قدرت کا ایک خوبصورت انمول شاہکار۔۔ زلزلہ جھیل وادی چکار ۔۔

تحریر شہزاد بھٹہ
—————–


2020 میں اپیکا اسپشل ایجوکیشن لاھور کی ایک ٹیم نے شہزاد بھٹہ ڈائریکٹر اور میاں ریاض صدر اپیکا کی قیادت میں آزاد کشمیر کا ایک تفریحی اور معلوماتی وزٹ کیا اس ٹور کے دوران سیاحتی ٹیم نے کوٹلی ستیاں باغ گنگا چوٹی سدھن گلی زلزلہ جھیل ، مظفر آباد کے خوبصورت تفریحی مقامات کی سیر کی۔ اس تفریحی ٹور کی ایک خاص دریافت زلزلہ جھیل وادی چکار تھی اس خوبصورت قدرتی جھیل کو دنیا کے سامنے پیش کرنا اپنا قومی فرض سمجھتے ھوئے اس جھیل کے

بارے تفصیلات آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رھا ھوں تاکہ پاکستانی مری کی جان چھوڑ کر دیگر خوبصورت تفریحی مقامات کی سیر کریں اور قدرت کے انمول خزانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔


سدھن گلی ضلع باغ سے مظفر اباد روڈ پر واقع بلند و بالا پہاڑوں سے چاروں طرف سے گھری ھوئی ایک نہایت خوبصورت جھیل ھے جو 2005 میں انے والے زلزلہ کی وجہ سے وجود میں ائی ۔۔اور اس کو مقامی لوگوں سے زلزلہ جھیل کا نام دے دیا ۔


زلزلہ جھیل سدھن گلی مظفر آباد مین روڈ سے تقربیا 5000 فٹ نیچے واقع ھے اس کی گہرائی تقربیا 150 فٹ اور لمبائی تین کلو میڑ ھیں ۔
یہ جھیل وادی چکار ضلع جہلم ویلی کے گاؤں کلڑی میں واقع ھے اور


مشہور گنگا چوٹی سدھن گلی سے تقریبا پندرہ کلومیٹر دور ھے
اکتوبر 2005 میں آنے والے شدید زلزلہ کی وجہ سے ایک بڑا پہاڑ نے اپنی جگہ چھوڑی جس کی وجہ سے نیچے وادی میں بہنے والا نالہ کا راستہ مکمل طور پر بند ھو گیا جس کی وجہ بہت تھوڑے وقت میں ایک بڑی جھیل وجود میں آگئی اس خوبصورت وادی میں تقریبا چھ سے سات چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے ان گاؤں میں رہنے والوں کو اتنی مہلت ھی نہ مل سکی کہ وہ اپنا بچاؤ کر سکیں جس سے بہت زیادہ مالی اور جانی نقصان ھوا اور پانی اکھٹا ھونے سے وادی کے کئی گاوں جھیل میں ڈوب گئے ۔ذرایع کے مطابق تقریباً تین ھزار لوگ اپنی جانوں سے محروم ہوگئے
زلزلہ جھیل ایک بہت بڑی جھیل ھے یہاں انے اور اوپر واپس جانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ھے نہایت مشکل راستہ ھے مقامی لوگ تو اسانی سے یہ مشکل فاصلہ طے کرلیتے ھیں مگر ٹورسٹ کے لیے نہایت دشوار اور محنت طلب کام ھے ۔


۔سدھن گلی باغ سے زلزلہ جھیل تک کی مین مظفر آباد روڈ نہایت خراب اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھے اس کی مرمت کا کام جاری ھے زلزلہ جھیل سٹاپ سے اگئے مظفر اباد تک نئی سڑک بنی ھے
زلزلہ جھیل میں ٹورسٹ کے لیے کوئی سہولیات نہیں ھیں سیاحوں کے لیے کوئی ریسٹ ھاؤس ، کھانے پینے کی ہوٹل ،چائے خانہ ،باتھ رومز وغیرہ تک نہیں ھیں
یہی پاکستان کی بد قسمتی ھے کہ زلزلہ جھیل جیسے خوبصورت تفریحی مقامات کی پروموشن کے لیے کچھ نہیں کرتے صرف جمع خرچ کرتے ھیں اربوں روپوں کے قرضے اپنی ذاتی عیاشیوں پر برباد کر دیئے ھیں قدرت نے پاکستان کو سینکڑوں خوبصورت ترین تفریحی مقامات دے رکھے ھیں مگر ھماری افسر شاھی سارا سارا دن فائلوں کے چکر سے ھی باھر نہیں نکلتی، اے سی والے دفاتر میں ھی بیٹھ کر میٹنگ میٹنگ کھیلتے رہتے ھیں ۔ایسے بے کار اور بے فایدہ منصوبے بناتے ھیں جن سے صرف اپنا کھانا پینا چلتا رھے ۔اپنے استعمال کے لیے نئی نئی گاڑیاں ، دفاتر کی آرائش پر ھی لاکھوں کروڑوں خرچ کر دیتے ھیں
زلزلہ جھیل کی سیر کے لیے مقامی افراد نے ایک موٹر کشتی بنا رکھی ھے ۔جس کی مدد سے زلزلہ جھیل دیکھنے والے جھیل کی سیر کرتے ھیں کوئی سیفٹی جیکٹیں نہیں ھیں صرف اللہ کے بھروسے پر ھی آپ 150 فٹ گہری جھیل کی سیر کر سکتے ھیں اس خوبصورت جھیل کو دیکھنے کے لیے بہت کم لوگوں آتے ھیں کیونکہ ایک یہ خوبصورت ترین تفریحی مقام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ھے آزاد کشمیر گورنمنٹ اور مقامی انتظامیہ نے کھبی بھی کوشش نہیں کی کہ اس جھیل کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور نہ ھی وھاں کوئی بنیادی سہولیات فراھم کی ھیں جس کی وجہ سے بہت کم سیاح زلزلہ جھیل کے بارے جانتے ھیں ھم نے صرف مری نتھیا گلی ایبٹ آباد کاغان ناران کی طرف ھی توجہ مرکوز کر رکھی ھے بلکہ زیادہ تر سیاح صرف مری و گرد نواح کے علاقوں کی طرف ھی آتے ھیں اور ذلیل و خوار لاکھوں روپے ضائع کرکے آتے گھروں کو چلے جاتے ھیں حالانکہ سیر و تفریح سکون اور قدرت کے نظاروں دیکھنے اور لطف اندوز ھونے کے لیے کی جاتی ھے مگر پاکستان حکومتوں اور انتظامیہ کی نااہلوں کی وجہ سے لوگوں لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ذلیل و خوار ھو کر اپنے گھروں کو واپس آتے ھیں
حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کو چاھیے کہ زلزلہ جھیل جیسے خوبصورت سیاحتی مرکز میں بنیادی سہولیات فراھم کرے جھیل تک جانے کے لیے راستہ بنایا جائے بلکہ وھاں پر چیئر لفٹ لگائی جائے جس سے سیاح بآسانی جھیل تک سکیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی سیاح خوبصورت مقام سے لطف اندوز ھو سکے ۔۔زلزلہ جھیل جیسے تفریحی مقامات سے ملک کروڑوں روپے کما سکتا ھے ۔مگر بات ھے ذرا سوچنے کی جو ھماری حکومتوں اور انتظامیہ کے پاس نہیں ھے ۔۔