آہ کو چاہیے اک عمر اثرہونے تک!………. الودع ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔۔۔

شاید گزشتہ کچھ ماہ امتحان کے لیے طے تھے پہلے ممنون حسین پھرعمرشریف اور اب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمیں چھوڑ کے اپنے اگلے سفرکوچل دیئے ان تمام افرادسے اگلے جہاں میں پھرملاقات توہوہی جائے گی۔۔۔ مگرعبدالحمیدعدم یادآگئے کہتے ہیں

حشر میں کون کس کوملتاہے
حشرکاآسرا نا دے جانا۔۔۔

سو پھرامیدٹوٹ گئی اور دل رنجیدہ ہے،ڈاکٹر اے کیو خان یقینا محسن پاکستان توتھے ہی لیکن وہ میرے لئے شجرسایہ دارتھے!!کوئی بارہ برس پرانی بات ہے میراپہلامجموعہ حادثہ ہونے کوہے! جب آیا تو دنیا بھرسے غیرمعمولی محبتیں ملیں ایسے میں زندگی نے مجھ پر بے شمار وہ باب بھی کھولے جن کا تصور خواب میں بھی مشکل ہو،مجھے ایک روز میرے پتے پرخط موصول ہوا وہ خط عبدالقدیر خان صاحب کاتھاپہلے انتہائی خوشی ہوئی پھر ذہن پہ خوف طاری ہوگیاکہ یہ بات کسی کوبتائی جائے یا نہیں؟؟اس ہی کشکمش میں کچھ دن گزرے کہ مجھے اک صبح دوستوں کی فون کالز آنا شروع ہوگئیں چونکہ میں ہمیشہ سے رتجگوں کاعادی ہوں سو میں گہری نیند میں فون اٹھانا سکا۔۔۔ابھی یہ وہ دور تھا جب واٹس ایپ نہیں آیاتھاسو جب اٹھاتوایک سو پانچ مس کالزتھیں پریشانی میں پہلا فون ایک قریبی دوست کوکیاپتہ چلا کہ آج کے جنگ اخبارمیں جو کہ غالباپیرکادن تھا ڈاکٹر اے کیوخان کا کالم آیاہے اورپورے کالم میں عبدالقدیر خان صاحب نے تمہارے شعروں کے حوالے دیکر قومی سیاست پرتنقید کی ہے،میری خوشی سے حالت غیر ہوگئی ان دنوں میں ایکسپریس میڈیا گروپ سے وابستہ تھاسو چوڑا ہوکردفترپہنچاتوایک دھوم تھی پھر یہ سلسلہ چلتا رہاعموماڈاکٹرصاحب میرے اشعارتقریبات میں پڑھتے تحریروں میں استعمال کرتے اورکبھی کبھی اجازت کالفظ استعمال کرکے خاصاشرمندہ کردیتے،پھر یوں ہوابات تحریروں سے ملاقات پرآگئی ڈاکٹر صاحب کراچی آتے تومجھ ناچیزکوچائے پرمدعو کرتے گھنٹوں زبان،تہذیب،جدیدادب،کلاسکی شاعری،موسیقی پربات چیت ہوتی کئی برس یہ سلسلہ جاری رہا،اب وہ وقت آگیاکہ صحافی برادری ان سے رابطے کے لئے مجھے فون کرتی یا ملک بھرمیں ہونے والے سیمینارزوتقریبات میں انھیں بلانے کے لئے مجھ سے بھی رابطہ کیاجاتاتاہم میراڈاکٹرصاحب سے بے تکلفی کے باوجودایسارشتہ نہیں تھاکہ کوئی فیصلے کرتاسوٹال دیتا۔۔اس عرصے میں مجھے اندازہ ہوا کہ کسی بڑے آدمی کاآپ پرشفقت کاہاتھ بھی آپ کومعتبرکردیتاہے،ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک بہترین انسان اورانتہائی وضعدارشخصیت تھے،آج پاکستان کا سرمایہ گیا۔۔۔تومیرااعتبار کا حوالہ بھی چلا گیا ہے ۔ڈاکٹرصاحب آپ تو روٹھ چلے اب میں کتاب کامسودہ کس کو دکھاوں،کون دیباچہ لکھے گاپھرکون کہے گاکہ میں گواہی دیتاہوں عمیرعلی انجم کی کتاب مایوس نہیں کرے گی،جانا تو سب نے ہے مگرآپ ایسے گوہرنایاب نے مجھ ایسے ناتواں لوگوں کے لئے بہت مضبوط بنیادہیں۔۔۔ڈاکٹرصاحب آپ کی چائے بہت یادآئے گی۔۔اب اسلام آباد سے آنے والے روز بھی آئیں توفرق نہیں آپ کے آنے پروہ ایک فون کال عمیرمیاں بہن کے ہاں آجاوبرسوں رلائے گی،آپ کی تصویریں اب میرا،اثاثہ ہیں آپکی تحریریں میری نسلوں کوانعام ہیں۔۔آپ کا وقت میری زندگی کی قیمت۔۔۔۔خیرلکھنابہت کچھ چاہتاہوں آنکھیں نم ہیں قلم ساتھ نہیں دے رہاکبھی آپ سے ملاقاتوں پرمبنی واقعات ضرور لکھوں گافقط دل کی تسکین کو۔۔۔ اللہ آپ کوجنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں اورپوری قوم کوآپ کے نقش قدم پرچلتے ہوئے سچ بولنے،وطن کے لئے عملی کام کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔

آپ کا شاعر
عمیرعلی انجم