نور مقدم قتل سے خوف کے بادل گہرے ہونے لگے

طلعت عباس خان
ٹی ٹاک

—————————–
غیر انسانی رویوں کو روکنے کیلئے ہمارے ہاں بے شمار قانون موجود ہیں مگرقانون سے کوئی نہیں ڈرتا ۔اس سال انسانوں کا جانوروں کے ساتھ بھی وہی وحشیانہ سلوک دیکھنے میں آیا جو انسانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔اس سال قربا نی کےجانوروں پر اسلحے کا آزادانہ استعمال ہوا۔ پہلے جانور کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا پھر اس پر چھری چلائی۔اسی طرح اسلام آباد میں ایک لڑکی پر پہلے وحشیانہ تشدد کیا اور پھر چھری سے سر تن سے جدا کر دیا۔ ملزم گرفتار ہو چکا ہے۔آلہ قتل برآمد ہو چکے ہیں۔اب تو اس کیس کا فیصلہ تین دن میں ہو سکتا ہے۔یہ عام سوچ ہے مگر ایسے ہو گا نہیں۔ اگر فیصلہ تین دن میں نہیں ہونا تو تین ہفتوں میں ہو جائے ۔تین ماہ میں بھی ہو جائے تو کوئی برا نہیں لیکن تیس سالوں میں نہ ہو۔ لگتا ہے ہمارے ملک میں کرونا وائرس کی طرح اب وحشی وائرس بھی پھیل چکا ہے۔یہ وائرس انسانوں اور جانوروں پر یکساں حملہ کر چکا ہے۔ مقصود جعفری صاحب نے ٹھیک کہا۔


بہتر یہی ہے جعفری جنگل میں جابسیں، شہروں میں ناگ پھرتے ہیں انسان کے روپ میں شہروں میں اب ناگ نہیں اژدھا اور خونخوار بھیڑیے پھر رہے ہیں۔جھنیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نہ جانے اس قاتل جیسے ذہنیت سوچ کے سنگدل اس کے حلقہ احباب میں کتنے او ر ساتھی ہونگے۔ ان پر بھی ورک کریں۔ان سے پوچھیں۔ان کے ذرائع آمدن کا پوچھیں وہ کرتے کیا ہیں۔ کن کن فیملیوں سے ہیں۔کس قسم کا نشہ کرتے ہیں۔ لگتا یہی ہے یہ قاتل اکیلا نہیں اس جیسے اس کے مزید ساتھی بھی ہیں۔ ان سے سوسائٹی کو خطرہ ہے۔ حکومتی ادارے جن کا کام ہی یہی ہونا چائیے کہ کرائم پر نظر رکھیں، نشہ آور اشیا کو فروخت نہ ہونے دیں ۔ لگتا یہی ہے یہ خود اس کراہم میں ملوث ہیں۔ جہاں آپ دودوھ کی رکھوالی پر بلےبٹھائیں گے تو پھر نتیجہ تو یہی نکلے گا ۔افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سوچ کا انداز درست نہیں۔عوام نظام ایسا مانگتے ہیں کہ ہفتہ دس دن میں ایسے مجرم کو سرعام لٹکا دے مگر ابھی ایسا ممکن نہیں۔یہ آپ کو بھی پتہ ہے اور جرائم کرنے والوں کو بھی پتہ ہے۔ ایسے واقعات پرفوری سزائیں دی جإیںمگر موجودہ نظام اور قانون میں ایسا ممکن نہیں ہے۔پھرجہالت یہ ہے کہ اکثر یہ تبصرے بھی ہو رہے ہیں کہ مقتولہ نے اس جیسے سے دوستی کیوں کی۔ گھر والوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا ۔ اس کے کپڑوں اس کے بناؤں سنگار نے اس کو ایسی واردات کرنے پر مجبور کیا ہو گاوغیرہ وغیرہ ۔ ایسے سوال کرنے والوں پر ہم تو افسوس ہی کر سکتے ہیں ۔ایسے سوال کرنے والےایک خاص قسم کا مائنڈ سٹ رکھتے ہیں۔ایسے لوگ اعلی عہدوں پر ہیں ۔حکمران بھی اسی سوچ کے مالک ہیں۔ مجھے امریکہ کا ایک واقع یاد ہے ۔ نیو جرسی ٹائم کی اخبار میں پاکستان کے حوالے سے اس کے فرنٹ صفحہ پر دو کالمی خبر چھپی۔ جسے دیکھ کر دل بہت خوش ہوا کہ اتنی بڑی اخبار میں آج پاکستان کی بھی خبر ہے۔ اس خبر کو جب پڑھا تو سر شرم سے جھگ گیا۔ اس زمانے میں بھی اسلام آباد کے کچھ ایسے ہی حالات تھے جو اج ہیں کہ لڑکیاں وارداتوں کے خوف سے گھر سے کالج نہیں جاتی تھیں ۔ لہذا آئی جی صاحب نے ان حالات میں ایف سیون کے کالج کا وزٹ کیا۔کالج کے اپنے خطاب میں فرماتے ہیں میری بیٹیوں اس شہر کے حالات جس طرح سے خراب ہیں آپ کو چائیے کہ گھروں سے غیر ضروری نہ نکلا کریں۔ نکلتے وقت چادر سے سر منہ ڈھانپ لیا کریں ۔ اس اخبار نے آئی جی کی اس قسم کی چند لائنیں لکھ کر اس خبر کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا کہ کیا آئی جی صاحب کالج میں بطور کسی مذہبی شخصیت کے خطاب کرنے گئے تھے یا ایک سیکورٹی کے اعلی ادارے کے سربراہ کے طور پر ۔ ان کا کام تو یہ تھا یہ سب کو بتاتے کہ ہم نے اسلام آباد میں سیکورٹی کے تمام انتظامات مکمل کر لیئے ہیں اب آپ کو کسی قسم کی کوئی فکر نہیں کرنی۔آپ کسی وقت اور اکیلے کئی بھی جا آ سکتی ہیں۔اخبار نے لکھا کہ اس نے اپنا اور اپنے ادارے کا مذاق اڑایا ہے۔اب اتنے عرصے بعد ایسی ہی سوچ اب پھیل چکی ہے ۔جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیکورٹی ادارے اتنے مضبوط ہوں کہ کوئی ظالم ایسی واردات کرنے کا سوچے بھی نہ۔حضرت عمر فاروق رضہ کے نظام عدل کی یہ حالت تھی کہ آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چراوہ بھاگتا ہوا آیااور چیخ کر بول رہا تھا اے لوگو حضرت عمر فاروق رضی ا للہ عنہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو، تمہیں اس سانحے کا کیسے پتہ چلا۔ چروایا بولا جب تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زندہ تھے۔ میری بھیڑیں جنگل میں بے خوفی سے پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف دیکھنے کی جرائت نہیں کرتا تھا۔لیکن آج پہلی بار بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا ہے۔ ایک اور موقع پہ آپ نے فرمایا تھا کوئی بھی خاتون سونے سے اگر لدھی ہوئی بھی ہے تو مکہ سے مدینہ رات کی تاریکی میں جا آ سکتی ہے۔ کسی کی کوئی مجال نہیں کہ اس عورت کی طرف کوئی دیکھے بھی۔ یہ مدینہ کی ریاست ہوا کرتی تھی۔ اسلام آباد پولیس کے پاس تمام وسائل ہیں مگر پھر بھی در ندے اس شہر میں سر عام گھومتے پھرتے ہیں۔ جب تک پولیس کرائم پیشہ افراد سے اپنے آپ کو الگ نہیں کرتی،اپنی تنخواہ پہ گزارا نہیں کرتی یہ وارداتیں یوں ہی ہوتی رہیں گیں۔اسلام آباد کے ایکس سیشن جج صبا محی الدین صاحب عدالت میں پولیس سے مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے جس نے بندہ مارنا ہو اسلام آباد لا کے مارلے اسلام آباد پولیس اسے کچھ نہیں کہتی۔ یہ بات آپ کی آج بھی درست ہے۔ایسا ہی ہے یہ سیکورٹی دینے کے بجائے کہتے ہیں عورتیں چادر سے ڈھانپ کر گھروں سے نکلیں۔ہر بچہ جوڈو کراٹے سیکھے۔جبکہ ان اداروں کا کام ہے اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ باپ بن کر مولوی بن کر ایسے لیکچر دیناہے۔ دوسروں کی گھروں میں لگی آگ کو دیکھ کر خاموش رہتے ہیں ۔جی گویرا کہتا ہے میں نے قبرستان میں ان لوگوں کی قبریں بھی دیکھی ہیں جو اپنے حق کیلئے اس لئے نہیں لڑتے تھے کہ ہم مارے نہ جائیں۔پلیز اپنے اور دوسروں کے حق اور سچ کی خاطر لڑنا سیکھیں۔نہ کوئی موت دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی رزق چھین سکتا ہے۔جس نے ان دو باتوں پر عمل کیا وہ معاشرہ کا اچھا شہری ثابت ہوا۔
ٹی ٹاک
طلعت عباس خان
28.07.2021 Daily Nawaiwaqt.