گڈ بائے۔ طلعت اقبال

کئی دہائیاں گزرگئیں جب وہ گلشن اقبال میں واقع گیلانی ریلوے اسٹیشن کے بالمقابل ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ان کی زندگی کسی سبک رفتار اور پر سکون پانی کی سطح پر بہنے والی ناؤ کی طرح خراماں خراماں چلی جارہی تھی وہ ایک مثالی گھرانہ تھا۔ محبت کا گہوارہ اور خوشیوں کا مسکن۔ طلعت اقبال سے تعلقات کی ڈور کئی حوالوں سے محبت اور ارادت کے رشتوں میں بند چکی تھی۔ کبھی کبھی ان کے گھر جانا ہوتا۔ تو سچ پوچھیں تو ان کے دستر خوان کی مہک اور مہمان نوازی کی گرمائش مجھے آج تک یا دہے۔ وہ ہیرو تھے۔ لیکن سادگی پسند تھے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی شخصیت میں مقنا طیسی کشش تھی یہ وہ وقت تھا جب ان کی زندگی میں شہرت تمتماہٹ کے ساتھ اس طرح دمک رہی تھی۔ بے شمار باتیں اور یادیں ہیں لیکن ایسے زندہ دل اور قہقہے لگانے والے انسان کو مرحوم کہتے ہوئے دل نہیں چاہ رہا۔ ذہن تسلیم کرنے کو تیار نہیں پھر طلعت بھائی ان ہزاروں لاکھوں سموطنوں کی طرح اپنے وطن سے کوسوں دور سات سمندر پار کر کے اور اپنے اپنے گھروں کو خیر باد کہہ کر خوشیوں کے جگنو اکٹھے کرنے چلے آئے تھے۔ امریکہ کی چمکتی دمکتی اور ہزاروں اٹکھیلیاں کر کے اپنی طرف رجھائی زندگی نے انہیں بھی اپنے دامن میں پھنسا لیا۔ یہاں کی گہما گہمی اور لامتناہی سماجی اور معاشی سر گرمیوں اور خوب سے خوب ترکی تلاش میں مسلسل سرگرداں رہنے والے اور لوگوں کی طرح طلعت اقبال بھی یہاں آکر کہیں کھو گئے۔ چند بار پاکستان آئے۔ چند سال قبل جب ان سے ملاقات ہوئی تھے تو میں نے دریافت کیا کہ آپ کے لئے تو یہ زمین بڑی آسودہ اور زر خیز تھی۔ وہاں آپ کو دل نہیں گھبراتا۔ یہاں اتنا بڑا حلقہ احباب ہر کوئی آپ کو دوست، شہرت، عزت سب کچھ تو تھی۔ آپ اس ریلے میں کیوں بہہ گئے، یہ درست ہے کہ جانے والے ہزاروں لاکھوں لوگ گزشتہ 25سال میں بڑی تعداد میں امریکہ اور کینیڈا شفٹ ہو گئے۔ شاید بہتر مستقبل کی امید پر۔ ترقی یافتہ ممالک کی چمک دمک سے مرعوب ہو کر وہاں پہنچ کر جو عارضی خوشیوں اور آرام و آسائش کی کمزور بنیادوں پر ایک محل تعمیر کرنے کی فکر میں غلطاں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارے جو سینکڑوں دوست اور احباب ان ممالک میں چلے گئے ہیں کچھ غیر مطمئن ہیں اور کچھ سمجھتے ہیں وہ بڑے سکھ اور چین سے سانس لے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تہذیب زندہ ہے اور ہمارے گھر اور ہمارے بچے مغرب کے موذی اثرات سے محفوظ ہیں لیکن وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گھر لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔ اور ان لکڑی کے گھروں میں بے شمار دراڑیں ہوتی ہیں۔ جن کے ذریعے چپکے چپکے سے وہ زہریلے اثرات اندر رینگ آتے ہیں وہی اثرات ہماری اقدار اور تہذیب و تمدن کوگھن کی طرح چاٹ کررکھ دیتے ہیں اور ہم پر اور ہمارے کنبوں پر آہستہ آہستہ چڑھائی کر دیتے ہیں ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی یہ سب کیسے ہوا۔ ہم جاگتے ہیں تو پانی سر سے بہت اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔
وہاں ہماری زندگی بھی ہائی وے کی مانند ہوتی ہے۔ جہاں پر ہم زندگی کی شاہراہ پر چلتے رہتے ہیں اپنی دھن میں مگن مصروف رہتے ہیں۔جہاں ہم اجنبیت کا غلاف اپنے تن پر چڑھائے اپنے اپنے دکھ کی صلیب اپنے کندھوں پر اٹھائے اکیلے اور تنہارہ جاتے ہیں۔
طلعت اقبال ایک زندہ دل انسان تھے 70اور 80کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا شاہکار چہرہ تھے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان سے جو ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ یہ زندگی ہے اور ہم سب اس کے کردار ہیں طلعت اقبال بھی زندگی کے ایک عالیشان کردار تھے۔ انہوں نے زندگی میں بہت سی مشکلات بھی دیکھیں اور زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں پر چل کر اپنے لئے کامیابی کا راستہ بھی بنایا۔ یہ ایک بھر پور زندگی گزارنے والا شائستہ انسان اور وہ شریر آنکھیں کہیں کھو گئیں۔ بیٹی کی بے وقت موت نے ان کے دل میں درد، تڑپ اور اداسی کی ایک لہر پیدا کر دی۔ ان کے گھر میں آنسوؤں کا سیلاب امنڈ آیا۔یہ ان کے لئے بہت بڑا سانحہ تھا زندگی میں ویرانی کے یہ دن ان کے لئے نا قابل برداشت تھے وہ یہ بوجھ برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ طلعت اقبال جیسے زندہ دل دوست اور شاندار فنکا رکے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔
سہیل دانش