نیشنل بنک آف پاکستان کا کرپشن بھوت ناتھ -ڈیسیزڈ سنز کے لیئے


NBP کا کرپشن بھوت ناتھ ڈیسیزڈ سنز کے لیئے
تحریر
محمد عمر فاروق خان بہاولپور
03126812942
03216824813

دوران سروس انتقال کر جانے والے ملازمین کے کسی ایک وارث کوتو ادارے نے نوکری تو دینی ہی ہے اس پر بحث ہی نہیں بنتی۔NBP حکام نے ایک وطیرہ بنا لیا ہے کہ جس ملازم کی کوئی مظبوط سیاسی بنیاد یا تعلق داری خاص نہ ہے اس مرحوم ملازم کے بچے کو نوکری دینے کی بجائے اس کے حصے کی نوکری یا تو بیچ دی گئی یا سیاسی بھرتی یا چاچوں ماموں کو بھرتی کر لیا گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کرپشن کی اس گنگا میں NBP کے ڈائریکٹرز،ایچ آر ڈیپارٹمینٹ نے ملکر خوب اشنان کیا اور کر رہے ہیں۔یہ جو سنیارٹی کے نام پر ڈرامہ رچایا اور عدلیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے اس کے دو حصے ہیں۔
1۔پہلا جن مرحوم ملازمین کے وارث بالغ تھے اور انہوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد فوری طور پر اپلائی کیا جیسے محمد عمر فاروق ولد محمد حیات خان مرحوم OGIII ڈی سی کورٹ برانچ بہاولپور ہے جس نے1996 میں والد کی ڈیتھ کے بعد فوری طور پر اپریل1996 میں نوکری کے لیئے اپلائی کیا اور بنک حکام اس کو کئی سال ٹرخاتے رہے کہ کیس گیا ہوا ہے نوکری ملنے میں وقت لگے گا مل جائے گی آپ انتظار کرو۔1996 سے لے کر 2004 تک یہ اسی ڈگر پر قائم رہے اس کے بعد ایچ آر ہیڈبہاولپور نے یہ لیٹر بھیج دیا کے تمہارے والد کی ڈیتھ دوران سروس نہیں ہے(سارا ریکارڈ موجود و عدالت عالیہ میں موجود ہے)کے بعد محمد عمر فاروق سمیت تمام مرحوم ملازمین کے یتیم بچوں کو ٹرخا کر کورٹس (عدلیہ)کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا اور خود سکون سے کرپشن کی بارش میں مزے لیتے رہے۔

2۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ملازمین جن کا انتقال دوران سروس ہوا اور ان کا کوئی وارث بالغ نہیں تھا اور وہ نوکری کے لیئے اپلائی نہیں کر سکتے تھے اس پر بنک حکام کی موجیں لگ گئیں اور اپنی مرضی پر نوکریاں بیچی گئیں یا سیاسی بندر باٹ کی گئی اور اپنی مرضی کے لوگ بھرتی کر لیئے گئے۔بنک کی جاری کردہ سنیارٹی لسٹ اسی ڈرامے کا ایک سکرپٹ ہے۔
اب اگر ذہن پر زور دیا جائے تو اور ریکارڈ دیکھا جائے اور اس وقت کے نیوز پیپر دیکھے جائیں تو ڈاکٹر ابرا ر اینڈ کمپنی کیوں بنک چھوڑ کر فرار ہوئی؟
علی رضا کو کئی بار بطور صدر ایکسٹینشن دینے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے علی رضا کو کسی بھی پبلک عہدے کے لیئے نااہل قرار دیا تھا مگر گیلانی صاحب کی پشت پناہی ہونے کی وجہ سے علی رضا کو صدرNBP تو ہٹا دیا گیا مگر چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز لگا دیا گیا۔جبکہ الیکشن سے قبل PPP کا ایجنڈا یہ تھا کہ ہر گھر سے ایک سرکاری ملازم رکھا جائے گا۔(مگر ایسا کبھی عمل نہیں کیا گیا)


قابل ذکر بات یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ واضح لکھا ہوا ہے کہ بنک ڈائریکٹرز کوئی بھی پالیسی بنانے کا اختیار نہیں رکھتے۔
کئی کیسز میں بنک حکام اور ان کے چاکر وکیل عدلیہ میں کئی بار بے عزت ہوئے اور یہاں تک کہ ایک کیس شعبان vs صدر نیشنل بنک وغیرہ میں عدالت عالیہ بہاولپور بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آپ نوکری دے رہے ہیں یا آپ کے وارنٹ نوٹس جاری کیئے جائیں؟(فیصلہ موجودہے)اس پر ایچ آر کے نمائندے منصور قریشی نے کہا کہ ہمارے ادارے کا صدر نہیں ہے جب وہ آئے گا تو فیصلے پر عملدرآمد کر دیا جائے گا۔جس پر عدالت عالیہ کے جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ عدلیہ کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟ اتنا بڑا ادارہ بنا سربراہ کیسے چل رہا ہے؟اور بنک کو اگلے دن شعبان کا نوکری کا لیٹر دینے کو کہا مگر شعبان کی بد قسمتی کہ اگلے دن جج صاحب چھٹی پر تھے اور بنک حکام عدلیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل گئے اور وہ نوکری ملنے سے رہ گیا۔مگر منصور قریشی کو اسکے عہدے سے ہٹا دیا گیا (بنک کی طرف سے)اس معاملے میں NAB چیئرمین اور انکی انوسٹیگشن ٹیم اورFIA کی ٹیم نے بھی اس معاملے کو سیریس نہ لے کر یتیموں اور ان کے اہل خانہ کی بددعاؤں کے حقدار بنے اور اس سلسلے میں ان کو جو بھی درخواستیں دی گئیں انکے جواب پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کرنے والا کیوں بچ جاتا ہے؟نیب نے مدعی عمر فاروق کو ایک بار بھی نہیں سنا نا کوئی ریکارڈ یا ثبوت طلب کیئے۔۔۔۔۔۔
یہ جو جعلی فرضی اور نام نہاد سنیارٹی لسٹ جو کہ سپریم کورٹ کے آرڈر کے مطابق بنانی تھی جو NBP حکام نے 19 ماہ میں تیار کی اور یہ لسٹ ایک کراماتی لسٹ ہے جسے NBP میں موجود ولی اللہ لوگوں نے تیار کی ہے۔
کوئی امیدوار باپ کی وفات کے دو سال بعد پیدا ہوا کوئی 2003، 2000،2005،2007 میں پیدا ہورہا ہے۔ اس لسٹ کی تیاری میں درخواستوں کی طلبی کی آخری تاریخ 05 مئی 2017 رکھی گئی تھی۔اور یہ لسٹ فروری 2018 میں پبلش کی گئی ہے۔
لسٹ میں شامل خواتین کی85% شادی شدہ ہیں (بنک کے جانب شرائط میں یہ شامل ہے کہ شادی شدہ خواتین اپلائی نہیں کر سکتیں)سرحد کو لوگ پنجاب میں،پنجاب کے لوگ سندھ میں،سندھ کے لوگ پنجاب میں شامل کیئے ہوئے ہوے ہیں۔
ایک خاندان کے تین تین لوگ ڈالے ہوئے ہیں درجنوں ملازمین کےPF نمبرز اور بے شمار ڈیٹا جعلی اور فرضی ہے۔اصل یتیم بچوں کو انکے حق سے محروم کرنے کے لیئے کسی کو دو دو شہروں میں فوت دکھایا گیا ہے،1996 سے لیکر 2009 تک دیسیزڈ ملازمین کے بچوں کے ساتھ امتیازی،غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک برتا جار ہا ہے۔اس سے قبل اور بعد میں وفات پاجانے والے ملازمین کے بچوں کو جن میں قابل ذکر طور پر عظمیٰ رشید دختر محمد رشید مرحوم جس کی وفات 1989 میں ہوئی تب موصوفہ سکول کی طالب علم تھیں جن کو میٹرک کرنے کے بعد اور 18 سال کی عمر ہونے پر 1993/94 میں بنک میں نوکری دے دی گئی موصوفہ کی پیدائش 1975 کی ہے (ریکارڈموجود ہے) قابل عزت عدالت عالیہ نے اس سمیت کئی اور لوگ جو بھرتی کیئے گئے تھے کا ریکارڈ آرڈربتاریخ 11-06-2009 کوپیش کرنے کا حکم دیا
1520/2007رٹ پٹیشن میں مگر بنک حکام نے حکم کی تعمیل نہ کی۔آرٹیکل 25 آئین پاکستان کا اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے شہریوں سے امتیازی سلوک و ذاتی پسند نا پسند کی نفی کرتا ہے۔بنک کے اپنے سرکلر 13999/2004 دسمبر کے مطابق یتیم بچوں کی فوری بھرتی کا حکم دیتا ہے اور یہ سرکلر تاحال فعال ہے جس کو عدالت عالیہ لاہور ہائی کورٹ بنچ نے اپنے آرڈر دسمبر 2019 میں کاپی کرتے ہوئے مدعی علی عرفان vs نیشنل بنک آف پاکستان وغیرہ کو نوکری دینے کا حکم فرمایا۔
یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ 1995 سے 2009 تک فوت شدگان ملازمین کے بچوں کو ان کا ھق دینے کی بجائے ذاتی پسند،سفارش اور کرپشن کی بنیاد پر ان کی نوکریوں کو بیچ دیا گیا جس میں اس وقت کے منیجر ڈی سی کورٹ برانچ کے بیٹے عامر عباسی و دیگر لوگ شامل ہیں کا ریکارڈ عدالت عالیہ نے اپنے آرڈر مورخہ 11-06-2009 رٹ پٹیشن1520/2007 میں بھی طلب کیا تھاجو آج تک جمع نہ کروایا گیا۔یتیم بچوں کو ان کا حق نہ دینے کے لیئے بنک حکام نے اپنی کرپشن کو شیلٹر دینے کے لیئے خود ساختہ ٹرمنالوجی پیشہ ورانہ ڈیتھ سامنے لاکر (جسکی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی)درجنوں یتیم بچوں کو انکے حق سے محروم کرکے انکے خاندانوں کو تباہی کی طرف دھکیل دیا (پنشن سٹوری اگلی دفعہ پیش کی جائے گی)اور اپنی پسندکے لوگوں کو نوازنے کا عمل جاری تھا اور ہے کئی لوگ جو نوازے گئے ان میں جاوید ول محمد شفیع،سید تنویر،محمد نوید،عامر،فرحان،ذوالقرنین،علی رضا،عامرریحان،عامر بلال،عظمیٰ،فرحان ولد لقمانشامل ہیں۔فرحان کا رشتے دار جمشید ضیاء ایچ آر ونگ میں تھا اس کو فوری طور پر نوکری دے دی گئی۔اس کے علاوہ بھی کئی لوگ شامل ہیں جن کا ریکارڈ اور نام عدالت عالیہ میں پیش کردہ ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ نے10-12-2013 رٹ پٹیشن 52-A/2013 کو وقاصvs فیڈرل گورنمنٹ وغیرہ میں وقاص کو نوکری دینے کا کہا اس آرڈر کے خلاف NBP اپیل CP 235/2014 میں گیا جہاں اپیل خارج ہوگئی۔BNP کے ریویوبھی خارج ہوئے۔
دوسرا کیس پشاور ہائی کورٹ سے ہی رٹ پٹیشن نمبر218-A/2014 ذوالفقار vs فیڈرل گورنمنٹ 11-03-2015 کو بنک کے خلاف ہوا اور تیسرا فیصلہ بھی پشاور ہائی کورٹ سے رٹ پٹیشن نمبر3328-P/2014 ذوالقرنین vs نیشنل بنک آف پاکستان کیخلاف 01-12-2015 ہوا اور ان تمام آرڈرز کی تعمیل کی گئی
٭ مگر رٹ پٹیشن1520/2007محمد عمر فاروق vs صدر نیشنل بنک وغیرہ کے آرڈر27-04-2010 کی تعمیل نہ کی گئی یہاں تک کہ اس کیس میں تعمیل نہ کرنے پر توہین عدالت Crg-org11/2013 میں ایک ماہ کے اندر جاب لیٹر جاری کرنے کا حکم دیا جسے NBP حکام نے ہوا میں اڑا دیا۔رٹ پٹیشن 1667/2014Crg-org کے فیصلے 12-12-2014 کے فیصلے پھرCrg-org667/2015 کے فیصلے20-01-2016 کے بعد Crg-org 425/2016 اورICA-97-2017 کے فیصلے 11-05-2017 اور اب 1181-21 رٹ پٹیشن کے فیصلے 11-02-21 کو کسی خاطر میں نہیں لائے۔
بنک حکام نے رٹ پٹیشن 2845P/2014 میں کہا کہ ان کے پاس 13402 درخواستیں ملی ہیں نوکریوں کے لیئے جن میں سے 1414 نا مکمل تھیں جو ریجکٹ کر دی گئیں شارٹ لست کرنے کے بعد 11988 کو سننے کے بعد 6937 کو لیٹرز جاری کیئے گئے جن میں سے صرف 4919 تحریری ٹسٹ کلیریکل کیڈر کے لیئے لوگ شامل ہوئے۔اس میں اہم بات یہ ہے کہ دوران سروس وفات پاجانے والے بچوں کو نوکری دینے کے لیئے کسی بھی ٹسٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جس کا سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ نے بھی کلیئر کر دیا اپنے آرڈرز میں۔ان سب احکامات کو پس پشت ڈال کر یتیم بچوں سے ٹسٹ بھی لیئے گئے اور کامیاب ہونے والوں کو ٹرک کی بتی کی پیچھے لگاکر ان سب کو عدلیہ کی طرف بھیج دیا گیا اور کئی تو ویسے ہی ہٹ گئے کہ یہ سب بنک حکام کا ٹوپی ڈرامہ ہے۔تمام ثبوت موجود ہیں۔
اب اس ڈرامے کے دوسرے رخ کی طرف دیکھتے ہیں۔
بنک حکام نے اپنے ایک لیٹر نمبرRo/BD-HRMEA/Leagle/2017/11110 میں کہا کہ ان پاس 13000 ہزار درخواستیں آئیں اور 6937 اہل امید واروں کو لیٹر جاری کیئے گئے صرف 4919 لوگ ٹسٹ میں شریک ہوئے۔یہ سب ٹوپی ڈرامہ اس لیئے کیا گیا کہ جو لوگ برسوں سے نوکری کے لیئے مارے مارے پھر رہے تھے جیسے محمد عمر فاروق ولد محمد حیات خان مرحوم سمیت یہ سب اوور ایج ہو جائیں اور ان کو اس بنیاد پر نوکری کے لیئے نااہل کر کے اپنے لوگوں کو بھرتی کیا جاسکے۔
بنک کی ہی بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ 4919 لوگ آئے تھے ٹسٹ کے لیئے تو اس ٹسٹ کو ان پڑھ،پرائمری اور مڈل لوگوں نے یہ ٹسٹ کیسے کلیئر کرلیا؟
جب لسٹ پبلش کی گئی تو 4919 میں سے کیا صرف 522 لوگ ہی ان کے پاس بچے؟
باقی 4397 لوگ کہاں گئے؟
پہلے بھی یہ ذکر کر چکا ہوں کہ یہ لسٹ کا صرف تماشہ صرف ایک ڈرامے کا حصہ ہے یہ صرف یتیم بچوں کو دھکے کھانے عدالتوں کے چکر لگوانے ان کی کمزور معاشی حالت کو مزید کمزور کرنے کے لیئے کیا گیا ہے۔
2014 میں آنرایبل ہائی کورٹ پشاور کا فیصلہ آنے کے باوجود اور 2015 میں آنرایبل سپریم کورٹ سے بنک اپیل خارج ہونے باوجود بنک حکام نے یتیم بچوں کو ٹسٹ انٹرویو کے ڈرامے میں الجھائے رکھا اور جب دیکھا کہ آنرایبل ہائی کورٹس سے کئی فیصلے بنک کے خلاف ہوگئے تو عدلیہ کو مختلف حیلے بہانوں سے چکر دیتے رہے۔
٭اس سے قبل کرمنل اوریجنل97/2017 محمد عمرفاروق vs صدراحمد اقبال اشرفNBP وغیرہ کے فیصلے 11-05-17 میں عدالت عالیہ سے 90 دن میں نوکری دینے کا وقت مانگ کر گئے تھے جس کو NBP حکام نے ہوا میں اڑادیا۔

٭کرمنل اوریجنل 667/2015 کے فیصلے میں بنک حکام نے 20-01-2016 کے فیصلے میں 31 مارچ 2016تک نوکری دینے کا کہا تھا یہ فیصلہ بھی بنک کی ہٹ دھرمی کی نظر ہوگیا
محمد عمرفاروق vs صدرنیشنل بنک آف پاکستان کرمنل اوریجنل رٹ پٹیشن نمبر 807/17 میں بنک حکام نے اپنے ایک بیان حلفی 90
لوگوں کو نوکری دے دینے کا 30-08-2018 کا جمع کروایا اور یہاں بھی عدالت عالیہ کی نظروں میں دھول جھونک گئے۔ ان نوے لوگوں میں اکثر لوگ بنک کی طرف سے جمع کروائی گئی امیدواران کی لسٹ میں خود سرے سے شامل ہی نہ تھے اور اپنے پسندیدہ یا پیسے دینے والوں کو نوکری دے دی گئی اور ان لیٹرز میں بھی فراڈ اور دھوکہ دہی شامل ہے۔
٭رٹ پٹیشن 1181/21 میں عدالت عالیہ نے بنک کو اپنے آرڈر بتاریخ 11-2-21 میں کہا کہ بنک جان بوجھ کر مدعی کو ذاتیات کا نشانہ بنا کر بیٹھا ہے اور احکامات کی تعمیل نہیں کر رہا۔
٭اور اپنی جعلی خود ساختہ بوگس لسٹ کا حال احوال یہ ہے جو پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ
٭پنجاب کے لوگ سندھ میں سندھ کے پنجاب مختصر کے عدلیہ اور یتیم بچوں کو الجھانے کے لیئے اس لسٹ کو تیار کیا گیا۔
٭اسlist میں کئی لوگ پہلے سے ہی NBPسمیت کئی اداروں میں کام کر رہے ہیں۔
80 سے 85% لڑکیاں شادی شدہ ہیں
تقریبا 100 سے زائد لوگ اوور ایج ہیں
کئی وہ لوگ ہیں جو انڈر ایج ہیں اور ان CNIC بھی بن گئے اور لسٹ میں شامل بھی ہوگئے۔
60 سے 80 لوگ ایک ہی فیملی کے ہیں
کئی کے شناختی کارڈ کا اندراج غلط ہے
کوئی امیدوار اپنے والد کی وفات کے دو سال بعد پیدا ہورہا ہے
درجنوں ملازمین کے PF نمبرز نہیں ہیں جبPF نمبرز نہیں ہیں تو NBP کے ملازم کیسے بن گئے؟
گلگت بلتستان سمیت کئی لوگ ریٹائرڈ ملازمین کے بچے ہیں یہ سب کچھ دھوکہ دہی NBP کی لسٹ میں موجود ہے۔
درجنوں امید وار میٹرک بھی نہیں ہیں تو انہوں نے یہ ٹسٹ کیسے کلئر کرلیا؟
2004 سے2018 تک کئی لوگوں کو نوکریاں دے دی گئیں جن اوپر ذکر موجود ہے ان کے نام لسٹ میں شامل کیوں نہیں کیئے گئے۔(صرف ذاتی پسند ناپسند،کرپشن اور سیاسی وجہوت کی بنا پر)
خاص بات کے 2016 سے 2020 تک بنک حکام نے ہزاروں نوکریاں نکالی ہیں جن کا ریکارڈ موجود ہے۔۔۔۔۔
٭جب 100% کوٹہ یتیم بچوں کا تھا تو ان کو ان میں سے نوکریاں کیوں نہیں دی گئیں۔ اس سارے کھیل میں ہیڈ آفس کے ڈائریکٹرز،ایچ آر ونگ،ریجنل جی ایم ایچ آراینڈ ٹیم اور ریجنل ہیڈسب برابر کے شریک ہیں۔
اگر اب بھی عدلیہ اپنے احکامات کی تعمیل کروا کر اور از خود کارروائی کرکے یتیموں کو ان کا حق نہیں دلواتی تو آگے ایک اور بڑی عدالت ہے اور
جہاں سب نے پیش ہونا ہے وہاں تو کم سے کم NBP حکمران
آنرایبل عدلیہ کو چکر نہیں دے سکیں گے اور عدلیہ اپنے انصاف کے بارے میں خود اس ذات کو جواب دہ ہوگی۔
آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ جب تک تمام یتیموں کو نوکریاں نہیں دے دی جاتیں تب تک تمام ریجنل جی ایم آر و ٹیم ہیڈ آفس ایچ وآر ونگ،ڈائریکٹرز اور صدر کی تنخواہ بند کر دی جائے تاکہ ان کو بھی معلوم ہو کہ عدلیہ کے ساتھ جھوٹ بولنے اور بائی پاس کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے
——————-

محمد عمر فاروق خان بہاولپور
03126812942
03216824813