ھم اس مردہ سوسائٹی میں تبدیل ھو چکے ھیں جہاں زندہ لوگ کی کوئی قدر نہیں بلکہ مردوں کی قدر کرتے ہیں ۔۔

پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبد القدیر خان
——————-
انا اللہ وانا الیہ راجعون
——————
تحریر شہزاد بھٹہ ۔
=====================

مضبوط اور مستحکم پاکستان کے ایٹمی ہیرو ڈاکٹر عبد القدیر خان بہت عرصے بیمار رکھنے کے بعد رضہائے الہی سے وفات پا گئے ھیں ڈاکٹر صاحب حقیقی معنوں میں پاکستان کے ہیرو ھیں جہنوں نے شہید بھٹو کی دعوت پر سب کچھ چھوڑ کر اپنے وطن کے لیے پاکستان تشریف لائے اور لازوال خدمات سر انجام دیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گئی۔
مگر ایک بات قابل افسوس ھے کہ ھم نے اپنے عظیم ہیرو کی قدر نہیں کی۔ آپ جتنا عرصہ بیمار رھے کسی حکومتی شخصیات کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے ڈاکٹر صاحب کے پاس جا کر ان کی تیمارداری تک نہ کی اور نہ ھی ان کی صحت یابی کیلئے دعائیں کیں۔
آج ان کی وفات پر سب لیڈران بڑھ چڑھ کر تعزیتی پیغام جاری کریں گے ھم اس مردہ سوسائٹی میں تبدیل ھو چکے ھیں جہاں زندہ لوگ کی کوئی قدر نہیں بلکہ مردوں کی قدر کرتے ہیں ۔۔
پاکستان کے عظیم ہیرو 1936 میں ہندوستان کے شہر بھوپال میں ایک اردو بولنے والے پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔ عبد القدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان لوٹ آئےـ عبد القدیر خان نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئری کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر “انجینئری ریسرچ لیبارٹریز” کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ایک دوست کو بتایا کہ جب وہ پاکستان کے وزیر خارجہ تھے تب سنہ 1963 میں انھوں نے کابینہ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان کو جوہری اسلحہ کی تیاری کے لیے پروگرام شروع کرنا چاہیے لیکن صدر ایوب خان اور ان کے امریکہ نواز وزیر خزانہ محمد شعیب اور دوسرے وزیروں نے ان کی یہ تجویز یکسر مسترد کر دی اور واضح فیصلہ کیا کہ پاکستان جوہری اسلحہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرے گا۔
1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے فوراً بعد ایران، ترکی، مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر اور شام کا طوفانی دورہ کیا تھا اس دورہ کے دو اہم مقاصد تھے۔
ایک مقصد مسلم ممالک سے تجدید تعلقات تھا اور دوسرا پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے مسلم ملکوں کی مالی اعانت حاصل کرنا تھا۔
دمشق میں اپنے دورے کے اس سلسلہ کے اختتام پر انھوں نے شام کے صدر حافظ الاسد سے کہا تھا کہ ان کا یہ دورہ نشاتہ ثانیہ کے سفر کا آغاز تھا اور پاکستان کی مہارت اور مسلم ممالک کی دولت سے عالم اسلام جوہری قوت حاصل کر سکتا ہے۔
اس دورے کے فوراً بعد انھوں نے سنہ 1973 میں پاکستان کے جوہری اسلحہ کی صلاحیت حاصل کرنے کے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا اور اس سلسلے میں انھوں نے جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کو تبدیل کیا اور اعلیٰ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام کو برطرف کر کے ہالینڈ سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پاکستان بلا لیا۔
پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے انھوں نے فرانسیسی حکومت کو جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی تجدید کے لیے آمادہ کیا۔
بھٹو جوہری پروگرام میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اسے امریکہ نے قطعی پسند نہیں کیا اور اس زمانہ کے امریکی وزیر خارجہ کیسنجر نے تو کھلم کھلا دھمکی دی تھی کہ اگر بھٹو نے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کے منصوبہ پر اصرار کیا تو وہ نہ رہیں گے۔اور آخر امریکی سازشوں کے نتیجے میں شہید بھٹو کی جمہوری حکومت کو ختم کر دیا اور ایک جھوٹے مقدمے میں عدالتی قتل کر دیا گیا ۔بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے نومبر 2000ء میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی۔
مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی
کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
ادارے نے پچیس کلو میٹر تک مارکرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کیلئے متعدد آلات بھی بنائےـ
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا ـ
ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھاـ
ڈاکٹر قدیر خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب کہوٹہ میں ریسرچ لیبارٹری زیر تعمیر تھی تو وہ سہالہ میں پائلٹ پروجیکٹ چلارہے تھے اور اس وقت فرانسیسی فرسٹ سیکرٹری فوکو کہوٹہ کے ممنوعہ علاقے میں بغیر اجازت گھس آئے تھے جس پر ان کی مارکٹائی ہوئی اور پتہ چلا کہ وہ سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے۔ انہوں نے تہران میں اپنے سی آئی اے باس کو لکھا کہ ’ کہوٹہ میں کچھ عجیب و غریب ہورہا ہے۔‘
ڈاکٹر خان کو صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا اور جب جمالی حکومت آئی تو بھی وہ اپنے نام کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر کا عہدہ لکھتے ہیں لیکن 19 دسمبر 2004ء کو سینیٹ میں ڈاکٹر اسماعیل بلیدی کے سوال پر کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر نے جو تحریری جواب پیش کیا ہے اس میں وزیراعظم کے مشیروں کی فہرست میں ڈاکٹر قدیر خان کا نام شامل نہیں تھاـ

ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ دونوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور اب تو ڈاکٹر قدیر خان نانا بن گئے ہیں۔

ڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں ـ انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔

چودہ اگست 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انکو عطا کیا گیا تھا۔
اج پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی کا شکار عظیم انسان گلے شکوئے کرتے ھوئے اپنے رب کے پاس چلا گیا ھم نے پاکستان کے حقیقی ہیروز میں ایک کو عدالتی قتل کے ذریعے پھانسی چڑھ دیا اور دوسرے کو اپنی روایتی بے حسی کی بھینٹ چڑھایا ۔۔اخر ھماری آنکھوں اور ضمیر کب بیدار ھوگا اللہ ھم سب پر رحم اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کو جنت میں اعلی ترین مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین