پی ٹی آئی ہو یا جی ڈی اے وہ بھلے گورنر ہاؤس میں یا وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقاتیں کریں، اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ دونوں جماعتوں کے متعدد ارکان کی لائینیں پیپلز پارٹی کے دروازے کے باہر لگی ہوئی ہیں

کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کے سی آر منصوبہ جس کا آج سنگ بنیاد وزیر اعظم نے رکھا ہے دراصل یہ منصوبہ 2004 کا ہے اور اس پر مکمل اسٹیڈی جاپانی کمپنی جائیکا نے 2006 میں مکمل کی لیکن کسی نہ کسی وجہ سے یہ منصوبہ 2016  تک تاخیر کا شکار رہا، بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 29 جولائی 2016 میں دوبارہ اس وقت کے وزیر اعظم کو خط لکھا اور اس کے بعد اس منصبوبہ کو سی پیک میں لانے کے لئے بھی وزیر اعلیٰ سندھ نے نہ صرف وفاق کو بلکہ چائنا میں ہونے والے اجلاسوں میں اٹھایا تھا۔اللہ کرے جلد بازی میں بغیر کسی اسٹیڈی کے آج جو افتتاح کیا گیا ہے یہ منصوبہ مکمل ہوسکے۔ موجودہ نالائق، نااہل اور سلیکٹیڈ حکومت نے  3 سال کے دوران جو بھی وعدے کئے اس میں ایک بھی پورا نہیں کیا ہے۔ جی ڈی اے ہوں یا پی ٹی آئی ان کے متعدد ارکان کی لائنیں پیپلز پارٹی کے دروازے کے باہر لگی ہوئی ہیں۔ سانحہ مہران ٹاؤ ن میں ادارے کی جو ذمہ داری تھی اس میں کوتاہی کے مرتکب افسران کے خلاف کارروائی کرکے کئی ایک کو معطل اور کئی ایک کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز سندھ اسمبلی باہر میڈیا کارنر پر میڈیا ٹاک کے دوران کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر کچی آبادی لیاقت آسکانی، رکن سندھ اسمبلی نوید انتھونی بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ صوبائی وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ 2004میں جب اس منصوبہ کا آغاز کرکے اس کی اسٹیڈی کا کام جائیکا نامی کمپنی کو سونپا گیا تو اس کی لاگت 2.6 ارب ڈالر لگائی گئی تھی، جس میں 60  فیصد حصہ وفاق اور 40 فیصد ادائیگی صوبے نے کرنا تھی۔ انہوں نے کہا کہ 2016 میں جب اس کی منظوری ایکنیک نے دی تو اس کی سوونیٹری گارنٹی وفاق کو دینا تھی لیکن اس میں تاخیر کی گئی، جس پر اس وقت کے وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ سندھ نے خط لکھا کہ وفاق اس منصوبہ کی سووینٹری گارنٹی کا بندوبست کرے، اربن ٹرانسپورٹ کمپنی سندھ حکومت کے حوالے کی جائے اور رائٹ آف وے انہی شرائط پر صوبے کو دئیے جائیں، جس شرائط پر وفاق نے اورنج ٹرین منصوبہ میں دی ہے، جس پر اس وقت کے وزیر اعظم نے اصولی طور پر اتفاق کیا اور رائٹ آف وے کے حوالے سے ریلوے سے مٹینگ کرکے اس معاملہ کو حل کرنے کا کہا۔ سعید غنی نے کہا کہ جب وفاق اور ایکنک سے باقاعدہ منظوری کے بعد اس منصوبہ کو شروع ہونا تھا تو وفاق نے اس منصوبہ کو جس کے تمام مکمل ہونے کا اعتراف چائنا میں ہونے والے سی پیک کے حوالے سے اجلاس میں ہوا تھا شروع نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایم ایل ون کو ترجیع دی۔ سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت نے جس طرح کے سی آر منصوبہ کو فالو کیا اور اس کو 2017 میں شروع کروانا تھا لیکن افسوس کہ سابقہ وفاقی حکومت کے دوسال اور موجودہ حکومت کے 3 سالہ دور میں اس منصوبہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور جب 2019 میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار نے نوٹس لیا اور کیس چلایا  اور حکم دیا کہ 1964 میں کے سی آر کراچی میں جس طرز پر چل رہی تھی اسی طرز پر بحال کی جائے، جس کے بعد سندھ حکومت نے اس حوالے سے عدالت کا مشکلات سے آگاہ کیا کہ جو آبادی اور تریفک 1964 میں کراچی میں تھا اب اس کی صورتحال یکسر علیحدہ ہے لیکن عدالت عالیہ کا حکم تھا، جس پر سندھ حکومت نے اس کی بحالی کے لئے بجٹ میں 6 ارب روپے پرانی سرکولر ریلوے کو بحال کرنے کے لئے مختص کئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج جو سنگ بنیاد رکھا گیا ہے وہ پرانی لوکل ٹرین کے روٹ کے راستے میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز بننے اور دیگر کا ہے تاہم ابھی ہمیں ماڈرن کے سی آر کا اس میں کچھ نظر نہیں آرہا۔ سعید غنی نے کہا کہ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ جس منصوبہ کا تخمینہ 250 ارب روپے تھا وہ وفاق کے 15 اور سندھ کے 6 ارب کے مختص بجٹ میں کیسے مکمل ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گو کہ یہ سنگ بنیاد جلد بازی میں رکھا گیا ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ سندھ صوبہ اس میں ان کی مدد کرے تو صوبہ سندھ اس میں اپنی ضرور مدد کرے گا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کے فور منصوبہ ہو یا دیگر وفاق اور صوبوں کے مشترکہ منصوبے یا وفاق کے کراچی کے لئے اعلان کردہ منصوبے ہوں اس پر وعدے ضرور کئے گئے ہیں لیکن مجھے کم از کم یہ مکمل ہوتے نظر نہیں آتے۔ ایک اور سوال پر سعید غنی نے کہا کہ پی ٹی آئی ہو یا جی ڈی اے وہ بھلے گورنر ہاؤس میں یا وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقاتیں کریں، اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ دونوں جماعتوں کے متعدد ارکان کی لائینیں پیپلز پارٹی کے دروازے کے باہر لگی ہوئی ہیں۔