر ہم نے آزادی کا دروازہ بند کر دیا۔جس شخص کی وجہ سے ہم دنیا میں سر اٹھا کر چلتے ہیں اس شخص کو سر جھکا کر وقت کے حکمران کے سامنے بٹھا دیا، وہ جس حال میں رہے وہ کسی قید سے کم تر نہیں، وہ اپنی آزادی کے خواہشات لئے عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے مگر جب معاملات طے ہوں تو عدالتیں، عداوتیں بن جاتی ہیں بے رحم کسی کو نہیں پہچانتی مگر وہ لوگ جو اپنے آپ کو زندہ تصور کرتے ہیں انہوں نے بھی پہلو تہی رکھی، مسلم لیگ ن اپنے آپ کو ایٹم کا دھماکہ کرنے کا ڈھنڈورہ تو پیٹنی ہے مگر اس مسلم لیگ نے ڈاکٹر صاحب کو سکون کے سانس کے لئے نہیں چھوڑا، ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستان لانے کی سیاست چمکانے والی پی پی پی نے اپنے دور حکومت میں اس محسن پاکستان کو اس تکلیف دہ حالات سے نکالنے میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیا ؟؟ڈاکٹر صاحب کی اللہ کے حضورسرق رو ہو جانے کے بعد بھی آج کے حکمرانوں کی بڑی تعداد انکے جنازے میں بھی شرکت نہ کرسکی، اور اس شخص کا جنازہ جس نے اس ملک کو محفوظ بنایا اسکے جنازے میں نہ جانے کا بہانہ سیکورٹی کلیرنس نہ ملنے کا تھا، پاکستانی سیاست دانوں کی پوری کھیپ ماسوائے مراد علی شاہ اور شیخ رشید کو سیکورٹی خطرہ تھا، شہباز شریف، حمزہ شہباز،پی ڈی ایم، بلاول ، مولانہ فضل الرحمان ایسے محب وطن ہیں کہ اس محب وطن کے جنازے میں شرکت نہ کرسکے شائد وہ اس منحنی، کم آواز، محب وطن کے جسد خاکی کا سامنا کرتے ہوئے شرما رہے تھے، شرم بنتی ہے،آنی بھی چاہئے، جب رہنماء حکومتی مسند پر بیٹھنے والے اتنے بے حس ہونگے تو وہ قوم کی کیا تربیت کرینگے۔ہمارے ہاں تو رہنماء نہیں قوم رہنماء کی تربیت کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب صرف پاکستان کے نہیں بلکہ عالم اسلام کے محبوب سائینس دان تھے میں نے یہاں انکے انتقال کی خبر پر صرف پاکستانی کی آنسووں سے لبریز آنکھیں ہی نہیں یہاں سعودی بھائیوں کی آنکھوں میں بھی اس انتقال کے خبر کے بعد آنسووں کا سمندر دیکھا، یہ دنیا فانی ہے سبکو ایک دن جانا ہے یہ صرف اسلام ہی نہیں دنیا کاہر مذہب کہ ہے، یہ جان للہ کی امانت ہے مگر افسوس اس بات کا ہے اتنے بڑے اورمضبوط محب وطن کو کسی بے حس قوم کا ہیرو نہیں ہونا چاہئے۔