#قدرت کےعجائبات کا خزانہ

#تیسری_قسط ۔۔۔۔۔۔

4۔۔۔ #نانی بنگلاج کا مندر

#اور بابا چندر گپت پہاڑ

یا ، #Mud_Calvonos
—————————–

نانی ہنگلاج مندر مکران کوسٹل ہائی وے کے دائیں کنارے 15 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔۔کنڈ ملیر جاتے ہوئے دریائے ہنگول کے پل سے لگ بھگ 50 فٹ پہلے ایک راستہ دائیں طرف جاتا ہے۔ جہاں سڑک کے دائیں جانب ہنگلاج ماتا کے مندر کا بورڈآویزاں ہے اور بائیں طرف محمد بن قاسم کے شہید سپاہیوں کی قبور کا بورڈ ہے۔ قریب ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر یہ تاریخی قبریں واقع ہیں۔دائیں جانب کی سڑک ہنگلاج ماتا کے مندر کو جاتی ہے

۔اسے نانی کا مندر بھی کہتے ہیں۔دریائے ہنگول کے ساتھ ساتھ چلتی یہ سڑک ایک جگہ سے دریا کو پار کرتی ہوتی مندر کو جاتی ہے۔یہ مندر پاکستان میں ہندووں کی مقدس ترین جگہ ہے۔اس کی تاریخ ہندو مذہب سے بھی پرانی ہے۔ہندو مت سے پہلے پورے ہندوستان میں دراوڑ قوم بستی تھی۔وہ لوگ دیوی دیوتاوں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے۔پھر آریہ آگئے ان کے بھی اسی طرح دیوی دیوتا ہوتے تھے۔ دونوں قوموں کے سنگم سے ہندو مذہب وجود میں آیا۔ یہ دراوڑوں کا مندر تھا

۔اس کی تاریخ اتنی پرا نی ہے کہ سکندراعظم کے کسی جرنیل نے اس مندر کا ذکر اپنی یادداشتوں میں کیا ہے۔اس نے لکھاکہ اس

جگہ سیکڑوں لوگوں کو پوجا پاٹ کرتے ہوئے پایا، اس نے انہیں کچھ نہ کہا۔اکبر کے دربار کا ایک مشہور درباری ٹوڈر مل بھی یہاں آیا تھا۔ شاہ لطیفؒ نے بھی یہاں کا سفر کیا ہے۔ نامی گرامی لوگ یہاں آنا ایک سعادت سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں۔ جسونت سنگھ نے بھی یہاں

کا دورہ کیا ہے۔اب بھی اپریل کے مہینے میں دنیا بھر سے ہندو یہاں آتے ہیں اور سالانہ پوجا میں شامل ہوتے ہیں۔اس پوجا میں پورے پاکستان سے یاتری آتے ہیں ،اندرون سندھ سے تو قافلے کے قافلے پیدل جھنڈے لئے ہوئے گرمی میں ننگے پائوں بھی آتے ہیں۔ایک پہاڑی ندی کے اندر چلتے چلتے ایک غار

میں یہ مندر واقع ہے۔یہاں کسی کو شکار کی اجازت نہیں اس لئے اس مندر میں ہرن آئی بیک اور چکارے صبح وشام عام گھومتے پھرتے ہیں۔راستے میں دریائے ہنگول میں کبھی کبھی مگرمچھوں کا نظارہ بھی ہوجاتا ہے جو دھوپ تاپنے کے لئے پانی سے نکل کر ریت میں لیٹے ہوتے ہیں۔…..


5 ۔۔۔## چندر گپ مٹی کا فشاں ۔۔۔۔۔
پاکستان میں اپنی نوعیت کے مٹی فشاں یا mud valcanoe بلوچستان میں ساحل سمندر کے پاس پاس پائے جاتےہیں۔یہ ایسے پہاڑ ہیں جو ٹھنڈے لاوے سے وجود میں آئے ہیں۔ان کی کثیر تعداد اب بھی زندہ ہے۔ان میں سے سال بھر ٹھنڈا لاوا جو مٹی ملا پانی جیسا ہوتا ہے نکلتا رہتا ہےاسی کے ساتھ میتھین گیس بھی نکلتی ہے جو شعلے سے جلتی ہے۔ اس سے نکلنے والی مٹی جمع ہوتے ہوتے صدیوں کے عمل سے پہاڑوں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ان میں سے ایک سپٹ کے علاقے میں ہے ۔دریائے ہنگول سے پہلے بائیں طرف ایک سڑک نکلتی ہے جو سپٹ نامی گوٹھ میں جاتی ہے اس کے کنارے یہ بہت بڑا مٹی کا فشاں موجود ہے جو لاوا کے پہاڑ کی طرح نظر آتا ہے۔ یہ ہندووں کی متبرک جگہ ہے۔اس کا نام انہوں نے چندر گپ رکھا ہے۔شائد اس لئے کہ یہ پورے چاند میں بہت زیادہ فعال ہوتا ہے۔ ہندو اس میں ناریل پھینک کر دان کرتے ہیں جنہیں مقامی بچے نکال لیتے ہیں۔ان ناریلوں اور پرساد کے کی خوشبو پر رات کو یہاں لومڑیاں گیدڑ وغیرہ چکر لگاتے ہیں۔ پچاس فٹ قطر پر مشتمل یہ تین سو میٹر بلند ہے۔ زائرین کی سہولت کے لئے اب اس پر سیڑھیاں تعمیر کر دی گئی ہیں ۔پہلے اس پر رسے کی مدد سے چڑھا جاتا تھا۔اس کے نزدیک دو اور فعال مٹی فشاں ہیں۔ان مٹی فشاں کو ٹریکرز ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ان کے راستے تلاش کرتے ہیں ان کو نام اور نمبر دیتے ہیں۔ان پر چڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بہت ہی مہم جو قسم کے لوگ یہاں جاتے ہیں۔80 سے زیادہ کو سر کیا جاچکا ہے۔اور بہت سے ابھی باقی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔