رفیق افغان۔بے باک صحافی کا سفر زندگی تمام


سہیل دانش
———————
قدرت نے کچھ ایسی حکمت رکھی ہے کہ انسان موت اور سورج کو زیادہ دیر تک ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتا جب ہی تو چلتی رکتی ابھرتی اور ڈوبتی نبضیں اور اکھڑتی ٹوٹتی سانسیں بالآخر سینہ تان کر خود کو مجاہد کہنے والا یہ شخص مات کھا گیا۔ اور حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی طاقت قبر کی رات اور آخری سانس کو ٹال نہیں سکتی۔ جب سے انہیں کرونا ہوا تھا اور ڈاکٹروں کے چہروں پر پھیلی ہوئی مایوسی کے سبب دھڑکا ہر وقت لگا رہتا لیکن سننے کو کوئی تیار نہیں تھا۔موت برحق ہے اور ہم سب کو لوٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔
تنازعات، شکایتیں، غلط فہمیاں، دوریاں، قربتیں، تلخیاں، عزم و حوصلہ، اندیشے، دھڑکے، بے خوفی ان کی زندگی کے رنگ تھے۔ لیکن اب وہ زندگی کے میلے سے لا تعلق اپنے خوابوں کے ساتھ محو آرام ہیں۔ صحافت کی ایک اور نامور شخصیت ہم سے رخصت ہوئی جناب رفیق افغان کی شخصیت جرأت اور مزاحمت کا اس طرح نشان تھی جس طرح ان کے قابل تعظیم استاد جناب مولانا صلاح الدین ہمت اور جرأت کا استعارہ تھے۔
رفیق افغان سے سی اپی این ای کے متعدد اجلاسوں میں ملاقات رہی یہ تو میں جانتا تھا کہ تکبیر اور بعد امت میں خبروں کی پالیسی ایڈیٹوریل کا مزاحمتی انداز مضامین کے متنازعہ اور پر خطر عنوانات غرض امت کا پورا چہرہ ہی کڑوے کسیلے سوالات، چبتھے ہوئے نشتر اور چنگھاڑتی اور چونکا دینے والی خبروں سے بھرا ہوتا تھا۔خود رفیق افغان بڑی حیران کن شخصیت کے مالک تھے۔پاکستان میں صحافت میں نا جانے کیسے کیسے وقت دیکھے اس میں مارشل لاء آمریت کا بد ترین دور بھی تھا کچھ کہنے کچھ لکھنے حتی کہ کچھ پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی خلاف ورزی کرنے پر سزا کا اندیشہ نہیں یقین ہوتا تھا۔ ہیبت اتنی کہ سانس لیتے ہوئے بھی محتاط رہنا پڑتا تھا۔ رفیق افغان کی صحافت کا اپنا اسٹائل تھا میں نے ایک بار ان سے پوچھا یہ مہم جوئی کرتے ہوئے آپ کو ڈر نہیں لگتا؟کہنے لگے جو رات قبر میں لکھی ہے وہ کوئی بدل نہیں سکتا۔ سہم کر صحافت کی تو کیا کیا۔ اپنے رپورٹرز کو ہدایت کر رکھی تھی خبر مکمل تحقیق کے بعد فائل کریں پھر دباؤ آتا تو ڈٹ جاتے۔ متنوع انداز کے انسان تھے۔ نبی آخر الزماں ﷺ کا ذکر ہوتا تو آنکھیں نم ہو جاتیں ہمارے بہت ہی پیارے دوست اور بھائی کی طرح جناب نصیر ہاشمی نے طویل عرصے تک ان کے ہاں خدمات انجام دی۔ انہیں سلا م کرنے جاتے تو کبھی کبھار رفیق افغان سے ملاقات ہوتی ویسے وہ بہت خوش مذاج انسان تھے۔افغانستان کے معاملات آپ انہیں انسا ئیکلو پیڈیا کہہ سکتے ہیں۔ انگریزی، اردو، پشتو اور فارسی میں عبور رکھتے تھے۔ درحقیقت ان کے دبنگ اسٹائل نے انہیں ہماری صحافت کا ایک منفرد باب بنادیا تھا۔صحافت کا یہ فلک بوس معیارتو نہ تھا۔ لیکن اس کا اپنا چسکہ تھا سچ پوچھیں تو ایم کیو ایم کے خلاف ان کے اخبار کی خبروں اور تحریروں میں مخالفانہ طرز اور جارحانہ انداز ہوتا تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا ووٹر اور سپورٹر بڑی تعداد میں ان کے اخبار کو پڑھتے تھے۔ شاید اس کی وجہ خبروں میں مخالفانہ طرز چٹکی بھرنا اور چھیڑ خانی کا تڑکا تھا۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امت کے بعض کالم نگاروں کی شگفتہ نثر نگاری اعلیٰ معیار کی ہے رفیق افغان کی زندگی تنازعات سے پر دکھائی دیتی تھی۔ میں نے پوچھا آپ حالات اور واقعات سے الجھتے اور لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ پر تلاطم لہروں کی مانند جس میں سکون نہیں ہے مسکر ا کر کہنے لگے میں زندگی میں اتنا مصروف رہا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ لڑکپن کس دن رخصت ہوا وہ کون سی ساعت تھی جب میں جوان ہوا۔ جوانی کب ڈھلی ادھیڑ پن کب ختم ہوا اور بڑھاپا کس گھڑی شروع ہوا۔ افغان وار کے چار دہائیوں پر مشتمل انہوں نے جس طرح واقعات سنائے میں حیرانگی سے انہیں دیکھتا رہا کہنے لگے میں نے اپنے تئیں ایک بامقصد پُر جوش اور پُر خطر زندگی گزاری ہے۔ میں نے جنگی جہازوں کی گھڑ گھڑاہٹ اور توپوں کی دھمک سنی ہے۔ میں نے بموں کی تباہ کاریاں دیکھی ہیں میں نے پوچھا آپ تو افغانیوں کو کسی بھی صحافی سے زیادہ جانتے ہیں ہم نے انہیں پناہ دی آنے والوں میں ہر کلاس کے لوگ تھے یہ واپس کیوں نہیں جاتے؟ کہنے لگے جس بستی میں ایک بار موت گزر جائے وہاں زندگی کو نمو پانے میں صدیاں درکار ہوتی ہے۔ جن کھیتوں میں ایک باربارود کے ڈھیر لگ جائیں وہاں برسوں تک صرف موت اگتی ہے اور جن راستوں پر ایک بار توپ گاڑ دی جائے ان پر واپسی کا سفر محال ہوتا ہے۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ افغانستان میں کیا کچھ ہونے والا ہے؟ میں نے یہ انٹر ویو چند سال قبل کیا تھا اب ہر بات جوں کی توں سچ ثابت ہو رہی ہے ان کی وہ باتیں مجھے آج بھی یاد آرہی ہیں اور میں سوچ رہا ہوں جن کے سامنے کوئی مدینہ ہو انہیں اپنے مکہ سے ضرور ہجرت کرنی چاہئیے۔ افغان گھر سے نکلے تو پاکستان ان کیلئے جائے امان بن گیا لیکن دنیا میں جن کے لئے ایک بھی انصار نہ ہو انہیں نقل مکانی کی حماقت کبھی نہیں کرنی چاہئیے۔
رفیق افغان کو ہم صحافت کے جس پیمانے پر جانچیں ان سے لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ بے باک اور نڈر صحافی تھے اندیشوں اور خطرات کے پیش نظر وہ کم ہی منظر عام پر آتے تھے۔مولانا صلاح الدین کی وفات کے بعد انہوں نے صحافت کے میدان میں اپنے سسر کے مشن کو آگے بڑھایا۔ روس 1979میں جب افغانستان پر قابض ہوا تو ایک مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی وہ پروفیسر برھان الدین ربانی اور گل بدین حکمت یار سے بہت متاثر تھے۔ اس مزاحمتی تحریک نے رفیق افغان کو بھی عملی زندگی میں قدم رکھنے کے ساتھ اپنا ایک باہمت کردار تفویض کرنے کا موقع فراہم کیا۔ جب ربانی اور حکمت یار رائے عامہ کو روسی تسلط کے خلاف پاکستان میں ہموار کرنے کے لئے نکلے تو رفیق افغان ان کے ترجمان کے طور پر ان کے ساتھ ہوتے۔ یہ رفیق افغان کا زمانہ طالب علمی تھا وہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے افغانستان کے حالات سے بروقت اور غیر معمولی واقفیت کے سبب انہوں نے روز نامہ جنگ میں طبع آزمائی شروع کر دی۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی مولانا صلاح الدین سے ملاقات ہوئی ان دونوں کے مابین مشترکہ تعلق کی وجہ بھی افغانستان تھا۔ صلاح الدین صاحب تو بڑے با اثر تھے۔ صدر ضیاء الحق اور جنرل حمید گل سے ان کے ذاتی تعلقات تھے جب رفیق افغان سے ان کے تعلقات استوار ہوئے تو انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں خصوصاً گلبدین حکمت یار سے مشورے کے بعد اپنی بیٹی سعدیہ کا رشتہ رفیق افغان سے کر دیا۔ یہ نکاح وزیر اعظم گل بدین حکمت یار نے پڑھایا۔ مولانا صلاح الدین کا داماد بننے کے بعد رفیق افغان کا صحافت میں رجحان اور دلچسپی بڑھ گئی کیونکہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی بھی لکھنا پڑھنا تھا۔ پھر وہ صلاح الدین صاحب کی شہادت کے بعد ان کے جانشین بن گئے۔ اس دوران وہ خاندانی اورگھریلو طور پر ایک شدید بحران کا شکاربھی رہے۔ ان پر اس کے علاوہ بھی بے شمار الزامات لگے انہیں ایجنسیوں کا بندہ ہونے اور مال بنانے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنے جیسے الزمات کا سامنا کرنا پڑا۔ گھریلو معاملات میں ناچاقی بھی ہوئی اور تکبیر کے معاملات بھی وجہ تنازعہ بنے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک قابل صحافی بے باک ایڈیٹر اور زبردست صلاحتیوں کے منتظم تھے۔
ایک بارمیں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ پر الزام لگتا ہے کہ آپ ایجنسیوں کے آدمی ہیں کہنے لگے ہر گز نہیں یہ بات آپ کیسے کہہ سکتے ہیں میں نے کہا حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس حوالے سے ایم کیو ایم کو جس طرح چارج شیٹ کی تھی اس کا زیادہ تر حصہ دو دون پہلے آپ کے اخبار میں چھپ چکا تھا۔ کہنے لگے خبر حاصل کرنے کے لئے ہمارے اپنے ذرائع ہوتے ہیں اور پھر وزیر اعظم تو لا محدود اختیارات کا مالک ہو تا ہے۔ سارے ادارے اور ایجنسیاں اس کے ماتحت ہوتی ہیں۔
رفیق افغان اب اس دنیا میں نہیں رہے ہم ان پر جتنی چاہیں بات کر لیں ان کا دنیاوی کر دار ختم ہو گیا ہے۔ جب بھی میں کسی صحافی یا قلم کار کے بارے میں لکھتا ہوں مجھے بے اختیار مرحوم ممتاز مفتی یادآجاتے ہیں جو اکثر کہا کرتے تھے ”لکھنا ایک کام ہے اس کو دوسرے تک پہنچانا دوسرا کام۔ میں لکھ سکتا ہوں لیکن دوسرے تک پہنچا نہیں سکتا ہے کیونکہ یہ کام خدا نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے وہ جس لفظ کو چاہے سینے سے پار کر دے اور جس تحریر اور کتاب کو چاہے ردی کی دکانوں پر ذلیل و خوار کر دے“
اس ملک میں ہزاروں لوگ لکھ رہے ہیں لیکن ان کی تحریریں اثر سے خالی ہیں اس کی ہر گز وجہ یہ نہیں کہ وہ برا لکھتے ہیں محنت نہیں کرتے یا ان کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں ایسا ہر گز نہیں ان میں اکثر گرافٹس مین شپ کی صلاحیت سے مالا مال ہیں لیکن بد قسمتی سے ان کے الفاظ کو دوسرے تک پہنچنے کی اجازت نہیں ملی۔ انہیں تیر بن کر سینوں میں اترنے کا حکم نہیں ملابس یہی بات باقی سب لفظوں کا گھورکھ دھندہ ہے اور شاید یہ بھی حقیقت ہے کہ زندوں کی تعریف کرنا ہمارادستور نہیں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ رفیق افغان جیسے بے باک صحافی کے ساتھ اپنے رحم و کرم کامعاملہ فرمائے۔