درسگاہوں میں ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کے واقعات الارمنگ صورتحال ہیں:ڈاکٹر عبدالغفور شورو


درسگاہوں میں ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کے واقعات الارمنگ صورتحال ہیں:ڈاکٹر عبدالغفور شورو
پاکستان کا بڑا مسئلہ درست اعدادوشمار کا نہ ہونا بھی ہے جس کے باعث ہم منصوبہ بندی سے قاصر رہتے ہیں
تعلیمی اداروں کی اخلاقی تطہیر کے لئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے:ڈاکٹر عائشہ، نعیم صادق، مرزا علی اظہر
کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان کی 22 کروڑ سے زائد آبادی کو جس میں سے 40 فیصد 15برس سے کم عمر کے افراد ہیں تعلیم کی سہولت اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق میسر نہیں ہے۔ ان کا اسکول جانا اور تعلیم حاصل کرنا بنیادی حق ہے اور تعلیم کا حق بنیادی انسانی حقوق کے آرٹیکل 26 میں بھی درج ہے جس میں بلامعاوضہ اور لازمی ابتدائی تعلیم دینے کا کہا گیا ہے لیکن ہمارے یہاں درسگاہوں میں ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد نے اس بنیادی حق سے متعلق کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں ان خیالات کا اظہار پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے پی ایم اے ہاؤس میں پریس کانفرنس کے موقع پر کیا۔ اس موقع پرڈاکٹر عائشہ مہناز، نعیم صادق اور ڈاکٹر مرزا علی اظہر بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پی ایم اے کی مرکزی کونسل نے اپنے اجلاس منعقدہ ایبٹ آباد میں ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ درس گاہوں میں جنسی، ذہنی اورجسمانی تشدد کی روک تھام کے اقدامات یقینی بنائے جائیں کیونکہ تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات الارمنگ صورتحال ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ قومی اسمبلی نے اپنے منظور شدہ بل میں بھی جسمانی تشدد پر پابندی عائد کی ہے اس میں ذہنی اور جسمانی تشدد کا بھی اضافہ کیا جائے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو,ڈاکٹر عائشہ مہناز، نعیم صادق اور ڈاکٹر مرزا علی اظہر نے کہا کہ پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ درست اعدادوشمار کا نہ ہونا بھی ہے جس کے باعث ہم مستقبل کی منصوبہ بندی سے قاصر رہتے ہیں۔ تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں تو پھر ان اسباب و عوامل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو فروغ خواندگی میں رکاوٹ ہیں۔ عالمگیریت اور مسابقت کے اس دور میں تعلیم کو نہ صرف پہلی ترجیح کے طور پر لیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس شعبہ میں اصلاحات بھی لائی جائیں تاکہ نہ صرف معیار تعلیم بہتر ہو بلکہ خواندگی کی شرح بھی بڑھے۔ پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبے پہلے ہی سنگین مسائل سے دوچار ہیں ایسے میں زیرتعلیم طلبہ و طالبات کو ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا ہو تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حصول تعلیم آسان نہیں رہا۔ تعلیم حاصل کرنے کا حق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 26 میں درج ہے اور اس میں بلامعاوضہ اور لازمی ابتدائی تعلیم دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح 1989ء میں اپنائے گئے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن میں بھی دنیا بھر کے ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کو سب کے لئے قابل رسائی بنائیں۔ انسانی حقوق کے چارٹر میں بھی تعلیم کو بنیادی ضرورت اور حق بتایا گیا ہے اور اگر یہ ٹارگٹ حاصل نہ ہوا تو 2030ء کے پائیدار ترقی کے اہداف کبھی حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو,ڈاکٹر عائشہ مہناز، نعیم صادق اور ڈاکٹر مرزا علی اظہرنے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین میں درج طلبہ و طالبات اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ قومی اسمبلی نے جوبل منظور کیا ہے جس میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا کی ممانعت ہے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے کیونکہ جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کے واقعات صحت مند معاشرہ کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستانی قوم کو جذباتی نعروں میں الجھانے یا نان ایشوز کو اجاگر کرنے کی بجائے ضررت اس امر کی ہے کہ صحت مند اور خواندہ معاشرہ کی تشکیل میں رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ اس سارے معاملے کی وجوہات اسباب کی تشخیص کی جائے کیونکہ مرض کی تشخیص کے بغیر بڑے سے بڑا معالج اس کاعلاج نہں کرسکتا۔ موجودہ صورتحال میں حکومت اور معاشرہ دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا اپنا موثر کردار ادا کریں تاکہ ایک صاف ستھری سوسائٹی کے خدوخال ابھر کر سامنے آسکیں۔ یہ معاملہ درس گاہوں میں چند اساتذہ کا نہیں جو تشدد کا سبب بنتے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں کی اخلاقی تطہیر کا ہے جس کے لئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پہلے تجزیہ اور پھر روک تھام کی حکمت عملی وضع کی جائے، اصلاح احوال کے لئے منتظمین کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ اب معاشرہ ان باتوں سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹھوس اقدامات کے ذریعے مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک کیا جائے نیز فروغ تعلیم کے حوالے سے بنیادی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ ہے جو اب بڑھ کر 22 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جس میں مردوں کی تعداد 10 کروڑ 60 لاکھ جبکہ خواتین کی 10 کروڑ 13 لاکھ بیان کی جاتی ہے اور 40 فیصد آبادی 15 برس سے کم عمر کی ریکارڈ کی گئی تھی جن کا اسکول جانا اور تعلیم حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ایم اے کی مرکزی کونسل کے اجلاس میں منظور شدہ قرارداد پر عمل در آمد یقینی بنایا جائے اور درسگاہوں میں طلبہ و طالبات پر ذہنی، جسمانی، جنسی تشدد روکا جائے اور فروغ تعلیم کے حقیقی اقدامات کئے جائیں.