قدرت کے عجائبات کا خزانہ ۔۔۔۔۔ بلوچستان

#قدرت کےعجائبات کا خزانہ_بلوچستان

“پہلا حصہ”
————————–

تحریر : ڈاکٹر فرح ناز راجہ
—————————–

قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کی لازوال خوبصورتی اور قدرتی مناظر ، فطرت سے پیار کرنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے ایسا ہی کچھ چند روز قبل میرے ساتھ ہوا جب میں اپنے خاندان کے ساتھ وہاں معمول کی زندگی کے روز و شب کو باے باے کرتے ہوے مظاہر فطرت کو دیکھنے کیلئے وہاں گئی ، اس سے قبل میں نے بلوچستان کے بارے میں جو پڑھا اور سنا تھا جب اس کو نگاہوں کو دیکھا تو یکسر مختلف پایا ۔۔۔۔۔۔

معلومات تک آسان رسائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں جدت کی وجہ سے دنیا اب ایک گلوبل ویلج ( بین الاقوامی گائوں ) بن چکی ہے ، معمول کی گھٹن زدہ زندگی سے بیزار ہونے کی وجہ سے بنی نوع انسان کو جونہی موقع ملتا ہے تو وہ کچھ نیا دریافت کرنے کیلئے اسے آوارگی کہہ لیں یا سیر کو لازمی نکلتا ہے اسی وجہ سے دنیا کے متعدد ممالک اب سیاحت جو باقاعدہ ایک انڈسٹری بن چکی ہے اس سے اربوں ڈالر کما رہے ہیں ،


مجھے اپنے چند روزہ دورے کے دوران وہاں عجائبات قدرت میں ہنگول نیشنل پارک, نانی ماتا کا مندر, کنڈ ملیر کی بیچ , پرنسز آف ھوپ,اورماڑا میں نیوی کے کیمپ سے غروب آفتاب کا منظر، رات گئے سمندر میں لائف بوٹ میں مچھلی کا شکار آپ کو فطرت کے بہت قریب لے گیا…!!

پچھلے سال بھی میں وہاں جانا چاہتی تھی مگر اپنے صحت کے مسائل کی وجہ سے نہیں جا سکی تھی ، میرا بیٹا جو چٹھیاں گزارنے کینیڈا سے پاکستان آیا ہوا تھا اس کو میں نے اسے وہاں بھیجا واپسی پر وہ بہت خوش اور پرجوش تھا۔ میرا لخت جگر جو تصاویر وہ وہاں سے بنا کر لایا تھا. فطری طور پر قدرت سے لگائو کی وجہ سے تمام عجائبات نے مجھے ایسا جھکڑا کہ میں نے ان تمام جگہوں کو دیکھنے کی ٹھان لی ۔
رواں سال اپنے اس ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی مگر وقت کی کمی کی وجہ سے کچھ. جگہیں اب بھی رہ گئیں ہیں اگر زندگی باقی رہی تو ان کو بھی ضرور دیکھوں گی ۔
میں ہمیشہ جب بھی دنیا میں کسی بھی جگہ جاتی ہوں تو بہت سیر حاصل معلومات لے کر لوٹتی ہوں اور اپنی ان معلومات کو اپنے دوستوں اور احباب تک لازمی پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔بلکہ یوں کہوں کہ اکثر دوست احباب تو سفر سے واپسی پر میری بنائی گئ تصاویر اور سفر کی روداد کا بہت بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔
بہر حال 3 سال کے بعد یہ ایک مختصر سیرو تفریح ممکن ہوئی تو اس سفر کا حاصل سفر آپ کی نذر کر رہی ہوں ۔
امید ہے کہ یہ آپ کو اچھا لگے گا ،


ویسے تو میں پاکستان کے تقریبا میں سارے ہی علاقوں کا سفر کر چکی ہوں جن میں شمالی علاقہ جات سمیت کے ، اسلام آباد ، لاہور ، سرگودہا، ٹیکسلا ، سیالکوٹ ، گجرات کھاریاں لالہ موسی ، مری اورپتریاٹہ وغیرہ شامل ہیں
7سے 8 سال پہلے رقبے کے لحاظ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ جانے کا کئی بار اتفاق ہوا، مگر اس قدر تفصیل کے ساتھ بلوچستان کو دیکھ نہیں پائی ۔
اکثر دوست احباب نے پوچھا کہ مکران کوسٹل ہائی وے یعنی گوادر روڈ بلوچستان پر کیا دیکھنے والاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟
جس کا میں اس رو داد میں احاطہ کرنے جا رہی ہوں ،
ہمارا یہ تفریحی دورہ 3 روز پر مشتمل تھا ۔ میں آپ کی رہنمائی کیلئے معلومات کو ایک
ایک کرکے بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔

1۔۔۔۔۔ #مکران کوسٹل ہائی_وے ….

کراچی سے جاتے ہوئے پہلے آر سی ڈی ہائی وے سے ساحل بلوچستان کے ساتھ ساتھ چلنے والی سڑک جو ایران کے ساحل تک جاتی ہے
مکران کوسٹل ہائی وے کہلاتی ہے۔۔۔
اسے لوگ گوادر ہائی وے بھی کہتے ہیں۔۔
یہ سڑک عجائبات سے بھری ہوئی ہے۔۔۔۔۔


آرسی ڈی ہائی وے پرکراچی سے ایک سو دس کلو میٹرفاصلے پر ایک مقام زیرو پوائینٹ آتا۔جہاںایک خوبصورت مجسمے کا اونچا ساایک مانومنٹ بنا ہوا ہے ۔
اس کا اصل قدرتی مجسمہ آگے. جاکر پہاڑوں میں آتا ہے۔۔
سنا تھا کہ یہ ہائی وے اپنے اندر اپنے ہی موسم رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔
اس میں ہوائیں چلیں گی تو ایسا لگےگا کہ گاڑی اڑ جائے گی۔۔۔۔۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ۔۔۔قدرت کس قدر شاندار ہے واللہ ،،،ایسے گرد باد آتے ہیں کہ مٹی سے حد نگاہ ہی چند فٹ رہ جاتی ہےجگہ جگہ سڑک پر ریت آکر راستہ بند کر دیتی ہے۔





اس کے شروع میں انتباہی بورڈزپر لکھا ہوا ہے کہ یہاں ریت کے طوفان آتے ہیں ان میں احتیاط کیجئے،اپنا پانی اور پٹرول ساتھ لے کر چلئے پڑھ پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔۔ ایسا نہیں ہے کہ اس پر پٹرول دستیاب نہیں۔ جگہ جگہ ایرانی پٹرول کی دکانیں ہیں جہاں ایرا نی پٹرول اور ڈیزل دستیاب ہے۔۔
کہیں کہیں پمپ بھی ہیں لیکن زیادہ تر ایرانی پٹرول کے ہی ہیں۔
اس سڑک کی کل لمبائی 655 کلو میٹر ہے۔
یہ سڑک ایک تو خود عجائبات قدرت میں سے ایک ہے۔۔
اس کی اونچائی اور پھر سانپ کی طرح بل کر نیچے آنا ہی اس کو عجائبات میں شمار کرتے ہیں۔اس کی اونچائی کسی طرح بھی شمالی علاقوں کی اونچائیوں سے کم نہیں ۔
اس کے علاوہ اس میں اور بھی عجائبات ہیں۔

2… #ہنگول نیشنل پارک ۔۔۔۔


ہنگول نیشنل پارک بلوچستان میں واقع ایک حسین ترین سیاحتی مقام ہے اور کائنات کے عجائبات میں سے ایک بہت قیمتی عجوبہ یا یونہی کہہ لیجیے خزانہ ہے یہ نیشنل پارک تقریباً 1650 کلومیٹر کے طویل رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور وطن عزیز کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے
جنگلی حیات کے لیے یہ پارک کسی جنت سے کم نہیں ہے مارخور جو ہمارا قومی جانور بھی ہے ہنگول نیشنل پارک میں کثیر تعداد میں پایا جاتا ہے۔۔
رینگنے والے جانوروں کے لیے بھی یہ مقام ایک بہترین قدرتی ماحول فراہم کررہا ہے۔ بارہ سنگھے بھی یہاں کثیر تعداد میں موجود ہیں –
اس پارک کے جنگلی حیات میں پہاڑی بکرا، اڑیال، چنکارہ،جنگلی بلی، بِجّو، لمبے کان والا خارپُشت، لومڑی، گیڈر، بھیڑیا اور نیولا وغیرہ شامل ہیں۔ پرندوں میں تیتر، باز، چیل، مرغابی، سنہری شِکرا، کرگس، ترن، چہا، شاہین وغیرہ موجود ہیں ،
رینگے والے جانوروں میں دلدلی مگرمچھ، لمبی چھپکلی، موٹی زبان والی چھپکلی، وائپر اور کوبرا ناگ وغیرہ سمیت کئی اور سمندری حیوانات جیسے کچھوا اور انواع و اقسام کی مچھلیاں شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
نباتات میں تمریکس، پروسوپیز، زیزیپس اور کیکر موجود ہیں۔ یہاں چند نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جن کی طبی حوالے سے بڑی اہمیت ہے..
مقامی لوگ ان کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج دیسی طریقوں سے کرتے ہیں۔

#قدرت کے عجائبات کا خزانہ ۔۔۔۔۔
بلوچستان دوسرا حصہ ،
————————–


#ہندوؤں کی مقدس عبادت گاہیں #اور بابا چنددر گپت_پہاڑ ۔۔
——————————-

(نانی مندر )
—————-

نانی مندر بھی ہنگول نیشنل پارک میں ہی ہے۔ پہاڑ کے دامن میں ایک تنگ غار میں واقع ہنگلاج ماتا “نانی مندر یا نانی پیر” واقع ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قدیم مندر مقامی لوگوں اور پجاریوں کے کہنے کے مطابق 32 سو سال پرانا ہے۔


پارک کے سفر کے دوران ایک دلفریب مجسمہ بھی دکھائی دیتا ہے جسے “پرنسس آف ہوپ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ہنگول نیشنل پارک کی مکمل سیر حسین اور دلفریب نظاروں سے بھرپور ہے۔
آپ یہاں رک کر ان خوبصورت نظاروں سے لطف ہوسکتے ہیں جو آپ کی طبعیت کو ایک عجیب سکون فراہم کرتے ہیں- کنڈ ملیر سے سے پہلے ہنگول نیشنل پارک کے بلند و بالا پہاڑ دکھائی دینے لگتے ہیں۔۔۔۔۔

پارک کے پہاڑوں کے درمیان موجود پرکشش درخت وہاں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے درمیان موجود حسین جھیل اور یہ ہرے بھرے درخت ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ اسی مقام پر دکھائی دینے والے جانور بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں ۔
ہنگول نیشنل پارک کے پہاڑوں کے درمیان مارخور٬ بارہ سنگھے٬ چیتے اور اونٹ باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ یہ یہاں موجود جھیل سے ہی پانی پیتے ہیں۔
ہنگول نیشنل پارک وہ واحد پارک ہے جہاں گیس اور مٹی خارج کرنے والے دلدلی آتش فشاں بھی پائے جاتے ہیں اور اس آتش فشاں کو دیکھے بغیر آپ کی سیر مکمل نہیں ہوتی

3….#پرنسزآف ہوپ ،

کراچی سے گوادر جاتے ہوئے مکران کے ساحل کے قریب کوسٹل ہائی وے کے ساتھ ساتھ ہنگول نیشنل پارک میں پہاڑیوں کا ایک خوبصورت سلسلہ ہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں قدرتی طور پر تراشا ہوا ایک مجسمہ ہے۔ اس مجسمے کو ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ انجیلینا جولی نے ” امید کی شہزای” Princess of hope کا نام دیا۔
کوسٹل ہائی وے پر ایک طرف جہاں میلوں پر پھیلا صحرا، سنگلاخ چٹانیں، پہاڑوں کی اوٹ میں چھپتا ، ظاہر ہوتا سمندر مسافروں کو ایک لمحے کےلئے بھی توجہ کہیں اور نہیں کرنے دیتے وہاں اچانک یوں لگتا ہے کہ پہاڑوں میں سے ایک اجڑا ہوا قدیم شہر نمودار ہو گیا ہے۔ سفید پتھر کی مختلف اشکال اور عمارات میں بہت نمایاں یہی ” امید کی شہزادی” ہے۔.
پرنسس آف ہوپ اس نیشنل پارک کا دل ہے یہ ایک ایسا قدرتی مجسمہ ہے جو ایک لمبی یورپین خاتون جیسا لگتا ہے۔یہ مٹی فشاں پہاڑوں کی مٹی سے ہی بنا ہے۔ یہ ایک عجوبہ لگتا ہے۔ رو داد کے شروع میں زیرو پوائینٹ پر جس مانومنٹ کا ذکر کیا تھا یہ وہی ہے۔اس کو ایک لافانی شہرت حاصل ہو چکی ہے۔ اور یورپی ادا کارہ نے اس کا نام پرنسسز آف ہوپ یعنی امید کی شہزادی رکھ دیا ہے۔جو بھی سیاح کنڈ ملیر تفریح کیلئے آتا ہے وہ اس مجسمے کو دیکھنے ضرور آتا ہے۔یہاں تک آتے آتے اور بھی بہت سے مجسمے نظر آتے ہیں ۔ایک ایسا ہے جیسے ،مصر کا ابوالہول یا سفنکس ہے۔ ایک ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کتا دونوں ہاتھ بلند کئے ہوئے ہے۔ کہیں دھوکہ ہوتا ہے کہ کسی قلعے کی فصیل ہے کہیں کوئی مندر سا معلوم ہوتا ہے۔ یہ سب مٹی فشاں کے پہاڑوں پر صدیوں کے جغرافیائی اور موسمی اثرات کا اثر ہے۔ایسے نادر و نایاب مناظر دنیا میں کہیں بھی اور نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ عجائبات ہمارے حصے میں آئے۔………….

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔