بسکٹ انڈسٹری ۔زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں کو بدلے میں کیا مل رہا ہے ؟…۔

بسکٹ انڈسٹری ۔زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں کو بدلے میں کیا مل رہا ہے ؟…۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا بھر میں بسکٹ انڈسٹری منافع کما رہی ہے بڑی بڑی ملٹی نیشنل بسکٹ کمپنیاں اپنا دائرہ کار وسیع کر رہی ہیں اور وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ٹیکسوں اور ڈیوٹی کی مد میں سرکاری خزانے میں جمع کر اتی ہیں اس طرح یہ ٹکٹ انڈسٹری دنیا بھر میں مختلف ملکوں کی معیشت میں ٹیکس جمع کرنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں بدلے میں مختلف ملکوں کی حکومتیں انہیں سازگار کاروباری ماحول اور بہترین انفراسٹرکچر کی فراہمی یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں بھی بسکٹ انڈسٹری اربوں روپے کمانے والی انڈسٹری ہے ملک بھر میں بہت سی بس کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں غیر ملکی بھی ہیں اور ملکی کمپنیاں میں ۔کچھ کمپنیاں اتنی مالدار اور قابل اعتبار ہے کہ انہوں نے اپنا ہر کام عالمی معیار کے مطابق شروع کر رکھا ہے اور ان کی فیکٹریاں سیفٹی اور ماحولیاتی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں اور ان کی مصنوعات اور مختلف برانڈز بھی اعلیٰ معیار کے عین مطابق ہوتے ہیں تمام انٹرنیشنل اسٹینڈرز کو برقرار رکھتے ہیں اسی لیے ان کی مصنوعات کی زبردست ڈیمانڈ ہے اور مقبولیت بھی ہے جیسے برقرار رکھنے کے لئے یہ کمپنیاں سخت محنت کرتی ہیں اور جارحانہ مارکیٹنگ اور مقابلے کی دوڑ میں شامل رہتی ہیں اور اچھی ریونیو اور منافع کماتی ہیں اور سرکاری خزانے میں اچھا خاصہ ٹیکس بھی جمع کر آتی ہے اپنے ورکرز کا بھی خیال رکھتی ہیں اور ان کی بہتری اور بھلائی پر بھی پیسے خرچ کرتی ہیں لیکن بدلے میں سرکاری سطح پر ان کو وہ سہولتیں اور انفراسٹرکچر کی بہترین نہیں مل رہی جس کی ضرورت ہے جن علاقوں میں یہ فیکٹریاں قائم ہے اور وہاں پر آنا جانا سڑکوں کی خستہ حالی پانی بجلی گیس کی فراہمی ایک مسئلہ ہے چیلنج ہے امن و امان کی صورتحال اور ٹرانسپورٹ کے فقدان کی وجہ سے لیبر کو بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔ دوسری طرف بڑی تعداد میں جو کمپنیاں ٹیکس ادا کر رہی ہیں ان کو مارکیٹ میں جعلی اور دو نمبر بسکٹ بنانے والی کمپنیوں کے پیدا کردہ مسائل سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے ملک بھر میں مشہور برانڈز اور بڑی کمپنیوں کی نقل اور جعل سازی کا کام عروج پر ہے اور نقل اور جعلسازی کرنے والے نہ ٹیکس ادا کرتے ہیں نہ کسی قسم کی ڈیوٹی دیتے ہیں نا اپنے ملازمین کے لیے پیسے خرچ کر تے ہیں سارا بہت اچھے طریقے سے صاف ستھرا کام کرنے والی کمپنیوں پر ہے سرکاری ادارے اور ایس او پی پر عمل درآمد کرانے والے حکام بھی انہیں کمپنیوں پر فو کس رکھتے ہیں جو کمپنیاں اور عناصر دو نمبر کام کر رہے ہیں جعلسازی سے مختلف برانڈ کے بسکٹ بیچ رہے ہیں ان کی کوئی پکڑ نہیں ہو رہی وہ کھلے عام اپنا دو نمبر کا بزنس کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کی ڈسٹرکٹ انڈسٹری کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے چیلنجز کا سامنا ہے بجلی پانی گیس تمام یوٹیلیٹی مہنگی ہوگئی ہیں اور مہنگائی کے باوجود دستیاب ہی نہیں ہے مشکلات کی وجہ سے انڈسٹری کے پروڈکشن کے معاملات ڈسٹرب ہو رہے ہیں بجلی نہ ہو تو جنریٹر چلانے پر کاسٹ بڑھ جاتی ہے گیس نہ ہو تو پلانٹ پر کام رک جاتا ہے پانی نہ ہو تو پانی خریدنا پڑتا ہے اور مہنگے داموں ملتا ہے ملک میں چینی کی قیمت بھی مزید مہنگائی کا باعث بن رہی ہے بسکٹ اینڈ کنفیکشنری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اس سلسلے میں اپنا رونا روتی رہتی ہے ملک میں بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل حکومت اور متعلقہ شخصیات کی بھر پور توجہ کے متقاضی ہیں شوگر پرائس میں ٹی سی پی اپنا کردار ادا نہیں کر رہی حالانکہ ٹی سی بھی کا کردار بہت اہم ہے قیمت کے توازن میں ۔لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی سی پی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے ۔بسکٹ کمپنیوں نے مہنگائی کے اس دور میں اپنے لاگت کے اخراجات میں کمی لانے کے لیے مختلف اقدامات اور راستے ڈھونڈے ہیں ڈسٹرکٹ کمپنیوں نے بچوں کے لیے بننے والے ٹی پیک میں بسکٹوں کی تعداد اور وزن کم کر دیا ہے ۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی کافی تنقید اور بحث سامنے آ چکی ہے خاص طور پر سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی شخصیت کافی زیر بحث آئی ہے ان کی کمپنی بچوں کے پسندیدہ بسکٹ کوکومو پیک تیار کرتی ہے اسماعیل انڈسٹریز بسکونی کے تیار کردہ کوکومو بیک بہت مشہور ہیں ایک انٹرویو میں مفتاح اسماعیل نے پانچ روپے کے بیک میں چار بسکٹ ڈالنے کا دعوی کیا تھا لیکن سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس دعوے کو جھٹلا دیا اور مختلف ویڈیوز بھی اپ لوڈ کی گئی ٹوئٹر پر اس حوالے سے ایک ٹاپ ٹرینڈ بھی بنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔#5CocomoMujheBhiDo ……جس میں سنگر علی گل پیر نے بھی مس اسماعیل کو مخاطب کیا اور کہا کہ ہر پیک میں پانچ کوکومو ہونی چاہیے ریما عمر نے بھی لکھا تھا کہ تین بسکٹ نکلے ہیں وہ بھی ٹوٹے ہوئے ۔پھر انہوں نے چھ مئی کو ایک ویڈیو بھی دکھائیں جس میں قینچی سے پیکٹ کھولا تو اندر سے تین بسکٹ نکلے ۔۔۔۔۔اس پر لوگوں نے کافی کمنٹس دیے اور ایک نیا ٹرینڈ چلا JusticeForCocomoConsumer …….لوگوں نے لکھا کہ بسکنی کے پیک میں چھ بسکٹ ہوتے تھے آج تین بسکٹ رہ گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔جب مفتاح اسماعیل اور ان کی کمپنی کے حوالے سے کافی کمنٹس آئے اور بحث ہوئی تو پھر انہی وضاحت دینی پڑی کہ مہنگائی کی وجہ سے بیک میں بسکٹ کی تعداد کم ہو چکی ہے کیونکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت نے اتنی مہنگائی کرتی ہے کہ اب یہ کام وارے میں نہیں آ رہا ۔مفتاح اسماعیل کے پی ٹی آئی عمران خان کے بارے میں کمنٹ پر ایک نئی بحث چھڑ گئی اور پی ٹی آئی کے ہمدردوں اور حمایتیوں نے مفتاح اسماعیل کو مزید آڑے ہاتھوں لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف بسکٹ کمپنیوں کی جانب سے یہ بات بار بار کہی جا رہی ہے کہ ملک بھر میں جعلسازی اور نقلی طریقے سے جو بسکٹ بک رہے ہیں درحقیقت وہ پاکستانی معیشت کے دشمن ہیں اور پاکستانی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکس نہیں دے رہے اگر یہ تمام بسکٹ جو دو نمبر طریقے سے اور جعلسازی سے نقل کرکے بیچے جارہے ہیں اگر ٹیکس نیٹ میں آجائیں تو سرکاری خزانے کو بھاری رقم حاصل ہو سکتی ہے پاکستان میں اس وقت انگلش بسکٹ مینوفیکچررز EBM ای بی ایم ۔۔۔۔۔کانٹینینٹل بسکٹ LU Biscuits اور اسماعیل انڈسٹریز سمیت مختلف مٹی نیشنل اور پاکستانی کمپنیاں بسکٹ انڈسٹری میں اچھا کاروبار کررہی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کمپنیوں کے جائز مطالبات پر غور کیا جائے اور ان کے لیے اچھا انفراسٹرکچر فراہم کیا جائے اور مارکیٹ میں ان کے خلاف ہونے والی جعلسازی کو روکا جائے آخر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والی ان کمپنیوں کا قصور کیا ہے اور ہر سال سرکاری خزانے میں بڑے پیمانے پر ٹیکس اور ڈیوٹی جمع کرانے والی ان کمپنیوں کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے ۔
————————
Salik-Majeed———whatsapp……..92-300-9253034