گلگت بلتستان پریس کلب میں کل 110 صحافی رجسٹر ہیں- خواتین صحافیوں کی تعداد صرف دو ہے-معاشرے کی تنگ نظری ایک طرف، اب تو صحافیوں کے مالی حالات دن بہ دن خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں


کرن قاسم کے لیے خاتون ہونے کے ناطے ہاتھ میں ٹرائی پوڈ اور مائیک پکڑ کر صحافت کرنا کسی معرکہ کو سر کرنے سے کم نہ تھا۔

گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے وقت وہ ہر روز سوچتی ہیں کہ صحافت کو خیرباد کہہ دوں لیکن ایسے اچانک کیسے یہ تو اس کا گذشتہ دس سالوں پہ محیط کیریئر ہے جو کہ کئی نشیب و فراز سے گزرا ہے۔

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی کرن قاسم پچھلے دس سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، لیکن اب بڑھتی ہوئی مشکلات کے باعث اب وہ صحافت کو چھوڑنے کے حوالے سے کش مکش میں ہیں۔

کرن قاسم نے جب سے صحافت شروع کی معاشرہ اسے تنقید کا نشانہ بناتا آ رہا ہے۔ شروع کے دنوں میں انہیں گھر والوں کی جانب سے صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے شعبہ صحافت میں قدم کیوں رکھا۔

گلگت بلتسان ایک قدامت پسند معاشرہ ہے جس کی وجہ سے خواتین صحافیوں کو کام کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کرن قاسم بتاتی ہیں، ’پوری ایک دہائی اس شعبہ میں گزار دی لیکن مسائل روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں، معاشرے کی تنگ نظری ایک طرف، اب تو صحافیوں کے مالی حالات دن بہ دن خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں، کیونکہ گھر کے مالی اخراجات کو پورا کرنا بھی ایک زمہ داری ہے۔‘

کرن قاسم چاہتی ہیں کہ وہ شعبہ صحافت کو چھوڑ کر کسی اور شعبے میں کام کریں کیونکہ صحافت میں مزید مشکلات کو برداشت کرنا مشکل تر ہوگیا ہے لیکن ان کا صحافت سے لگاؤ ایسا کرنے سے روکے ہوئے ہے۔

گلگت بلتستان پریس کلب میں کل 110 صحافی رجسٹر ہیں جن میں سے 24 ارکان مستقل جبکہ چھ رکن ایسوسی ایٹس اور 80 کے قریب اعزازی ارکان ہیں۔ 110 ارکان میں خواتین صحافیوں کی تعداد صرف دو ہے جو کہ عملی صحافت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

سینئیر صحافیوں کا کہنا ہے کہ رواں حکومت کے برسر اقدار آنے کے بعد سے میڈیا انڈسٹری مالی مشکلات کا شکار ہے جبکہ صحافیوں کی مالی مشکلات کی ایک وجہ گلگلت میں بڑے چینلوں کے بیورو آفس کا نہ ہونا بھی ہے۔ اسی ضمن میں خواتین صحافیوں کی مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں کیونکہ معاشرے میں انہیں تنگ نظری سے دیکھا جاتا ہے۔

گلگت بلتستان پریس کلب کے صدر خورشید احمد کی نظر میں گلگت بلتستان کے صحافیوں کو انفارمیشن تک رسائی حاصل نہ ہونے سمیت اکثر خواتین کو گھروں سے باہر نکل کر کا کام کرنے کی اجازت نہ ہونا خواتین کو صحافت کے میدان سے دور رکھتی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’صحافیوں کو معقول ماہانہ تنخواہ نہ دینے سمیت، ہیلتھ انشورنس اور جاب پروٹیکشن کا نہ ہونا اہم مسائل ہیں، تو ان حالات میں خواتین صحافیوں کا گھروں سے نکل کر کام کرنا ایک مشکل کام ہے، فیلڈ میں تنخواہیں نہیں ملتی کہ اگر ملتی بھی ہے تو بہت ہی کم۔‘

ایسے حالات میں جامعات سے فارغ التحصیل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے طلبہ عملی صحافت میں قدم نہیں رکھتے۔

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے فیکلٹی ممبر ولیم عباس کے مطابق یورنیورسٹی سے ہر سال 10 کے قریب خواتین پاس آؤٹ ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر اس شعبے سے وابستہ نہیں ہوتیں۔

گلگت میں صحافت کے شعبے میں کم دستیاب وسائل کے باعث اکثر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے طلبہ عملی صحافت میں قدم نہیں رکھتے۔

میڈیا انڈسٹری کی عدم توجہ سے گلگت میں باقاعدہ اتنے نیوز چینلوں کے بیورو نہیں جہاں صحافت میں روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔

میڈیا اینڈ کمونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والی صائمہ اب ایک نجی سکول میں بطور استانی فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ معاشرے کی تنگ نظری اور گھر والوں کی طرف سے عائد کردہ پابندی کے باعث وہ عملی طور پہ شعبہ صحافت کا چناؤ نہیں کر پائیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’صحافت میں آنے والی خواتین کو لوگ اچھا نہیں سمجھتے اور صحافیوں کو معقول تنخواہ بھی نہیں دی جاتی، میں بطور استانی اچھا کماتے ہوئے گھر کے اخراجات پورے کر رہی ہوں جبکہ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ پڑھ لکھ کر گھر والوں کی مالی معاونت کی جائے۔‘

جہاں میڈیا بحران کا شکار ہے وہیں اس دور میں گلگت سمیت ملک بھر میں صحافی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ سے صحافت کا آغاز کرتے دکھائی دے رہے ہیں، تاہم ڈیجیٹل میڈیا سے صحافیوں کے لیے آمدن کا حصول کافی مشکل ہے، کیونکہ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کو اشتہارات کے اجرا کے حوالےسے کوئی پالیسی مرتب نہیں کی جا سکی۔

سحرش کنول قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم ہیں اور ساتھ میں یو ٹیوب چینل بھی چلا رہی ہیں تاہم کہتی ہیں کہ یوٹیوب سے پیسے کمانا آسان کام نہیں۔

سحرش کا کہنا ہے کہ ’فیلڈ میں جاکر کام کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہاں معقول تنخواہ نہیں ملتی اور خواتین کے لیے گلگت میں ٹرانسپورٹ کا بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے فیلڈ میں اکیلے جاتے ہوئے کسی بھی خاتون کو دس بار سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کام کرنے کے لیے جاری تو کسی کو اپنے ساتھ لایا جائے اور کس طرح جائے اور کس طریقے سے کام جاری رکھا جا سکے۔‘

سحرش کی طرح سیما بھی سوشل میڈیا کے ذریعے سے صحافت کر رہی ہیں۔

صحافت کرتے وقت جہاں دیگر خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں سیما کو درپیش مشکلات بھی کچھ ایک سی ہیں۔

سیما کو خبریں دینے کی وجہ سے متعدد مرتبہ دھمکی آمیز فون کالز موصول ہو چکی ہیں، اور انہیں ویب سائٹ سے خبریں ہٹانے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

سیما بتاتی ہیں کہ ’میری لگائی ہوئی خبروں کی وجہ سے کافی مرتبہ میرے والد کو فون کالز آئیں کہ وہ اپنی بیٹی کو سمجھائیں اور ہمارے خلاف خبریں چلانے سے گریز کریں، اور ویب سائٹ سے خبریں ڈیلیٹ کریں۔‘

صرف خواتین ہی نہیں، مرد صحافیوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ گذشتہ تین برسوں میں میڈیا انڈسٹری شدید مالی بحران کا شکار رہی جس کی وجہ سے ایک طرف اکثر صحافیوں کو جبری طور پہ برطرف کیا جبکہ دوسری جانب صحافیوں کی تنخواہوں میں کمی بھی دیکھنے کو ملی۔

بڑے اداروں نے ڈاون سائزنگ کرتے ہوئے صحافیوں کو نوکریوں سے برطرف کیا جس کی وجہ سے نوجوان صحافی صحافت کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔

روزنامہ اوصاف کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ایمان شاہ بتاتے ہیں کہ ’میڈیا فیلڈ بحران کا شکار ہے جس کی وجہ ملازمین کو وقت پہ تنخواہیں فراہم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، اخبارات کو اشتہارات کی ادائیگی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اخبار مالکان سمیت ورکرز کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

خواتین صحافیوں کے لیے کوٹا سسٹم؟

’میڈیا میں خواتین کی کمی کے حوالے کو دور کیا جا سکتا ہے اگر صحافتی ادارے خواتین کے لیے کوٹا سسٹم

مختص کر دیں۔‘

یہ کہنا ہے کرن قاسم کا جنہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ’آج سے دس سال پہلے گلگت میں خواتین کا صحافت کے پیشے سے وابستہ ہونا جہاں غیر معمولی بات تھی، وہیں معاشرے کی جانب سے تنگ نظری کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ دفتر میں بھی مردوں کی جانب سے عجیب رویے اور تنگ نظری سے دیکھا گیا۔‘

کرن قاسم کے گھر والوں تک کو شکایت کی گئی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خاتون مردوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرے، جیسا کہ وہ کوئی جرم کر رہی ہوں۔

لیکن کرن قاسم نے رفتہ رفتہ لوگوں کے رویوں کو بدلتے دیکھا اکثر جو لوگ کرن پہ تنقید کیا کرتے تھے وہ آج اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ان سے رابطہ کرتے ہیں

—————
شیریں کریم
————-
https://www.independenturdu.com/node/77576