آنے والا کل

آنے والا کل کیا لائے گا۔ ایک ہیجان ہے جو واشنگٹن سے کابل، کابل سے دہلی، دہلی سے لاہور اور لاہور سے مظفر آباد تک محیط ہے۔ عالم تمام زیر و زبر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تاریخ ایک نیا موڑ لینے والی ہے۔صدر جو بائیڈن نے کہا:افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی پر تاسف نہیں۔ایک کے بعد دوسرا، چار امریکی صدور اس جنگ میں ملوث رہے۔ انتظامی سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری مجھ پہ ہے۔ پانچویں صدر کو میں یہ جنگ منتقل نہیں کرسکتا۔ کیا یہ دانائی کی بات ہوتی کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی دور دراز کے ایک ملک کی خانہ جنگی میں مبتلا رہتیں۔ طالبان کی فتح پر افغانستان میں جشن برپا ہے، ان کے حامیوں میں۔مخالف پریشان اور اندیشہ ہائے دوردراز کا شکار ہیں کہ آنے والا وقت ان کے لیے کیا لائے گا۔زیادہ خوفزدہ لوگ ہوائی اڈے پر جا پہنچے؛ہرچند کہ کوئی پرواز انہیں سرحد پار نہیں لے جا سکتی۔ فی الحال تو بالکل نہیں۔ دیہات سے کابل کا رخ کرنے والے جواں سال طالبان امریکی فوجیوں کے لیے بنائے گئے ہر ایک جم میں جا گھسے۔ حیرت زدہ مگر شادماں، وہ ورزش کے آلات سے کھیل رہے ہیں۔دوسرے نوجوانوں نے افغان اشرافیہ کے لیے بنائے گئے بچوں کے تفریحی مراکز کا رخ کیا۔وہاں وہ کھلونوں سے کھیلتے، خوش باش دکھائی دیتے ہیں۔ فتح کی سرشاری میں ان میں سے شاید ہی کسی کو ادراک ہو کہ کیسا مشکل امتحان پیش آنے والا ہے۔ جیسا کہ ملّا عبد الغنی برادر نے کہا:اب اصل آزمائش کا آغاز ہے۔ چار گاڑیوں میں کرنسی لاد کر اشرف غنی ہیلی کاپٹر میں ملک سے فرار ہو گئے۔ روپے کا انبار اتنا بڑا تھا کہ کچھ حصہ انہیں چھوڑ دینا پڑا۔ افغانستان کے سرکاری خزانے میں اب کیا پڑا ہے، معلوم نہیں ۔ سینٹرل بینک کے سربراہ نے، جو اشرف غنی کے بعد ہوائی اڈے پر پہنچا، گالیاں بکتے ہوئے کہا: جانے سے پہلے کسی کو اس نے ذمہ داری سونپی ہوتی، کوئی انتظام کیا ہوتا۔سرکاری خزانے کا بڑا حصہ امریکہ میں ہے، 8.9بلین ڈالر۔ امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یہ روپیہ طالبان کے حوالے نہیں کیا جا ئے گا۔ شہنشاہ ایران کے بعد کئی عشروں تک ایرانی وسائل امریکی بینکوں میں پڑے رہے۔شرائط تسلیم کرانے کے بعد ہی واپس کیے گئے۔جب ایٹمی تعاون کا معاہدہ صادر ہوا، بعد میں جو ڈونلڈ ٹرمپ نے منسوخ کر دیا۔طالبان پر عنایت تبھی ہوگی جب وہ امریکی شرائط قبول کریں گے۔ بظاہر تو صرف یہ کہ خواتین اور بچوں کے حقوق محفوظ ہوں گے۔ پشتونوں کے علاوہ دوسری اقوام کو اقتدار میں شریک کیا جائے گا۔ بات مگر اتنی سی نہیں۔ظاہر ہے، یہ ضمانت طلب کی جائے گی کہ افغان سرزمین کبھی امریکی مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ افغانستان کی مذہبی حکومت چین، روس، ایران اور پاکستان کی حلیف نہیں ہوگی۔ ہرسال پانچ سو ملین ڈالر عطا کرنے والا جرمنی پہلے ہی اعلان کر چکا کہ شریعت نافذ ہوئی تو امداد روک دی جائے گی۔کورونا کے لیے عالمی مالیاتی ادارے نے جون میں تین سو ملین ڈالر دیے تھے۔ کابل شہر اور ہوائی اڈے کے ہجوم نے وبا کا اندیشہ بڑھا دیا ہے۔مزید عطیات موصول ہوں گے یا نہیں؟ افغان فوج کا کیا ہوگا؟ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ دس ہزار افغان شہریوں کو جرمنی نے پناہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح امریکہ،آسٹریلیا، کینیڈااور برطانیہ نے بھی مگر یہ پیغام واضح ہے کہ افغانستان کو ایران کے نقشِ قدم پر چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سر اٹھانے کی کوشش کی تو زندگی دشوار کر دی جائے گی۔ عالمی بینک کے درجنوں منصوبے زیرِ تکمیل ہیں، لاکھوں افغانوں کا روزگار جن سے وابستہ ہے۔ 5.3بلین ڈالر ان پروگراموں کے لیے مختص ہیں۔ ظاہر ہے کہ مشین کا پہیہ رک گیا۔ غیر ملکی توچلے ہی جائیں گے۔پیشہ ور ماہرین کی اکثریت بھی ملک کو خیر باد کہہ دے گی۔ محض معاشی اور انتظامی ہی نہیں، یہ غذائی بحران کا آغاز بھی ہو سکتاہے۔ محدود سی امداد پاکستان اور ایران مہیا کر سکتے ہیں لیکن محدود سی امداد ہی۔ معلوم نہیں،عسکری قیادت، ایوانِ وزیرِ اعظم اور شاہ محمود کی وزارتِ خارجہ کو کابل میں درپیش پیچیدگیوں کا کتنا ادراک ہے۔کتنی قوتِ عمل ان میں کارفرما ہے کہ کم از کم وقتی طور پر ہی کچھ سہارا دے سکیں۔خود اپنے لیے عمران حکومت ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا کیے رکھتی ہے۔ پچھلے دنوں کپتان نے سندھ فتح کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ آج کل اس محاذ پر قدرے خاموشی ہے۔ مسائل اب لاہور اور مظفر آباد میں درپیش ہیں۔ بیرسٹر سلطان محمود کو منت سماجت کے بعد صدارتی منصب قبول کرنے پر آمادہ کر لیا گیا۔ وہ وزارتِ عظمیٰ کے آرزومند تھے۔ عبدالقیوم نیازی نامزد ہوئے تو وہ آزردہ تھے۔ کہا کہ سات برس تک میں نے پارٹی کی خدمت کی اور یہ اس کا صلہ ہے۔رفقا نے مشورہ دیا، روٹھ کر گھر بیٹھ جانے سے بہتر ہے کہ نسبتاً کمتر عہدہ قبول کر لیا جائے۔ بیرسٹر سے وعدہ یہ ہے کہ صدارتی اختیارات میں اضافہ کیا جائے گا۔کابینہ میں ان کی پسند کے چند ارکان بھی شامل ہوں گے۔ کابینہ اور اختیارات کیا، سادہ سی بات یہ ہے کہ افسرشاہی اگر انہیں اہمیت دیتی رہے تو وہ شاد رہیں گے ۔ ایسا لگتاہے کہ سابق وزیرِ اعظم فاروق حیدر کی خواہش کے باوجود نون لیگ نے اسلام آباد میں دھرنے کا منصوبہ منسوخ کر دیا ہے۔ ہنگامہ آرائی کشمیریوں کا مزاج ہی نہیں۔ مرکز سے متصادم ہونا وہ پسند نہیں کرتے۔ ان کا مسئلہ ترقیاتی منصوبے ہیں۔ سڑکیں، بجلی، تعلیمی ادارے اور نوکریاں۔ادھر اطلاع یہ بھی ہے کہ نواز شریف ایک بار پھر چھوٹے بھائی کو اختیار سونپنے پر مائل ہیں۔ اگر ایسا ہے تو لازمی طور پر ’’قائدِ انقلاب‘‘ محترمہ مریم نواز کچھ دن کے لیے خاموش رہیں گی۔ باگ بہرحال نواز شریف کے ہاتھ میں رہے گی۔ جب چاہیں، ایک گھوڑا پیچھے ہٹا کر دوسرے کو آگے بڑھا دیں۔ آرزو بہرحال یہی ہے کہ اقتدار ان کی صاحبزادی کو نصیب ہو۔ایک موہوم امید پر زندہ ہیں۔کچھ عرصے کے بعد شاید عسکری قیادت اور عدالتی نظام میں برپا ہونے والی تبدیلیاں ان کی راہ کشادہ کر سکیں۔عثمان بزدار کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید بالاخر مرکز کے حوالے کر دیے گئے۔ اتوار کو یہ حکم اسلام آباد سے صادر ہوا۔ اس کے باوجود پیر کے دن وہ دفتر میں موجود رہے۔کہا جاتاہے کہ نئے پرنسپل سیکرٹری عامر جان کا نام بھی انہوں نے تجویزکیا۔ عامر جان کے بارے میں بتایا یہ جاتاہے کہ بدعنوان تو نہیں مگر ریاضت کے خوگر بھی نہیں۔ خوش گفتار البتہ ہیں۔ وہی آج کے کام کو کل پہ ٹالنے والی افسر شاہی کی روش۔ اس شعار کے ساتھ کتنے دن اس نازک منصب سے نباہ کرسکیں گے، یہ کہنا مشکل ہے۔ چیف سیکرٹری کے جواد رفیق علیل ہیں۔ نہ بھی ہوں تو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔رخصت ہوتے ہوئے اپنے گروپ کے افسروں ارم بخاری، صائمہ سعید۔ سقراط امان رانا،عائشہ حمید اور ہوم سیکرٹری ظفر نصر اللہ کوطاہر خورشید یہ پیغام دے گئے کہ کوئی دن میں وہ لوٹ آئیں گے۔ ممکن ہے بائیسویں گریڈ میں ترقی پانے کے بعد چیف سیکرٹری کے طور پر۔ جاتے جاتے اپنے داماد احسن بریار کو بورڈ آف ڈائریکٹر ز کا سربراہ اور وزیرِ اعلیٰ کا خصوصی مشیر بنانے میں کامیاب رہے۔ آنے والا کل کیا لائے گا۔ ایک ہیجان ہے جو واشنگٹن سے کابل، کابل سے دہلی، دہلی سے لاہور اور لاہور سے مظفر آباد تک محیط ہے۔