سائبر کرائم میں ملوث صحافیوں کے خلاف شکایات کا احوال ۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں سائبر کرائم میں ملوث صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائیوں کا بڑا چرچا ہے عام تاثر ہے کہ ان کارروائیوں کے ذریعے آزادی صحافت اور صحافیوں کے آزادانہ کام کرنے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں اور یہ سب کچھ حکومت یا بعض طاقتور حلقوں کے ایما پر ہو رہا ہے ۔ایسے واقعات کے خلاف احتجاج بھی ہوا ہے اور ایسی کاروائیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا چکا ہے ۔
دوسری طرف ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اسلام آباد پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے جن صحافیوں کے خلاف مختلف شکایات پر کارروائی عمل میں لائی گئی وہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اور زیادہ تر معاملات میں خواتین سے متعلق شکایات سامنے آئیں۔ جن کے ناقابل تردید شواہد مذکورہ شخصیات کے موبائل فون کی فرانزک رپورٹ اور ٹیلی فون کال کے ریکارڈ سے ملے۔ ایف آئی اے ذرائع نے جن کیس کا حوالہ دیا بعض صحافی تنظیموں کے اہم عہدے داروں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے ۔


تفصیلات کے مطابق رواں برس اور اس سے پہلے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ،صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کو مختلف اوقات میں جو درخواستیں موصول ہوئیں انکا قواعد کے مطابق جائزہ لینے اور قانونی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے جب کاروائی کی گئی تو شکایات درست ثابت ہوئی یہ شکایات جن صحافیوں کے خلاف موصول ہوئیں ان میں مرد اور خواتین صحافی شامل ہیں باز مرد صحافیوں کے خلاف خواتین صحافی بھی شکایت کرنے والوں میں شامل ہیں ۔صحافیوں کے خلاف غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے والے نے ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کی کوشش کرنے سمیت مختلف الزامات اور شکایات تھیں ۔جب موبائل فون کال ریکارڈ چیک کیا گیا اور فرانزک رپورٹ لی گئی شواہد اکٹھے کیے گئے تو شکایات درست ثابت ہوئی لہذا میڈیا آفس کے ذمہ داران ،اعلی عہدے داران اور بعض صحافی تنظیموں کی سرکردہ شخصیات کو بھی اعتماد میں لیا گیا اور ان کے سامنے شواہد اور فرانزک رپورٹ رکھی گئی جس پر وہ دم بخود رہ گئے کہ کل تک جو صحافی برادری عام لوگوں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کر رہی تھی آج اس کے اپنے لوگ بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو چکے ہیں ایک سینئر صحافی جو بڑی تنظیم کے عہدیدار بھی ہیں انہوں نے جیوے پاکستان کو بتایا کہ یہ افسوسناک شرمناک اور قابل تشویش صورتحال ہے ۔
ایسے واقعات کی تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ وفاقی دارالحکومت کے ایک صحافی نے ایک ٹی وی چینل سے وابستہ خاتون صحافی کو تنگ کیا اور بہت ہی شرمناک اور غیر اخلاقی پیغامات بھیجے ۔خاتون صحافی کی شکایت پر کاروائی کی گئی تو بہت سے حقائق سے پردہ اٹھا ۔پھر صحافی تنظیموں کے عہدیداروں اور میڈیا ہاؤسز کے ذمہ داران کو صورت حال سے آگاہی دی گئی ۔
اسی طرح صوبہ سندھ میں کراچی کے ایک بڑے میڈیا ہاؤس کی خاتون صحافی نے اپنے دفتر کے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک نامور یونیورسٹی کے خلاف الزامات لگائے اور ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کا Logo بھی غیر قانونی طور پر استعمال کیا گیا ۔یہ معاملہ خاتون صحافی کے سسرالی رشتے داروں تک ایف آئی اے کو لے گیا ۔پھر صورتحال سے میڈیا ہاؤس اور صحافی تنظیموں کو آگاہی دی گئی تو میڈیا ہاؤس کے اندر کام کرنے والے چند ملازمین نے اپنا سارا قصور مان لیا اور اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ۔
اسی طرح پنجاب میں ایک صحافی تنظیم کے عہدے دار کے خلاف شکایت آئی تو اس کی تفتیش کے دوران بھی ایک خاتون کو تنگ اور ہراساں کرنے کی تفصیلات سامنے آگئیں ۔اس کا فون ریکارڈ خود بول اٹھا اور اسے اپنے خلاف سامنے آنے والی شکایات کو جھٹلانے کے لیے کچھ نہیں ملا ۔
سندھ میں ایک اور صحافی اور اس کی اہلیہ کیا خلاف شکایت آنے پر کارروائی کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ دونوں مل کر ایک خاتون کو ہراساں کر رہے تھے اس معاملے میں بھی شواہد اور تفصیلات سامنے آئیں تو نا قابل تردید ثبوتوں کی وجہ سے قانون حرکت میں آیا اور صحافی تنظیم کے عہدے داروں کو صورت حال سے آگاہی دی گئی ۔

صحافی تنظیموں کے عہدیداران نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری حکام کی جانب سے انہیں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر شکایات خواتین کی جانب سے سامنے آئیں اور ان شکایات میں زیادہ تر کا تعلق ہراساں کرنے سے متعلق ہے ۔جبکہ صحافیوں کی تنظیموں کی جانب سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ نیا مجوزہ قانون اور ایف آئی اے کا استعمال اور دیگر اداروں کو صحافیوں کے خلاف متحرک کرنا حکمرانوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا ۔
————————-
Salik-Majeed——-whatsapp—-92-300-9253034