بھارت ایٹمی ری ایکٹرز سے تابکاری مواد , غیر محفوظ طریق کار کا مرتکب قرار

قادر خان یوسف زئی
—————–

دنیا کی موجودہ صورت حال پر متنوع ماہرین کا اتفاق ہوا ہے کہ انسانیت کو ایٹمی ہتھیاروں کے بجائے فلاح و بہبود اور مفاد عامہ کے منصوبوں پر توجہ دینا چاہیے تھی لیکن عالمی قوتوں کے تضاد نے دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے حصول و تجرباتی دوڑ نے عالمی امن کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے، خاص طور پر جوہری ٹیسٹوں میں خامیوں کی وجہ سے خطے میں انتہائی مضر اثرات رونما ہوتے ہیں، جیسے عموماََ دنیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور عالمی میڈیا میں اسی خبروں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
بھارت میں ایٹمی ری ایکٹرز سے تابکاری مواد کو غیر محفوظ طریق کار کا مرتکب قرار دیا گیا۔معروف امریکی تنظیم Nuclear Threat Initiative (NTI) نے جنوری 2014میں بھارت میں نیوکلیئر تنصیبات کی سکیورٹی کی صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس نے نیوکلیئر تنصیبات رکھنے والے 25 ممالک کی نیوکلئیر سکیورٹی کے حوالے سے بھارت کو 23 ویں نمبر پر رکھا،جبکہ ہارورڈ کینیڈی سکول نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بھارت کے نیوکلیئرسکیورٹی کے حوالے سے متعدد خدشات کا اظہار کیا۔ بھارت میں بلگام ھبل دھرواد کے علاقے میں یورینیم کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور مبینہ طور پر کئی بار متعددبھارتی سائنسدان ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے پر حراست میں لئے جاچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت دوسرے ممالک سے بھی جوہری ہتھیار، ان کی تیاری میں استعمال ہونے والے حساس پرزے اور ٹیکنالوجی کی چوری میں ملوث ہے۔بھارتی اخبارہندوستان ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت نیپال کی سرحد سے تابکار مادے یورینیم کی بھاری مقدار سمگل کرنے کی کوششکی۔اس واقعہ کو بھارتی حکومت نے چھپانا چاہا مگر اس کے اپنے ہی ذرائع ابلاغ نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ اس انکشاف سے بھارتی حکومت کے ان دعووں کی قلعی بھی کھل جاتی ہے کہ بھارت ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کا ایٹمی پروگرام آغاز سے ہی عدم تحفظ کا شکار رہا۔ بھارت کی ایٹمی تنصیبات سے اب تک متعدد بار جوہری مواد چرایا جا چکا ہے۔ دسمبر 2006 میں ممبئی کے نواح میں قائم ایٹمی ریسرچ سنٹر سے ایک کنٹینر ایٹمی اسلحہ میں استعمال ہونے والے پرزے لے کر روانہ ہوا اور غائب ہو گیا۔ تاحال اس چوری کا پتہ نہیں چلایا جا سکا، ان کے علاوہ 1984 سے لے کر اب تک بھارت میں یورینیم کی چوری کے 152 کیس رجسٹر کرائے جا چکے، جس کی پوری دنیا میں اور کوئی مثال نہیں۔ بھارت میں 18ماہ تک 7سے 8 کلو گرام یورینیم ایک سائنس دان کی تحویل میں رہا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو سکی۔ 16 جون 1998 کو بھارتی ریاست بیہار سے مغربی بنگال میں داخل ہوتے ہوئے کانگریس جماعت سے منسلک اہم وفاقی سیاستدان مشیور سنگھ دیو کو مغربی بنگال کی پولیس نے گاڑی کی تلاشی کے دوران ایک بوری میں بندھے ہوئے مشکوک پیکٹ کی بنا پر گرفتار کر لیا۔ بوری سے ملنے والے مواد کی جانچ کی گئی تو وہ یورینیم نکلا جس کی مقدار 100 کلوگرام بتائی گئی۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے کانگرس جماعت کے رکن سے 100 کلوگرام یورینیم کا برآمد ہونا بہت بڑی خبر تھی۔ جسے تفتیش کیلئے کلکتہ منتقل کر دیا گیا، جہاں اس نے تسلیم کیا کہ وہ بھارت سے باہر یورینیم سمگل کرنے والے اس گروہ کا حصہ ہے، جس کے کچھ اراکین 1994 میں شمال مشرقی ریاست میگھالیہ میں موجود یورینیم کی کان سے یورینیم کی بہت بڑی مقدار سمندر کے راستے مالدیب سمگل کرنے کی کوشش میں پکڑے گئے تھے۔
ایٹمی ذخائر میں ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے جو نقصانات ایٹمی تابکاری کی شکل میں پیش آسکتے ہیں اس کی ہولناکی کا اندازہ بھارت اور روس کے ایٹمی ذخائر میں ہونے والی تابکاری سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس کا ہزاروں معصوم انسان شکار ہوگئے۔ یہ تباہی بھوپال اور چرنوبل میں ہوئی۔ بھارت جیسے ممالک میں بین الاقوامی نیٹ ورک کے ذریعے ایسے ممالک کو جوہری تجربات کے لئے ایٹمی مواد کی منتقلی کا سلسلہ ابھی تک نہیں رک سکا۔جون 2021 میں بھارتییاست جھارکھنڈ کی پولیس نے یورینیم کی فروخت میں ملوث سات افراد کو گرفتار کیا جن کے قبضے سے چھ کلوگرام یورینیم ضبط کی گئی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل گذشتہ ماہ بھارتمیں دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش کرنے والے سب سے اہم ادارے نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ممبئی میں دو افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے سات کلو گرام یورینیم برآمد کی تھی۔ا سی واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ انڈیا کی ریاست مہاراشٹرا میں سات کلوگرام یورینیم کی برآمدگی اور ماضی میں اسی طرح کی دیگر اطلاعات گہری تشویش کا باعث ہیں کیونکہ ان واقعات سے انڈیا میں کنٹرول، ریگولیٹری اور نفاذ کے ناقص طریقہ کار کے ساتھ ساتھ انڈیا میں جوہری مواد کی بلیک مارکیٹ کے ممکنہ وجود کی نشاندہی ہوتی ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1540 اور ایٹمی مواد کے تحفظ سے متعلق انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کنونشن (سی پی پی این ایم) ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ جوہری مواد کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کو یقینی بنائیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اس طرح کے واقعات کی مکمل تحقیقات، ایٹمی مواد کے پھیلاؤ کی روک تھام اور جوہری مواد کی سکیورٹی کو مستحکم کرنے کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور غلط ہاتھوں سے غیر قانونی اقدامات پر اقوام متحدہ کو اپنی قرار دادوں پر عمل درآمد بنانے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ کرونا وبا نے دنیا کی عالمی قوتوں کا چہرہ بھی بے نقاب کردیا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام توجہ فلاح انسانیت کے بجائے قدرت کے وسائل سے انسانوں کو خطرے سے دوچار کرنے والے اقدامات پر دی۔ایٹمی تجربات کے نتیجے میں خراب صورت حال بھارت میں پیش آنے والے ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایٹمی تجربات میں غیر ذمے داری کتنی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق 1986 میں مدراس اٹامک پاور سٹیشن کے ایٹمی ری ایکٹر میں دراڑیں پڑ یں۔2 سال بعد 1988 میں ری ایکٹر سے بھاری پانی کا اخراج شروع ہونے سے پلانٹ میں تابکاری پھیلنے سے بے شمار ملازمین متاثر ہوئے اور مئی 1991 میں ری ایکٹر کے اندر زوردار دھماکہ ہوا۔ ٹنوں کے حساب سے پانی پلانٹ میں ہر طرف پھیل گیا۔ اردگرد موجود سینکڑوں افراد تابکاری کے اثرات کی تاب نہ لاتے ہوئے لقمہ اجل بن گئے نیو دہلی سے 180 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ناروڑااٹامک پاور پلانٹ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی،بھارتی شہر کرناٹک میں ایٹمی ری ایکٹر میں دراڑیں پڑ نے کے نتیجے میں تابکاری پھیلنے سے بے شمار ملازمین متاثر ہوئے، گجرات میں واقعہ کاکڑا پور ایٹمی پاور پلانٹ سے تابکاری کا اخراج ہوا،صوبہ مہاراشٹر میں ساحل سمندر کے قریب تری پور ایٹمی پلانٹ واقع ہے۔ نہ صرف اس کے گرد موجود تین ہزار گاؤں تابکاری سے آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔دنیا کو مہلک و خطرناک ہتھیاروں سے نجات دلانے کے لئے عالمی قوتوں کو پہل کرنا ہوگی، ورنہ تمام کوشش بے سود ہوں گی۔