مرے عہد کے دو اجلے لوگ

ان دنوں اتنی تعزیتیں لکھی ہیں کہ اپنے ہونے پر شک گزرنے لگا ہے۔پھر بھی بہت سی اجلی روحوں کا تذکرہ رہ جاتا ہے۔ایسی روحیں جنہوںنے اس معاشرے کے گیسو سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔اس وقت میں ایسی دو عظیم المرتبت شخصیتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن سے میرا ایک طویل عرصہ رابطہ رہا۔ ان میں ایک ڈاکٹر صفدر محمود ہیں اور دوسرے عظیم سرور۔مرے لئے دونوں بہت محترم و مکرم تھے۔مگر اس سے زیادہ دونوں ایسے افراد تھے جنہوں نے معاشرے کو بہت سکھایا۔مثال کے طور پر ‘ہو سکتا ہے‘ادھر لاہور کے لوگ عظیم سرور کو کم جانتے ہوں‘مگر وہ کراچی کی تہذیبی زندگی کی جان تھے۔ریڈیو پاکستان نے ایسا براڈ کاسٹر کم ہی پیدا کیا ہو گا۔وہ مگر محض ایک براڈ کاسٹر نہ تھے‘انہوں نے اپنی آواز سے وہ کام لیا جو کم لوگوں کو نصیب ہو گا۔باقی سب کچھ چھوڑیے۔سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن کے ترجمے کی ریکارڈنگ ان کی سحر انگیز آواز میں ہوتی ہے۔انہوں نے اپنی جسمانی معذوری کے باوجود ایسی مثالی اور خوش باش زندگی گزاری کہ دوسروں کے لئے ایک مثال بن گئے۔ دوسرے طرف ڈاکٹر صفدر محمود ہیں جو ایک کامیاب بیورو کریٹ تھے۔مگر انہوں نے تحریری طور پر اتنا اور ایسا کام کیا کہ ان کا شمار پاکستان کے صف اول کے مورخوں میں ہوتا تھا جس کسی نے پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی‘صفدر محمود تحقیق کی سندیں لے کر اس کے بخیے ادھیڑنے میدان میں اتر آئے۔وہ سطحی بات نہ کرتے تھے‘دلیل کے زور پر وارکو بے کار کر دیتے تھے۔ میرا دونوں سے ایک طویل عرصے تک رابطہ رہا۔جب تک ممکن ہوا ان سے کم از کم فون پر رابطہ رہتا ۔دونوں ہی محبت کرنے والی شخصیات تھیں۔صرف مجھ سے نہیں‘پوری انسانیت سے۔ڈاکٹر صاحب سے آج سے نہیں برسوں سے رابطہ تھا۔جب 77ء کی تحریک چلی تو وہ ایک سرکاری افسر کے طور غالباً انٹیلی جنس بیورو میں جائنٹ سیکرٹری تھے۔انہیں ہم جیسے صحافیوں کی ضرورت تھی اور ہمیں ان کی۔اس لئے نہیں کہ کوئی کسی کا مخبر بنے۔بلکہ پل پل کی بدلتی صورت حال میں یہ رابطے مفید تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں ان سے ٹیلیفون پر روزانہ گپ شپ ہوتی۔دو پاکستانیوں کی طرح ہم پاکستان کے حالات پر تبادلہ خیال کرتے اور دوسری ذاتی قسم کی باتیں بھی کرتے۔ان کا مزاج ان دنوں بھی علمی تھا۔میں ان کی شخصیت کی پاکستانیت سے بھی واقف تھا۔وہ ایک نظریاتی اور اصولی آدمی تھے۔دوران ملازمت ہی انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیا تھا۔ان کے مطالعے کا موضوع مطالعہ پاکستان تھا۔ اس دائرے میں پھیلائو آتا رہا۔مگر مرکز ہمیشہ پاکستان رہا۔وہ پاکستان جو ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر بنایا گیا تھا۔وہ ایک زمانے میں پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات بھی رہے۔پھر وفاق میں چلے گئے۔ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے کالم نویسی بھی شروع کر دی تھی۔ملازمت کے درمیان انہوں نے زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔اس لئے وہ بڑے سلیقے سے اپنے وقت کو مثبت کاموں میں صرف کرنا سیکھ گئے تھے۔یار لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ ملتے جلتے کم ہیں اور کہیں آتے جاتے بھی نہیں۔شاید وہ اپنا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے۔ان کا اکثر فون آتا۔اگر میں نے کوئی ایسی بات لکھی ہوتی جو انہیں پسند آتی تو بھی اور اگر کوئی ایسا فقرہ سرزد ہو گیا ہوتا جو ان کی نظر میں قابل غور ہوتا تو تب بھی وہ اس معاملے میں بڑے زیرک اور نکتہ سنج تھے۔مجھے یاد ہے کہ میرے ٹی وی ادارے کے سپرد کوئی پراجیکٹ تھے۔وہ لاہور میں اہل علم کا ایک بورڈ تشکیل دینا چاہتے تھے جس میں اکثر لوگ لاہور میں تھے اور سب میرے لئے بہت عزیز تھے۔مجیب شامی‘عارف نظامی اوریا مقبول جان اور دوسرے۔ان میں ایک نام ڈاکٹر صفدر محمود کا بھی تھا۔سبھی نے کہا کہ وہ ان کاموں میں نہیں پڑتے نہ ایسی نشستوں میں شرکت کرنے پرخوش ہوتے ہیں مگر مری درخواست پر انہوں نے ایک لمحے کی تاخیر نہ کی۔چھوٹتے ہی کہا کہ آپ کا کہا‘کیسے ٹال سکتا ہوں۔ یہ میں ذاتی باتیں لکھنے بیٹھ گیا۔ان کا اس معاشرے پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔وہ یہ کہ جب مبارک علی نے نظریاتی بحث شروع کی تو وہ ایک تیخ برآں کی طرح پاکستان کے نظریاتی محاذ پر ڈٹ کر کھڑے تھے۔انہوں نے اس زمانے میں اٹھنے والے ہر سوال کا ایسا بروقت جواب دیا کہ وہ اب برسوں تاریخ کا حصہ رہے گا۔بہت فعال اور بامقصد زندگی گزار کر وہ سے رخصت ہوئے ہیں۔ میرے دوسرے ممدوح عظیم سرور ریڈیومیں ایک فعال شخصیت تھے۔جب 77ء میں ہم جیسے نظریاتی لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ شاید کوئی انقلاب ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے تو اس وقت مجھے یاد ہے افراد کی تلاش شروع ہوئی جن کی پیشہ وارانہ صلاحیتیں بھی مصمم ہوں اور جو نظریاتی طور پر بھی مستحکم ہوں تو مجھے یاد ہے کہ کراچی ریڈیو پر صرف دو افراد کا نام لیا جاتا تھا۔عظیم سرور صرف ایک اچھے براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر ہی نہ تھے بلکہ ریڈیو یونین کے ایک اہم ترین لیڈر بھی تھے۔غالباً صدر تھے اور ان کی شہرت وزیر اطلاعات کوثر نیازی سے نپٹنے کے حوالے سے ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی۔کھیل کی کمنٹری سے لے کر اہم واقعات پر رواں تبصرے میں بھی انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ غالباً کسی حادثے کی وجہ سے وہ اتنے معذور ہو چکے تھے کہ ان کے لئے سیدھی طرح بیٹھنا ممکن نہ تھا۔خاصی دشواری سے گھٹنے کے بل جھکتے اور پھر بھی مشکل سے بیٹھتے‘اس کے باوجود وہ ایک ہنس مکھ شخص تھے۔ہمیشہ لطیفوں لطیفوں میں بہت کچھ کہہ جاتے۔کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ ان کا عارضہ ان کے لئے خوش و خرم رہنے کے راستے میں حائل ہے۔ریڈیو کے بعد بھی وہ اپنے کام میں لگے رہے اور آواز کا جادو جگاتے رہے۔دوستوں کی محفل میں وہ ایک باغ و بہار شخصیت تھے تو پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے لحاظ سے وہ گویا اپنے فن میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔گپ شپ کی نظریاتی محفلوں میں شریک ہوتے اور سنجیدہ محفلوں کو بھی کشتِ زعفران بنا دیتے۔یہ لوگ دنیا کو زندگی کرنے کا ڈھنگ سکھا جاتے ہیں۔ میں اپنے ان دونوں ممدوحین کے بارے میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں۔قرض ادا پھر بھی نہیں ہو گا۔لگتا ہے‘یہ دنیا خالی ہوتی جا رہی ہے۔اجلی اجلی روحیں کہیں گم ہوتی جا رہی ہیں۔یہی زندگی ہے۔