بدلتی ہوئی صورتحال میں پاپولیشن کنٹرول کے لیے سرگرم این جی اوز کا مستقبل اور رضاکاروں کو لاحق خطرات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس حوالے سے سخت تشویش پائی جاتی ہے کہ بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال میں پاپولیشن کنٹرول اور فیملی پلاننگ کے لیے سرگرم این جی اوز غیر سرکاری ادارے بالخصوص امریکی فنڈ سے چلنے والی این جی اوز کا اس خطے میں مستقبل کیا ہوگا اور ان سے وابستہ ملازمین اور رضا کاروں کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں کیا ان کو جانی نقصان بھی پہنچایا جاسکتا ہے کیا ان لوگوں کو خطے میں رہنا چاہیے یا یہاں سے محفوظ انداز میں منتقل ہوجانا چاہیے ۔


یہ بحث افغانستان میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے پر شروع ہوئی ہے اگرچہ مختلف غیر سرکاری ادارےاور تنظیمیں امریکی فوجی انخلاء کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی اس حوالے سے اپنی منصوبہ بندی بھی کرنے لگی تھیں لیکن طالبان اتنی جلدی کابل کا کنٹرول سنبھال لیں گے اس کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکا اس لیے خطے میں کام کرنے والی این جی اوز کو بھی مشکل صورتحال کا سامنا ہے ۔


یہ بات واضح نہیں ہے کہ فیملی پلاننگ اور پاپولیشن کنٹرول یا برتھ کنٹرول کے حوالے سے یو ایس ایڈ اور دیگر امریکی یا یورپی فنڈنگ سے چلنے والے اداروں ان کے پروگراموں اور این جی اوز کے حوالے سے طالبان کی پالیسی کیا ہوگی ؟ اور وہ پاپولیشن کنٹرول اور فیملی پلاننگ کے لیے این جی اوز کے مروجہ طریقوں کو شرعی پس منظر میں قبول کرتے ہیں یا نہیں ؟


لہذا پاپولیشن کنٹرول کے لیے سرگرم این جی اوز کو بوریا بستر لپیٹ نہ پڑ سکتا ہے ۔
اور بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال کے اثرات صرف قابل یا افغانستان تک محدود رہیں گے یا ان کا دائرہ اثر خطے کے دیگر ملکوں اور علاقوں تک بھی پھیلے گا اس حوالے سے ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا رہا ۔افغانستان کی بڑی آبادی کا پاکستان ایران اور سینٹرل ایشین ریاستوں کی طرف آنا جانا رہتا ہے پاکستان میں افغان باشندوں کی بہت بڑی تعداد مقیم ہے آنے والے دنوں میں ان پر بھی طالبان کی سوچ اور فیصلے غالب آ سکتے ہیں ۔پاکستان میں بھی فیملی پلاننگ کے لیے سرگرم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور این جی اوز کو نئی بدلتی ہوئی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا ۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح کو قابو میں رکھنے اور یہاں مقیم افغان باشندوں کو فیملی پلاننگ کی مصنوعات طریقوں اور خدمات تک رسائی پہنچانے کے مختلف پروگراموں پر کام چل رہا ہے ان پروگراموں اور کاموں کا مستقبل بھی خطرے میں آ سکتا ہے اور ان پروگراموں سے جڑے ہوئے ملازمین اور رضا کاروں کو بھی انتہا پسند سوچ رکھنے والے اپنا نشانہ بنا سکتے ہیں جس طرح ماضی میں پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکاروں کو نشانے پر لیا جاتا رہا ہے اور حال ہی میں کرونا ویکسین کے حوالے سے بھی بعض لوگوں کی جانب سے انتہا پسند خیالات کا اظہار ہو چکا ہے

لہذا آنے والے دنوں میں ایسے رضاکاروں اور ملازمین کی سکیورٹی کی صورتحال پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
———————–
Salik-Majeed—–whatsapp—92-300-9253034