ضلعی انتظامیہ کے افسران نے پنجاب میں انتظامی لحاظ سے آخری پوزیشن پر آنے کا سارا غصہ بے یارو مددگار ، غریب سبزی فروٹ ریڑھی بانوں پر نکالنا شروع کر دیا

اٹک (مہتاب مینرخان سے ) روزانہ کی بنیاد پر ایئرکنڈیشن دفاتر میں درجنوں اجلاسوں کی صدارت کرنے والے ضلعی انتظامیہ کے افسران نے پنجاب میں انتظامی لحاظ سے آخری پوزیشن پر آنے کا سارا غصہ بے یارو مددگار ، غریب سبزی فروٹ ریڑھی بانوں پر نکالنا شروع کر دیا قیمت خرید سے کم نرخوں ، انتہائی معمولی منافع رکھ کر زمینی حقائق اور کاروباری طلب و رسد کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے گراف کو اونچا کرنے کیلئے غریب ریڑھی بانوں پر بلا جواز ہزاروں روپے جرمانہ عائد کر کے رزق حلال کمانے والے ان محنت کشوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا اس سلسلہ میں سینکڑوں سبزی فروٹ ریڑھی بان ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور اراکین نے سستا رمضان بازار میں احتجاج اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں 2 ستمبر بروز جمعرات ضلعی انتظامیہ اٹک کی تاجر کش پالیسی کے خلاف اور اپنے حقوق کے سلسلہ میں احتجاجاً ’’ آلو ، پیاز اور ٹماٹر ‘‘ کی خریداری مطالبات تسلیم نہ ہونے تک نہیں کی جائے گی یہ بات صدر سبزی فروٹ ریڑھی بان ایسوسی ایشن شیخ ہارون نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی اس موقع پر سبزی فروٹ ریڑھی بان ایسوسی ایشن کے عہدیداران و اراکین کی کثیر تعداد موجود تھی شیخ ہارون نے کہا کہ وہ گزشتہ 3 روز سے ڈپٹی کمشنر آفس میں ڈپٹی کمشنر اٹک عمران حامد شیخ سے ملاقات میں ناکام رہے ہیں جنہوں نے حکومت کی اوپن ڈور پالیسی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سے دفتر میں ہونے کے باوجود میٹنگ کا بہانہ کر کے ملاقات سے گریز کیا اور یہ اے ڈی سی فنانس مرضیہ سلیم ، قائم مقام اسسٹنٹ کمشنر محمد سلیم راجہ سے ملے تاہم ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اسی دوران راولپنڈی سے لائے جانے والے انگور ’’ سندرخانی کوءٹہ والا ‘‘ پر کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ہونے کے باوجود اے سی آفس کے عملہ نے 2 ریڑھی بانوں کو خریداری کرا کر اے سی آفس طلب کرایا اور ان پر پانچ پانچ ہزار روپے اے سی محمد سلیم راجہ نے کیا انہوں نے ان کی منت سماجت کی اور بتایا کہ قبل ازیں 500 روپے جرمانہ کیا جاتا تھا سارے دن میں محنت مشقت کر کے 500 روپے منافع نہ کمانے والے پر 5000 ہزار روپے جرمانہ ظلم اور زیادتی کی انتہاء ہے اور انہوں نے کوئی بات سننے سے انکار کر دیا اور 5000 روپے جرمانے کی چٹ دو ریڑھی بانوں کو تھما دی انتظامیہ کی جانب سے جو ریٹ دیئے جا رہے ہیں وہ بھی ان غریب ریڑھی بانوں کو رزق حلال سے دور کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں ملک بھر کی بڑی منڈیوں کراچی ، لاہور ، فیصل آباد ، ملتان ، گوجرانوالہ ، روالپنڈی اسلام آباد ، سرگودھا ، پشاور ، کوءٹہ وغیرہ میں 30 فیصد شرح منافع کے حساب سے ریڑھی بانوں کی شرح منافع طے ہے اور اٹک میں سابق ضلع ناظم میجر طاہر صادق کے دور میں میجر طاہر صادق نے ذاتی سفارش کر کے یہ منافع 30 فیصد سے 22 فیصد کرایا تھا جو آکشن شیٹ میں موجود ہے تاہم پنجاب میں انتظامی لحاظ سے اپنی ناقص کارکردگی کے حوالہ سے آخری پوزیشن پر آنے والی ضلعی انتظامیہ نے اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے جو ایئرکنڈیشن دفتر میں بیٹھ کر لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات اور اوپر کی آمدنی سے مستفید ہو رہے ہیں نے ہمارا 22 فیصد منافع کم کر کے 10 فیصد کر دیا ہے جو غریب اور اس کے اہل خانہ کو رزق حلال سے محروم کرنے کی کوشش ہے اور یہ منافع زمینی حقائق کو بالائے طاق رکھ کے کم کیا گیا ہے اس مہنگائی کے دور میں آٹا ، گھی ، چینی ، دکانوں کے کرایے ، ادویات ، پیٹرول ، اشیائے ضروریہ کی تمام چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور یہ ہ میں پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ پنجاب کی دیگر بڑی منڈیوں کی طرح ہ میں بھی 30 فیصد منافع دیا جائے انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹماٹر اور پیاز کابل سے آ رہے ہیں 4 روز بعد بارڈر بند ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس پہنچتے ہیں جو مال ہ میں 4 روز بعد موصول ہوتا ہے ان ڈبوں اور بوریوں سے بعض اوقات آدھے سے زائد آلو ، ٹماٹر اور پیاز گندے یا تو گندے ہوتے ہیں یا ان کے سائز میں کمی کے سبب اس کا ریٹ نصف سے بھی کم ہوتا ہے ان تمام باتوں اور طلب اور رسد کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریٹ جاری کرنے والی کمیٹی جس کے افسر راولپنڈی سے اس کی نگرانی کرتے ہیں وہ بھی اپنے ایئرکنڈیشن دفاتر میں بیٹھ کر من مانے ریٹ بھیج دیتے ہیں اور کبھی مارکیٹ کا چکر لگانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی اور دفتر میں بیٹھ کر ہی منڈیوں کے وزٹ ڈال کر اپنا ٹی اے ڈی اے بنانے کا دھندہ جاری رکھا ہوا ہے پنجاب میں افسران کو چیک کرنے کا کوئی فارمولہ نہ ہونے کے سبب ہر محکمہ میں افسر شاہی نے اپنی الگ ریاست اور سلطنت بنا رکھی ہے ریٹ جاری کرنے والے یہ افسران یہ تمام حقائق دیکھے بغیر اور کمیشن کے بغیر اوپن وزن کر کے ریٹ جاری کر رہے ہیں جو ان ریڑھی بانوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے 10 فیصد منافع بھی ان کے کاروبار کو تباہ کرنے کی سازش ہے بعض سبزی فروٹ کا کاروبار کرنے والے کرایے کی دکانوں اور تھڑوں میں موجود ہیں جو ہر ماہ ہزاروں روپے کرایہ ، بجلی کے بل ، ملازمین کی تنخواہیں دن میں کھانے پینے اور چائے کے اخراجات شامل ہیں یہ تمام چیزیں اسی منافع سے نکالنا ممکن نہیں رہا آلو ، پیاز ، ٹماٹر کھولنے پر مال گندہ ہونے کے سبب اسے باہر پھینکنا پڑتا ہے انتظامیہ کے ریٹ سے زائد فروخت کرنے پر پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ ہمارے لیے ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے انہوں نے کنوینئر ڈسٹرکٹ کوارڈیشن کمیٹی رکن قومی اسمبلی میجر طاہر صادق ، وزیر سماجی بہبود و بیت المال پنجاب یاور بخاری اور دیگر ارباب اختیار سے مطالبہ کیا کہ ہم سینکڑوں ریڑھی بان جو ہزاروں ووٹرز اور سپورٹرز کی نمائندگی کرتے ہیں کو اس طرح سیاسی قیادت نے ان کے حقوق کے سلسلہ میں ان کا ساتھ نہ دیا تو یہ ہزاروں ووٹرز ان سے ناراض ہو جائیں گے انہیں ٹماٹر کی پچھی ، آلو ، پیاز کی بوریاں کھول کر اس میں سے صاف اشیاء کو علیحدہ کر کے ریٹ دیا جائے اور ساتھ 30 فیصد منافع بھی لگایا جائے تاکہ ریڑھی بان اپنے اہل خانہ کیلئے رزق حلال کما سکیں جو ان کا آئینی ، قانونی ، شرعی اور معاشی حق ہے ۔