ملکی سلامتی پل صراط پر اور نورا کشتی ! ………….

قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
————————–

انتخابی اصلاحات میں الیکڑونک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ کو شامل کرنے کے معاملہ زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیاگیاہے، حکمران جماعت جیسے طے کرچکی کہ کچھ بھی ہوجائے، 2023 کے الیکشن ای وی ایم کے ذریعے ہی ہوں گے۔ وفاقی وزیرریلوے کا جذباتی بیان ہو یا شعلہ بیان ترجمانوں کے، اس باعث ملک کی خاموش اکثریت تشویش میں مبتلاہوگئیہے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ قابل غور پہلو یہ بھی کہ پارلیمان میں موجود حزب اختلاف اور پارلیمان سے باہر سیاسی و مذہبی جماعتیں ای وی ایم پر صرف لفاظی کررہی ہیں اور عملاََکچھ نہیں کیا جارہا جس سے اپنے تحفظات دور کراسکیں، گو کہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں نے موقف بدلا کہ وہ مشترکہ اجلاس میں قانون سازی ہونے کی صورت میں پہلے اپنے رہنماؤں سے مشاورت کرے گی، حالاں کہ یہ وہی قانون ہے جسے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود حکومت اور اتحادی جماعتوں نے منظور کیا تھا لیکن اب الیکشن کمیشن کے جانب سے غیر متوقع سٹینڈ لینے پر حزب اختلاف کو آکسیجن ملی اور حکومت شدید تنقید کی زد میں آگئی، حالاں کہ ایم کیو ایم پاکستا ن، مسلم لیگ ق اور گرینڈ ڈیمو کرٹیک الائنس نے واضح کردیا تھا کہ 13ستمبر کا مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں،صدر کی حکومت کے تین برس کی مدت مکمل ہونے کے بعد رسمی تقریر کے علاوہ کوئی دوسرا ایجنڈا نہیں، اگر آیا تو مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
حزب اختلاف ای وی ایم اور آئی ووٹنگ پر اپنا جمہوری کردار ادا کررہی ہے یا نہیں، اس پر راقم نے تینوں بڑی جماعتوں سے واقف کار سنجیدہ سینئر رہنماؤں سے غیر رسمی گفتگو کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اپوزیشن جماعتیں نورا کشتی کررہی ہیں اور درپردہ وہ بھی ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کی حامی ہیں لیکن اوورسیز پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینے میں انہیں تحفظات ہیں کہ انہیں شاید کم ووٹ پڑیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں بخوبی آگاہ ہیں کہ ای وی ایم کو چلانے والے کوئی اور نہیں بلکہ وہی لوگ ہوں گے جو ہمیشہ انہیں کسی نہ کسی طرح کامیاب یا ناکام کراتے رہے ہیں، لیکن یہاں اصل جنگ اقتدار کی ہے کہ اگلے پانچ برس تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت کی صورت میں مزید ملنے سے ان کا سیاسی بیانیہ خطرے میں پڑ سکتا ہے، موجودہ حالات میں اب حزب اختلاف کو عمران خان کی جیسی تیسی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ بیشتر اراکین چاہتے ہیں کہ وہ اپنی آئینی مدت بھی پوری کرلیں، لیکن اصل تحفظات یہ ہیں کہ اگر پی ٹی آئی بیساکھیوں کے بغیر دوبارہ آئی تو مخالف سیاسی جماعتوں کا بیانیہ سبوتاژ ہوسکتا ہے، ذرائع کے مطابق کوشش کی جا رہی ہے کہ 2023 کے الیکشن بر وقت ہونے چاہیں، انتخابات میں تاخیر یا نظام کی تبدیلی کی افواہوں کی بازگشتپریشان کن ہے۔
آئی ووٹنگ اور ای وی ایم اتنا بڑا ایشو نہیں، اس پر جو تحفظات اور اعتراضات ہیں، وہ سب ایک اِن کیمرہ میٹنگ کی مار ہیں، اس کے بعد ملکی مفاد میں محمود و ایاز سب ایک صف میں کھڑے ہوجائیں گے، تشویش ناک صور تحال یہ ہے کہ عوام کو معاشی مرگ انبوہ کا سامنا ہے، اس کا مداوا کسی بھی جماعت اور ادارے کے پاس نہیں کہ اس سے کس طرح نمٹا جائے۔افغانستان میں تبدیلی ہوئی صورت حال کے بعد ریاستی اداروں کی مکمل توجہ ملکی سلامتی اور سازشی عناصر پر ہے، بالخصوص بھارتی وزیراعظم کے22 تا 27 ستمبر دورہ ئامریکہ میں صدر جوبائیڈن اور نریندرمودی کے درمیان ملاقات کے بعد،پاکستان بابت کئے جانے والے فیصلے اہمیت کے حامل ہوں گے حالاں کہ امریکی اعلیٰ سطح کے حکام وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقاتیں کررہے ہیں، اہم ممالک کے سفارتی وفود بھی پاکستان کے دورے پر ہیں، اہم ممالک کے قیادت سے ٹیلی فونک رابطے بھی ہوئیلیکن امریکی صدر کی مکمل خاموشی کو بھارتی میڈیا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت کرانے پر تلا ہواہے ان حالات کا ادارک تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی ہے کہ امریکہ اس وقت تو خاموش ہے لیکن اپنی ہزہمیت کا بدلہ پاکستان سے لینے کی ضرور کوشش کرے گا اور بھارت کو استعمال کرسکتا ہے۔
متعصب بھارتی میڈیا جس طرح پاکستانی ریاستی اداروں اور افغان عبوری حکومت کے خلاف یک آواز ہوکر منفی اور جھوٹا پراپیگنڈا کرکے عالمی برداری کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس کے نتائج سے پاکستان اتنا ضرور متاثر ہوا ہے کہ ایک نئے بلاک کا حصہ بن گیا جو امریکہ کی منشا کے مطابق نہیں، ان حالات کا فائدہ اٹھا کر بعض سیاسی جماعتیں اپنے لئے ریلیف حاصل کرنا چاہتی ہیں تاکہ 2023 میں ہی سہی، لیکن انہیں اقتدار میں حصہ ملے۔چین، ایران، روس، قازقستان، تاجکستان، ترکمستان اور ازبکستان کے انٹیلی جنس چیف کی پاکستانی حساس ادارے آئی ایس آئی کے چیف کی میزبانی میں اجلاس پر عالمی برداری نے گہری دلچسپی سے مشاہدہ کیا۔ اس کے آفٹر شاک جھٹکے بھارت میں بری طرح محسوس کئے گئے، نائن الیون کے موقع پر جس طرح بھارتی میڈیا نے دشنام طرازی اور الزام تراشیوں کے ساتھ بدکلامی کے ریکارڈ توڑے، اس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی، صحافتی اقدار کو جس طرح پامال کیا گیا اور بھارتی میڈیا نے پنج شیر کی جھڑپ میں پاکستانی فوج کے خلاف جس قسم کابے بنیاد رپورٹنگ کی اس پر حیرت ہے کہ جھوٹ کا پردہ فاش ہونے کے باوجود میں نہ مانوں کی ضد لئے، کس طرح اخلاقیات کو پامال کرکے چانکیہ سیاست اور آر ایس ایس کے نازی نظریئے کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔
ای وی ایم اور آئی ووٹنگ اتنا بڑا مسئلہ نہیں، جتنا رائی کا پہاڑ بنا یا جا رہا ہے، الیکشن کمیشن کا اس وقت جو کردار ہے، اس پر حکمران جماعت نے حسب روایت عدم برداشت کی پالیسی کو اپنا کرانتخابات کو پہلے ہی سے متنازع بنا دیا، مملکت کو درپیش چینلجز کا مقابلہ حزب اقتدار، اختلاف اور عوام کو ایک صفحے پر کرنے کی ضرورت زیادہ ہے، در حقیقت یہ پاکستا ن کی تاریخ کا سب سے نازک موڑ ہے، ملکی سلامتی پل صراط پر ہے اور بعض سیاسی جماعتیں فروعی مفادات کے لئے اُس کھیل کا حصہ بنتی جا رہی ہیں جس کے خطرناک نتائج یکساں سب کو بھگتنا ہوں گے۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ملک میں ہر الیکشن میں جس قسم کی دھاندلی ہوتی رہی ہے،اس کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ چاہے ای وی ایم ہو یا نہ ہو۔