مردم شماری کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا،

یاسمین طہٰ
=================
گذشتہ ہفتے متحدہ قومی موومنٹ کے وفد نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مردم شماری کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا، ملاقات میں وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی سیّد امین الحق، خالد مقبول صدیقی، سینیٹر فیصل سبزواری اور وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر شریک تھے۔ شرکاء نے کہا کہ حکومت اور اتحادی جماعتیں مل کر سندھ اور بالخصوص کراچی کی ترقی کیلئے موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔اس ملاقات سے یہ بات واضع ہوگئی کہ متحدہ کے پاکستان تحریک انصاف سے معاملات بہتر چل رہے ہیں۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کوٹلی میں کارکنوں سے ایک خطاب میں دعوی کیا ہے کہ آئندہ وزیراعظم جیالاہوگا،انہوں نے کہا کہ بے روزگاری، غربت اور مہنگائی کا حل صرف پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔شنید ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سندھ میں غوث علی شاہ کو پارٹی کا سربراہ بنانے جارہی ہے اور انھیں ارباب غلام رحیم کے ساتھ مل کر صوبے میں پی پی پی کے ناراض رہنماؤٓں کو پارٹی میں شامل کرنے ٹاسک دیا گیا ہے۔ادھر پی پی پی نے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے عوام میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی ہدایت پر سندھ بھر میں کھلی کچہریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعلی سندھ کے معاون خصوصی و جنرل سیکرٹری سندھ وقار مہدی اور ویر جی کولہی نے ٹنڈوالہ یار میں ایک کھلی کچہری میں عوامی مسائل معلوم کئے۔اس موقع پر عوام نے اپنے مسائل کے حوالے سے شکایات کے انبار لگا دیئے۔ وقار مہدی نے لوگوں کو یقین دلایا کہ کھلی کچہری میں ملنے والی شکایت کا ازالہ کیا جائے گا۔ دوسری طرف عوامی مسائل کے حل کے لیے سجاول میں ہونے والی کھلی کچہری جھگڑے کی نذر ہوگئی۔سجاول میں کھلی کچہری اس وقت ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئی جب مراد چانڈیو نامی شخص نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری کہتا ہے کہ سارا فنڈز رکن قومی اسمبلی سید ایاز شاہ شیرازی کو دینا پڑتا ہے، اس لیے آپ کے کام نہیں ہو سکتے۔اس بات پر پیپلزپارٹی میں شامل شیرازی برادران کے حامیوں اور دوسرے گروپ کے افراد نے ایک دوسرے پر کرسیوں سے حملہ کردیا۔سندھ حکومت اور آئی جی سندھ میں ایک بار پھر نیا تنازع سامنے آگیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ تنازع وزیر اعلیٰ کے پی ایس او فرخ بشیر کی ترقی نہ ہونے پر ہوا،اور مراد علی شاہ کو یہ بتایا گیا ہے کہ فرخ بشیر کی ترقی نہ ہونے کے ذمے دار آئی جی سندھ ہیں، جس پر وزیر اعلیٰ نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی ہے کہ آئی جی سندھ کو اظہار ناپسندیدگی کا خط لکھا جائے۔ جبکہ دوسری جانب چیف سیکرٹری سندھ سید ممتاز شاہ آئی جی سندھ مشتاق مہر کو خط لکھنے سے گریز کررہے ہیں۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے سندھ سے اس بار صرف 3 افسران کی ترقی کی منظوری دی، تین افسران میں مقدس حیدر، عبدالسلام شیخ اور حمید کھوسو شامل ہیں۔جن افسران کی ترقی نہ ہوسکی، ان میں فرخ بشیر، فیصل بشیر، رائے اعجاز، فاروق احمد شامل ہیں، سندھ سے گریڈ 21 کے بھی کسی پولیس افسر کو ترقی نہیں دی گئی۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی چار آئی جی سے سندھ حکومت کے تنازعات شروع ہوئے اوران چاروں کے تبادلے ہوگئے۔صوبائی وزیر برائے محکمہ آبپاشی جام خان شورو کی ہدایات پر محکمہ آبپاشی سندھ کے سیکریٹری سہیل احمد قریشی نے چیئرمین ارسا کو 30 ستمبرکو منعقد کیے جانے والے ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے خط ارسال کرکے انہیں اعتراضات سے آگاہ کیا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کوارسا کو پانی معاہدہ 1991 پر سختی سے عملدرآمد کروانے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ معاہدہ کے مطابق پنجاب 48.92 فیصد، سندھ 42.7 فیصد، بلوچستان 3.38 فیصد اور کے پی کے5.05 فیصد حصے کا پانی انڈس واٹر سے لے رہے ہیں، 42.7فیصد کا پانی حصہ رکھنے والے صوبہ سندھ کو اس کے جائز حصے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ ارسا کو ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے صوبہ سندھ اور دیگرصوبوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے پانی ایشوز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انٹرنیشنل ٹیموں کے سکیورٹی مسئلے کا مستقل حل تلاش کرلیا ہے۔جس سے کراچی کے شہریوں کو بڑا ریلیف ملے گا۔ چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے کراچی میں تاجروں کے ساتھ ملاقات میں نیشنل اسٹیڈیم کے قریب فائیو اسٹار ہوٹل بنانے پر مشاورت کی جبکہ معروف کاروباری شخصیات نے پی سی بی کو ہوٹل بناکردینے کی پیشکش کردی ہے اور انٹرنیشنل ٹیموں کو مستقبل میں اسی ہوٹل میں ٹھہرایا جائے گا۔ذرائع کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ اسٹیڈیم کے قریب ہوٹل بننے سے غیر ملکی ٹیموں کے سکیورٹی تحفظات دور ہوجائیں گے۔یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان کے ساتھ ون ڈے سیریز کے آغاز سے کچھ دیر قبل سکیورٹی مسائل کا بہانہ بناکر دورہ منسوخ کردیا تھا اور ٹیم اپنے وطن واپس لوٹ گئی تھی جبکہ انگلینڈ کے کرکٹ بورڈ نے بھی اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔