افغان بھگوڑے فوجیوں و مہاجرین کی واپسی ۔۔۔۔

قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
——————————-

وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان میں خانہ جنگی کے تناظر میں پاکستان کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا۔ یہاں تک تو درست کہ مملکت کے خلاف ملک دشمن عناصر خانہ جنگی کروانے کے لئے کئی دہائیوں سے سازشیں کررہے ہیں، فساد اور مفاد کی جنگ میں لسانی، صوبائی یا فرقہ وارنہ رنگ کی آمیزش کرکے مسلکی بنیادوں پر بھی خانہ جنگی کرانے کی کوشش کی جاتی رہی، لیکن ملک دشمن قوتوں کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا رہا۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان میں خانہ جنگی کے خدشات ظاہر کرنا ایک تشویش ناک حاؒلات کی جانب نشان دہی کئے جانا ہے، تاہم افغانستان اور پاکستان کے معروضی حالات وواقعات میں نمایاں فرق ہونے کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ ضرور ہے کہ صرف چند ہفتوں میں سیکورٹی فورسز پر حملوں سمیت دہشت گردی کے150سے زائدواقعات رونما ہوچکے، یہ واقعات خیبر پختونخوا و بلوچستان میں ہوئے ہیں، بالخصوص پاک۔افغان بارڈر و شمال مغربی سرحدوں پر دہشت گردوں کے گروپ منظم ہونے کی اطلاعات، اس حوالے سے تشویش ناک ہیں کہ شدت پسندوں کے سیلپرز ونگ متحرک ہونا شروع ہوگئے ہیں اور ان کالعدم گروپوں کی محفوظ پناہ گاہیں مبینہ طور افغان مہاجرین کیمپ قرار دیئے جارہی ہیں۔
پاکستان بارہا کہہ چکا کہ افغانستان اپنے شہریوں کی واپسی کو ممکن بنائے تاکہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی ہو،مبینہ طور پر ان کیمپوں میں اگر کوئی شدت پسند پناہ حاصل کرتا ہے تو اس کا سلسلہ روکا جاسکے۔ بدقسمتی سے کرپشن کی وجہ سے لاکھوں افغانیوں نے مبینہ طور پر پاکستانی شہریوں کے شجرہ میں تبدیلی کرواکر یا پھر جعلی کاغذات کے ذریعے قومی شناختی دستاویزات حاصل کرلی ہیں جس سے عام پاکستانیوں میں افغانیوں کو تلاش کرنا دشوار گذار عمل ہے۔ حکومت کئی بار افغان پناہ گزینوں کی رہائشی مدت میں اضافہ کرچکی، پاکستانی عوام یہ بھی نہیں چاہتے کہ چار دہائیوں سے زائد رہنے والے مہاجرین کی میزبانی کے بعد انہیں ناخوشگوار طریقے سے واپس بھیجا جائے، اس کے لئے قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے، لیکن جس طرح کابل انتظامیہ کا رویہ پاکستان مخالفت میں اشتعال انگیزی پیدا کررہا ہے، یہ نا صرف افغان روایات کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ اخلاقی و انسانی اقدار سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ افغانستان کے نائب صدر ہوں یا قومی سلامتی کے خصوصی مشیر، جس طرح پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے اور مملکت کے لئے جس قسم کا لب و لہجہ و القاب اور الزامات عائد کررہے ہیں اس کا جواب ریاست، تحمل کے ساتھ بھگوڑے افغان فوجیوں کو افغان حکام کے حوالے کرکے دے رہی ہے۔
بھگوڑے افغان فوجیوں کو روایتی، اخلاقی و ثقافتی اقدار کے مطابق عزت و احترام کے ساتھ افغان حکام کے حوالے کردیا جاتا ہے تاکہ انہیں کچھ شرم آسکے، لیکن افغان نائب صدر و قومی سلامتی کے معتصب مشیر کے غلیظ بیانات سے پاکستانی عوام میں غصے کی لہر پیدا ہو رہی ہے، کوئی بھی محب الوطن اپنی سرزمین کے خلاف دشنام طرازی و ہرزہ سرائی کرنے والوں کو برداشت نہیں کرسکتا۔ کابل انتظامیہ کا کوئی اخلاقی مرتبہ نہیں رہا، انہیں اقتصادی، سیاسی اور سماجی التفات کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا، لیکن اس کے باوجود پاکستان خطے میں امن کے لئے برداشت و تحمل کے ساتھ کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ پاکستان کی سرزمین نے اپنے قیام کے بعد سے ہی مہاجرین کے لئے دل و دروازے کھلے رکھے، عزت و احترام دیا۔
افغان طالبان کی برق رفتار پیش قدمی کے باعث کابل انتظامیہ کے زیر انتظام افغان فوجیوں کو اپنی جانیں بچانے کے لئے پاکستان میں پناہ لینا پڑی، افسوس ناک رویہ یہ دیکھنے میں آیا کہ امریکہ کی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ، پاکستان کا شکریہ ادا کرتی، احسان مانتی، لیکن الٹا جھوٹ کا پلندہ لے کر بیٹھ گئی اور دشنام طرازی شروع کردی، انتہا ئی غیر مناسب عمل کو پاکستانی عوام نے قطعی پسند نہیں کیا، لیکن انسانی جان کو بچانے کے لئے حکومت کے اقدام کو سراہا اورکمال برداشت سے کام لیا، اس امر کو سراہا جانا چاہے۔ریاست نے افغان عوام کو خوراک و بنیادی ضروریات کی رسائی کو ممکن بنانے کے لئے بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور ہزاروں ٹرکوں اور افغانیوں کو سرحد پار کی اجازت دی، ورنہ جنگی حالات میں کوئی ملک، ایسا رسکی اقدام نہیں کرتا۔ پاکستان یہ بھی کرسکتا تھا کہ جب تک افغانستان کی سرحدوں پر عالمی سطح پر منظور شدہ انتظامیہ نہ آجائے، سرحدوں کو بند رکھتا، لیکن انسانی ہمدردی کی نمایاں مثال قائم کرتے ہوئے بلا امتیاز افغانیوں کو مزید تکالیف سے بچانے کے لئے قابل تحسین قدم اٹھایا۔
صدر اشرف غنی قبل از وقت صدارتی عام انتخابات کے لئے دوبارہ پیش کش کرچکے، براہ راست مذاکرات کے لئے بار بار درخواست بھی کررہے ہیں، لیکن افغان طالبان نہ تو صدر اشرف غنی کو مانتے ہیں اور نہ ہی کابل انتظامیہ کو قانونی سمجھتے ہیں، بین الافغان مذاکرات کے لئے بیشتر افغان سٹیک ہولڈرز نے صدر غنی کو مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا، انہیں اپنے ہم وطنوں کی بات مان لینا چاہیے تھی، افغانیوں نے جنگ بندی کے لئے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز کو بھی سراہا تھا لیکن بدقسمتی سے کابل انتظامیہ میں شامل بیشتر شر پسندوں، جنگجوؤں کے سرپرستوں نے اپنے فروعی مفادات کے لئے افغانستان میں امن کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے، افغان طالبان کی فوجی و سیاسی حیثیت کو برطانیہ اور چین سرکاری سطح پر تسلیم کرچکا، امریکہ و نیٹو ممالک کی واپسی کے بعد افغان طالبان کا خود فاتح سمجھنا غلط بھی نہیں، کیونکہ انہوں نے 20برس بعد اپنے دور اقتدار کے علاقوں کو واپس لینا شروع کیا تو وہ علاقے بھی اپنے کنٹرول میں لے لئے جو ماضی میں ان کے شدیدمخالف تھے۔ افغانستان میں حکومت سازی افغان عوام کا داخلی معاملہ ہے، لیکن انہیں احسان کرنے والے ملک پاکستان پر دشنام طرازی و بے بنیاد بہتان و الزام تراشیوں سے گریز کرنا چاہے، انہیں ایک لمحے کے لئے یہ ضرور سوچنا چاہے کہ پاکستانی عوام نے ہر بُرے وقت میں ان کا بھرپور ساتھ دیا ، ان کے مہاجرین کو بنجر علاقوں میں باڑ لگی پناہ گاہوں میں محصورنہیں رکھا،افغان حکام ہوش و عقل سے کام لیں کیونکہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔