ماری ا سٹوپس سوسائٹی پاکستان کا مالی بحران شدت اختیار کرگیا۔ملازمین اور رضاکاروں میں مایوسی۔۔۔

ماری ا سٹوپس سوسائٹی پاکستان کا مالی بحران شدت اختیار کرگیا۔ملازمین اور رضاکاروں میں مایوسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سال 2021 میں گیارہ جولائی کو ورلڈ پاپولیشن ڈے کے موقع پر سب سے زیادہ مایوسی ماری اسٹوپس سوسائٹی پاکستان کے ملازمین اور رضاکاروں کے چہروں پر پھیلی ہوئی تھی کیونکہ انیس سو نوے سے پاکستان میں فیملی پلاننگ اور ری پروڈکٹو ہیلتھ کیئر کے حوالے سے شاندار اور نمایاں خدمات انجام دینے والی یہ منفرد این جی او اب اپنے زوال کی جانب گامزن نظر آتی ہے جس کی بنیادی وجہ میں جاری موجودہ انتظامیہ کی غلط اور ناقص پالیسیوں کے سر جاتی ہے جس نے ایک عالمی پہچان رکھنے والے غیر سرکاری ادارے کو مالی بحران سے دوچار کر دیا ہے اس کی عالمی اور غیر ملکی فنڈنگ میں بھی نمایاں کمی اور کٹوتی ہو چکی ہے جو اس کی ناقص کارکردگی پر انٹرنیشنل فنڈنگ دینے والوں کے عدم اعتماد کا کھلا ثبوت ہے ۔مالی مشکلات اور بحران کی وجہ سے ملازمین اور رضا کاروں کی دلچسپی اور خدمات بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں مختلف کلینک ہسپتالوں اور خواتین کو سروسز کی فراہمی کا کام بھی بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے منفی اثرات پڑ رہے ہیں ملک بھر سے شکایات آ رہی ہیں لیکن شکایات کرنے والوں کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہر کلینیک اور ہر سروسز کے حوالے سے پہلے سے مختص بجٹ اور فنڈز میں کمی اور کٹوتی کر دی گئی ہے مجموعی طور پر بد انتظامی نااہلی اور ناقص کارکردگی اور ادارے کے بحثیت اقدامات کے نتیجے میں پورا ادارہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اس صورتحال کے نتیجے میں لاکھوں خواتین صارفین کو فیملی پلاننگ اور تولیدی صحت کے حوالے سے خدمات فراہم کرنے کے معاملات ہوتے نظر آرہے ہیں اگرچہ انتظامیہ بلندوبانگ دعوے کر رہی ہے لیکن دوسری طرف زمینی حقائق ان دعوؤں کی نفی کرتے ہیں ادارے سے وابستہ ملازمین اور رضا کاروں کا کہنا ہے کہ ادارے کے اندرونی حالات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بگڑتے جا رہے ہیں اور چند لاڈلے اور چہیتی افراد کو چھوڑ کر باقی ملازمین سخت پریشان ہیں ذہنی الجھن اور مایوسی کا شکار ہیں سمجھ نہیں آرہا کہ موجودہ انتظامیہ ادارے کو کس منزل کی طرف لے جا رہی ہے جس رفتار سے ادارے کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے وہ وقت دور نظر نہیں آتا جب اس کے دفاتر اور کلینکوں پر تالے پڑ جائیں گے اور اس کے ڈاکٹر ماہرین اور رضاکار اس ادارے کو چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔اگر ایسا ہوا تو یہ بہت ہی بد قسمتی ہوگی اور انتہائی افسوسناک انجام ہوگا ۔ادارے سے پرانی وابستگی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ آج بھی ہوش کے ناخن لے اور فیصلے پسند ناپسند کی بجائے میرٹ پر کرے ، بزی ڈیٹا کی بجائے حقیقت پسندانہ ڈیٹا پر کام کرے تو اس کے نتائج بہتر مثبت آ سکتے ہیں اگر سچائی کے ساتھ کام کیا جائے تو عالمی اداروں کا اعتبار اور اعتماد بحال ہو سکتا ہے اگر سنجیدہ اور ذمہ داران اپنا رویہ بدل لیں اور اچھے لوگوں کو کام کرنے کا صحیح طریقہ سے موقع دیں تو آج بھی نہ صرف نئے منصوبے اور پروجیکٹ آگے بڑھ سکتے ہیں بلکہ جاری منصوبوں پر بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں اور نئے منصوبوں کے لئے غیر ملکی فنڈنگ کے حصول کی کوششیں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں لیکن اس کے لیے سب سے پہلے اپنی انا کو مارنا ہوگا موجودہ انتظامیہ انا پرستی کا شکار ہے اور سب ٹھیک ہے کا راگ الاپ رہی ہے جو اس کی بنیادی غلطی ہے حقائق سے نظریں چرا کر بہتر نتائج فراہم نہیں کیے جا سکتے ۔