وہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ دونوں کی قیادت سے مایوس اور ناراض تھے

بلوچ قوم پرست رہنما سردار عطا اللہ مینگل سے میری ملاقات 1992 کے اواخر میں کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر ہوئی جب میں کراچی یونیورسٹی میں فرسٹ ایئر اونرز کا طالب علم تھا اور ہفتہ روزہ تکبیر کیلئے کام کیا کرتا تھا، میری عطا اللہ مینگل سے ملاقات ہفت روزہ تکبیر کے لیے ایک انٹرویو کے سلسلے میں ہوئی، اس انٹرویو میں انہوں نے کھل کر اظہار کیا، سیاست دان ہوں یا فوجی سربراہ وہ بلاخوف و خطر اور مصلحت پسندی کے بغیر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نواب اکبر بگٹی، سردار خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو اور سردار عطا اللہ مینگل کے طرز سیاست کو بھلایا نہیں جاسکے گا، مجھے سردار عطا اللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی، نواب خیر بخش مری تینوں سے نہ صرف ملاقاتوں بلکہ متعدد بار انٹرویوز کا اعزاز حاصل رہا، تینوں شخصیات کے مزاج میں مزاحمت کی سیاست کا عنصر نمایاں تھا۔ سردار عطااللہ مینگل سے جب بھی گفتگو ہوئی انہوں نے بلوچستان کی سیاسی، معاشی بدحالی کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کو قرار دیا۔
26 دسمبر 2011 کو ڈان ٹیلی ویژن کے لیے مجھے دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے فوج، عدلیہ اور سیاستدانوں کو بلوچستان کے استحصال کا ذمے دار قرار دیا، اسی انٹرویو میں انہوں نے نہایت مایوس لہجے میں کہا کہ وہ اب مایوس ہوکر سیاست سے کنارہ کش ہوچکے ہیں، وہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ دونوں کی قیادت سے مایوس اور ناراض تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے ہمیشہ ناانصافی کی گئی جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے سازش کر کے مجھے وزارت اعلی کے عہدے سے برطرف کروایا اسی رویہ مائنڈ سیٹ نے میرے بیٹے اختر مینگل کو وزارت اعلی سے علیحدہ کروایا، بلوچ قوم کے نام پیغام کے سوال پر ایک وقفے کے بعد نہایت پرعزم لہجے میں بولے “میں نوجوانوں سے کہوں گا اگر لڑسکتے ہو تو جی بھر کے لڑو ورنہ اپنی ماوں کو مت رلاو”
اس انٹرویو میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بہت سخت باتیں بھی کیں آخر میں مسکراکر کہنے لگے رفعت صاحب یہ انٹرویو نشر کرسکیں گے اور ساتھ کہا کہ اگر چل گیا تو آپ بھی مشکل میں آسکتے ہیں۔ مسکراکر بولے آپ کی سہولت کے لیے سنسر کا اختیار بھی آپ کو دیتا ہوں، مگر حیران کن طورپر ڈآن ٹیلی ویژن نے پورا انٹرویو نشر کیا۔
سردار مینگل کا بدترین مخالف بھی ان کے کردار، موقف پر ڈٹے رہنے، فہم و فراست، تدبر کا معترف ہے، مگر موجودہ سیاسی دور میں سیاستدانوں میں خصوصیات ناپید ہیں۔
1970 کے عشرے کی سیاست کی نمایاں شخصیات جن میں مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفوراحمد، ذوالفقار علی بھٹو، سردار شیرباز مزاری، نواب اکبر بگٹی، خان عبدالولی خان، نواب خیر بخش مری، چوہدری ظہور الہی، میاں طفیل، سردار عطا اللہ مینگل سمیت کسی سیاسی رہنما پر کرپشن کا الزام نہیں لگا مگر آج ہر سیاسی جماعت کا مرکزی رہنما کسی نہ کسی الزام میں احتساب بیورو کا ملزم ہے۔
اب صرف 70 کے عشرے کے سیاستدانوں میں ملک غلام مصطفی کھر ہی حیات ہیں۔ اللہ انہیں صحت اور زندگی عطا فرمائے۔
——————–
Riffat-Saeed