پاکستان میں بسکٹ انڈسٹری کو جعلسازی کے مسائل کا سامنا ۔۔اربوں روپے کا ٹیکس چوری ہو رہا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم عمران خان اور شوکت ترین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جو ٹیکس نہیں دے گا وہ جیل جائے گا یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں بے شمار ایسی اشیا اور مصنوعات ہیں جن کی جعل سازی کے ذریعے قومی سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور جعلساز ان اشیاء کی نقل اور کافی تیار کرکے باآسانی مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں نہ کوئی ٹیکس دیتے ہیں نہ ڈیوٹی ادا کرتے ہیں نا کسی پکڑ میں آتے ہیں نہ ان کی کوئی ذمہ داری ہے نہ ان سے کوئی پوچھے کر سکتا ہے ان کا کام ملی بھگت کے ذریعے سو فیصد فراڈ پر چل رہا ہے اگر صرف بسکٹ انڈسٹری کا ذکر ہی کر لیں تو اربوں روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے بڑی بڑی سرمایہ کاری کرنے والی ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے مشہور برانڈ کی نقل تیار کرکے

یہ جعلساز اور فراڈیے پورے ملک میں ان برانڈز کی فروخت کر رہے ہیں اور اپنی جیبیں گرم کر رہے ہیں ان کو پکڑنے والا کوئی نہیں ہے یہ غیر معیاری اور ناقص بسکٹ تیار کرکے مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں اور بڑی بڑی کمپنیوں کے لیے بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں دوسری طرف ملکی اور غیر ملکی مشہور کمپنیوں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے بڑے بڑے پلانٹ لگا رکھے ہیں ہر قسم کی ڈیوٹی اورٹیکس ادا کرتے ہیں ماحول دوست اقدامات کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں اپنے اسٹاف کو بہترین ماحول فراہم کرنے کے لئے اخراجات کرتے ہیں اور عوام کی بہتر صحت کے لحاظ سے نہایت اچھی اعلیٰ اور معیاری مصنوعات تیار کرکے انٹرنیشنل اسٹینڈرز کے مطابق اپنی مصنوعات اور پروڈکٹس کی فروخت کرتے ہیں لیکن پورے ملک میں ان کی نقل تیار کرکے جعلساز انہی کی کمپنیوں کے برانڈ کو فروخت کر رہے ہیں خوب نام کمارہے ہیں اور یہ کمپنیاں ان کا منہ تک رہی ہیں کیونکہ بار بار شکایات کے باوجود اس مافیا کو پکڑنے والا کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کی بسکٹ انڈسٹری میں سب سے زیادہ ریونیو کمانے والا بسکٹ سوپر بسکٹ ہے جو ای بی ایم انگلش بسکٹ مینوفیکچررز کا قابل فخر مشہور اور سب سے زیادہ فروخت کا ریکارڈ قائم کرنے والا بسکٹ ہے لیکن اس کمپنی کے ذمہ دار بتاتے ہیں کہ پورے سندھ میں آپ کو ہر جگہ فیک Fake Sooper Biscuits سوپر بسکٹ فروخت ہوتے ہوئے ملیں گے یہی حال Rio , peanut pista ,Ringo Biscuits , اور دیگر برانڈز کا ہے ۔ انڈسٹری کے ذمہ دار اور تجربہ کار لوگوں کا بتانا ہے کہ پہلے صرف یہ سمجھا جاتا تھا کہ پاکستان میں جعلسازی سے غیر معیاری بسکٹ بنانے والے صرف غیر ملکی برانڈڈ کو کاپی کرتے ہیں اور ان کی نقل مارکیٹ میں بھیجتے ہیں لیکن مارکیٹ کے سروے سے یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ جعلسازوں اور نقالوں نےاپنا نیٹ ورک اتنا بڑھا لیا ہے کہ مقامی بزنس انڈسٹری کو بھی بری طرح متاثر کر رہے ہیں ۔اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل ہیلپ لائن ٹرسٹ کے ایک سیمینار میں انگلش بسکٹ مینوفیکچر کی جانب سے ان کی انتظامیہ کے ایک شخص نے باقاعدہ جعلسازی سے تیار ہونے والے بسکٹ کے سیمپل بھی لوگوں کے سامنے پیش کیے تھے اور اب انڈسٹری میں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ بڑے بڑے برانڈز کے جعلی بسکٹ مارکیٹ میں فروخت ہونے لگے ہیں ۔ایک سیمینار میں ہیلتھ ماہرین نے بتایا تھا کہ غیر معیاری ادویات کی طرح غیر معیاری فوڈ ز بھی صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہیں اور خاص طور پر بچوں کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ملک میں بسکٹ کی زیادہ خواب بچوں کے لیے ہوتی ہے چھوٹے سستے اور ٹکی پیک بسکٹ عام طور پر بچے اسکول جاتے ہوئے خریدتے ہیں اگر انہیں جعلی اور نقلی کمپنیوں کے غیر معیاری بسکٹ کھانے کو ملیں گے تو ان کی صحت یقینی طور پر خراب ہوگی یہ ایک بہت سیریس مسئلہ ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی جا رہی ۔ماہرین کے مطابق جعلسازوں اور نقل سازوں کی وجہ سے سرکاری خزانے کو 12 سے 15 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے اب یہ چھوٹے چھوٹے ٹکی پیک والے بسکٹ کی نقل تیار کرنے والے چور درحقیقت چھوٹے چور نہیں رہے ۔ان چوروں کی باقاعدہ ایک چین آف مینوفیکچررز اور ڈسٹریبیوٹر اور سیلز بنی ہوئی ہے آپ ان کو ایک جگہ سے پکڑوا دی گے تو یہ دوسری جگہ نمودار ہو جائیں گے ان کا نیٹ ورک بہت گہرا اور منظم ہے ۔پاکستان میں نارتھ امریکن کلائنٹ کی ایک بھاری کنسائنمنٹ پکڑی گئی پانچ کنٹینرز پکڑے گئے تو پتہ چلا کہ اعلی معیار کی قیمتیں پروڈکٹس کی

نقل تیار کی گئی تھی اس واقعے کے بعد سرمایہ کار کمپنی نے اپنا بزنس بنگلہ دیش اور ویت نام لے جانے پر غور شروع کر دیا تھا ۔جعلی اور نقلی بسکٹ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والوں کے خلاف قوانین اتنے سخت نہیں ہیں اور وہ قوانین کے سقم کا فائدہ اٹھاتے ہیں اگر پکڑے جائیں تو جلد ان کی ضمانت ہوجاتی ہے اور معمولی جرمانہ ہوتے ہیں اس لیے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں کیسز اتنے لمبے عرصے تک چلتے ہیں کہ کیس کا فیصلہ آنے تک جعلساز اور نقل ساز مارکیٹ میں جعلی اشیاء فروخت کر کے خوب سرمایہ اکٹھا کر لیتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے ایک سیمینار میں ادویات سازی سے منسلک ایک بڑی شخصیت نے بتایا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کے پاس شکایت کا انبار لگا ہوا ہے ہمارے اسپتالوں کا نچلا عملہ پیکیجز اور بوتلیں جمع کرکے گلوکوز دوبارہ بھر دیتا ہے ہر قسم کی چوری اور لوٹ مار ہوتی ہے اور لوگوں کی صحت اور زندگیوں سے کھیلا جاتا ہے ۔پاکستان میں پی ایس کیو سی اے psqca اور اب تو صوبوں میں صوبائی فوڈ اتھارٹی جیسے ادارے بھی کام کر رہے ہیں اور ان کا کام ہے کہ ان چیزوں کے معیار کو دیکھیں اور غیر معیاری نقلی اور جعل سازی کے ذریعے تیار کی جانے والی کھانے پینے کی چیزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں اور ان کی فروخت کو روکیں اس حوالے سے ایف آئی اے کے پاس بھی سکھایا جاتی رہتی ہیں کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت بھی کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے ٹریڈمارک آرڈینینس اور پیٹنٹ آرڈینینس بھی لایا گیا تھا ۔اس حوالے سے قوانین متعارف کرانے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔پاکستان میں وسیع سرمایہ کاری کرکے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے والی بسکٹ فیکٹری اور کمپنیاں کب تک ان جعل سازوں کی وجہ سے نقصان برداشت کرتی رہیں گی اور کب تک یہ جعلساز اور نقلی مال تیار کرکے بڑے برانڈز کے نام پر فروخت کر کے لوگوں کی صحت اور زندگیوں سے کھیلتے رہیں گے یہ بہترین وقت ہے جب وزیراعظم عمران خان اور شوکت ترین نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ٹیکس چوروں کو جیل میں ڈالا جائے گا اب جلی بسکٹ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء بنانے والوں کو بھی جیل میں ڈالا جائے یہ لوگ جعلی بسکٹ تیار کرتے ہیں ٹیکس ادا نہیں کرتے اور سرکاری خزانے کو ہر سال اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
————————–

Salik-Majeed——-whatsapp—-92-300-9253034