پاکستان میں بے تکے اشتہارات بنانے میں ہوا جس کا بول بالا ۔۔۔۔۔۔نام ہے اس کا LU Gala۔۔۔۔۔

پاکستان میں بے تکے اشتہارات بنانے میں ہوا جس کا بول بالا ۔۔۔۔۔۔نام ہے اس کا LU Gala۔۔۔۔۔۔ اس کمپنی کے بے تکے اشتہار پر پیمرا کو بھی پابندی لگانا پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں یوں تو پاکستان کی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کی جانب سے بہت اعلی معیاری اور قابل تعریف اشتہارات تیار کیے گئے جن کو عالمی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہوئی بعض اشتہارات اور ان میں کام کرنے والے اداکار اور ماڈلز پاکستان کی پہچان بن گئے اور ان کے اشتہارات اتنے مقبول ہوئے کہ وہ اپنے اشتہارات سے پہچانے جانے لگے ۔۔۔۔۔ لیکن دوسری جانب ایسے اشتہارات بھی تیار ہوئے جن کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر ۔۔۔۔۔۔اتنے بےتکے اشتہار تیار کئے گئے کہ انہیں دیکھنے والے بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض حالات میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا بعض حالات اتنے خراب بنے تھے کہ ان پر لوگوں نے کمنٹس کرتے ہوئے اشتہار بنانے والوں کو کھری کھری سنائیں ۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں بسکٹ بنانے والے ایک مشہور ادارے نے اپنی ایک پروڈکٹ LU Gala بسکٹ کے لئے اشتہار بنایا جس میں مشہور فلم سٹار اور ماڈل گرل مہوش حیات کو ناچتے ہوئے دکھایا کسی اشتہار میں خٹک اور بلوچ لباس کی روایات کو بھی دکھایا گیا ۔ دو بلوچ نوجوان مہوش حیات کو پلاسٹک کے بنے ہوئے چاند سے اٹھا کر اسٹیج پر ڈانس کرنے کے لئے لاتے ہیں اور اس کے بعد مہوش حیات دیگر آرٹسٹوں کے ساتھ مل کر خوب رقص کرتی ہیں اس اشتہار پر کافی کمنٹس آئے اور تنقید بھی کی گئی ۔یہ وہی اشتہار ہے

جس پر مشہور صحافی انصار عباسی نے تبصرہ کیا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔بسکٹ بیچنے کے لئے اب ٹی وی چینلز پر مجرہ چلے گا ۔۔۔پیمرا نام کا کوئی ادارہ ہے یہاں ؟۔۔۔عمران خان اور پی ٹی آئی والے اس معاملے پر کوئی ایکشن لیں گے ؟۔۔۔۔۔کیا پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انصار عباسی کے اس تبصرے کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے علی محمد خان کا تبصرہ سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ پرائم منسٹر عمران خان اور پی ٹی آئی والے اس طرح کے اسلام مخالف اور ہماری روایات کے برعکس معاملات کے سخت خلاف ہیں کیوں کہ یہ معاملات ہمارے نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔اسلام میں ریاست میں اس طرح کے معاملات کی کوئی گنجائش نہیں وہ مملکت جو کلمہ طیبہ کے نام پر بنی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرف سے صاف ظاہر ہو گیا تھا کہ حکومت نے انصار عباسی کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات پر نوٹس لیا ہے ۔جب کہ وفاقی وزیر فواد چودھری اس طرح کے تبصروں سے متفق نہیں تھے ان کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹے فحاشی کیوں سرچ کرتے رہتے ہیں

کوئی پروڈکٹو کام کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوشل میڈیا پر اس بات پر نئی بحث چھڑ گئی تھی

اور انصار عباسی کی حمایت اور مخالفت میں کافی تبصرے آئے ۔۔۔۔۔۔۔ بعض خواتین کا کہنا تھا کہ جس ملک میں پروفیسروں کو قتل کردیا جاتا ہے بچوں کو اسکولوں میں جانا مشکل ہے جنسی تشدد اپنی انتہا پر ہے وہاں لوگوں کو بسکٹ کے اشتہارات سے کیا پرابلم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف یہ تبصرے سامنے آرہے تھے کہ کیا بسکٹ بیچنے کے لئے ناچ گانا ضروری ہے کیا مہوش حیات کو نچائے بغیر بسکٹ نہیں بیچےجا سکتے تھے ۔۔۔۔۔ ایسے صارفین کی بڑی تعداد تھی جنہوں نے کمنٹس کیے کہ ہمارے اشتہارات بے تکے ہوتے ہیں لہذا ایسے اشتہارات کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر پیمرا کی جانب سے ایکشن لیا گیا اور LU Gala بسکٹ کا مہوش حیات والا اشتہار پابندی کی زد میں آگیا اس سلسلے میں ٹی وی چینلز کو ایمرا کی جانب سے تحریری ہدایات موصول ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

اشتہار پر پابندی لگنے کے بعد نئی بحث چھڑ گئی کچھ لوگ اس کے حق میں اور کچھ اس کے خلاف تبصرے کر رہے تھے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اشتہارات کو اس انداز میں بنایا جائے کہ وہاں نظر آنے والا ماحول اس پروڈکٹ سے مطابقت رکھتا ہو۔
اس اشتہار کی وجہ سے LU Gala بسکٹ بنانے والی کمپنی اور اس کے اشتہارات تیار کرنے والی کمپنی کی کافی جگ ہنسائی اور بدنامی ہوئی ۔
——————–


———————-