پاپولیشن کنٹرول کے حوالے سے عالمی اہداف کے حصول میں حکومت کو مالی مشکلات کا سامنا

عالمی برادری پاپولیشن کنٹرول کے حوالے سے پاکستان سمیت ان سب ملکوں کو واضح طور پر ہدایات دے چکی ہے جہاں آبادی بہت تیز رفتار سے بڑھ رہی ہے وہاں پاپولیشن کنٹرول کے لیے مالی طور پر اداروں کو مستحکم کرنے اور فنڈز بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے لیکن FP 2020 کے اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد اب پاکستان حکومتی سطح پر فیملی کنٹرول کے پروگراموں کی مالی مدد کرنے کے حوالے سے شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں حکومت پاکستان متعلقہ فورمز پر 10 ارب روپے مختص کرنے کی یقین دہانی کرانے کے باوجود صرف ایک ارب روپے مختص کر پائی ہے اگرچہ میں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات منتقل ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ارب روپے مختص کیے جانا بھی بہت بڑی بات ہے لیکن عالمی اہداف کے حصول میں ایک ارب روپے ناکافی ہیں حکومت نے خود 10ارب روپے مختص کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایسا نہیں کر سکی صوبائی حکومتوں کی صورتحال بھی کوئی زیادہ بہتر نہیں نظر آ رہی ہے ۔ اس لیے خدشہ ہے کہ FP 2030 کے علم میں اضافہ کا حشر بھی ویسا ہی ہوگا جو پچھلی مرتبہ ہوا تھا ۔اس حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو فکر مند نظر آرہے ہیں لیکن وفاقی حکومت کے جن لوگوں کو فنڈز فراہم کرنے ہیں وہ اتنے فکر مند نظر نہیں آ رہے جتنا انہیں ہونا چاہیے ۔

حکومت پاکستان نے سال 2025 اور 2030 کے لئے آبادی کے پروگرام کے اشارے پر اتفاق کیا۔ سلائڈز میں قومی اشارے اور اس کے صوبائی اور علاقائی تقسیم کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئیں۔ CSOs اپنے پروگراموں کے ذریعے خدمات کی فراہمی جاری رکھیں گے اور ان متفقہ اشارے کی طرف اپنا حصہ ڈالیں گے۔ ماضی میں پاکستان FP2020 کے لئے اپنے وابستہ اشارے پر پورا نہیں اتر سکا تھا جس پر سال 2012 میں اتفاق کیا گیا تھا ، ہم اتنے منتظر ہیں کہ تیز رفتار پروگراموں سے اپنے تمام وعدوں کو پورا کریں۔

اس سے قبل 2012 میں حکومت نے 2020 تک تمام سی پی آر پر 50 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا تھا ، 2020 تک پاکستان 34.4 فیصد کے ساتھ ختم ہوا۔

اس بار کسی پیشرفت کے لئے حکومت کی طرف سے مناسب سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی بصورت دیگر پاکستان population2030 تک آبادی کا شعبہ ڈیزاسٹرس ہوسکتا ہے

اس ملک کو بچانے کے لئے پاکستان کو اس معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے


صدر ڈاکٹر عارف علوی نے خاندانی منصوبہ بندی کو فروغ دینے اور بڑھتی آبادی کی جانچ پڑتال کے لئے قومی اور بین الاقوامی مالی اعانت کے لئے خصوصی کوششوں کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے آبادی کے سلسلے میں ڈونر کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا تاکہ بڑھتی آبادی کو روکنے میں حکومت کی مدد کی جاسکے۔ صدر نے روشنی ڈالی کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کے آب و ہوا کی تبدیلی ، ماحولیات پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہ ملک کے قدرتی اور معاشی وسائل پر زبردست دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز ، ایوان صدر میں ، پاکستان میں خطرناک آبادی میں اضافے سے متعلق فیڈرل ٹاسک فورس کے چوتھے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر مذہبی امور ، پیر نور الحق قادری ، سماجی تحفظ اور غربت کے خاتمے کے لئے ایس اے پی ایم ، ڈاکٹر ثانیہ نشتر ، نیشنل ہیلتھ سروسز ، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن (این ایچ ایس آر سی) کے ایس اے پی ایم ، ڈاکٹر فیصل سلطان ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) ) ، ڈاکٹر قبلہ ایاز ، وزیر پاپولیشن ویلفیئر کے پی کے ، احمد حسین شاہ ، سکریٹری این ایچ ایس آر سی ، امیر اشرف خواجہ ، چیف سیکرٹری سندھ ، سید ممتاز علی شاہ ، چیف سیکرٹری کے پی کے ، ڈاکٹر کاظم نیاز ، سیکریٹری آبادی بہبود محکمہ پنجاب ، علی بہادر قاضی ، کنٹری ڈائریکٹر پاپولیشن کونسل ، اسلام آباد ، ڈاکٹر زیبا ستار ، یو این ایف پی اے کے کنٹری نمائندہ ، تکنیکی ماہرین اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلی عہدیدار اجلاس میں شریک ہوئے۔

ب معاملہ صرف وفاقی حکومت کی جانب سے سنجیدگی دکھانے تک محدود نہیں رہا بلکہ تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو سرکاری سطح پر اور نجی اداروں کو ساتھ ملا کر سنجیدہ اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے

دنیا کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستان میں وفاق اور صوبوں میں کونسی پارٹیوں کی حکومت ہے اور بجٹ کی منظوری میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں انہیں تو صرف اس بات کی پرواہ ہے کہ پاکستان نے عالمی فورم پر جو وعدے اور یقین دہانیاں کرائی ہیں کیا ان پر عملدرآمد کے لیے کوئی ٹھوس سنجیدہ اور قابل عمل راستہ اختیار کیا گیا ہے یا نہیں ؟

پاکستان میں آپس کی لڑائیوں اور سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی وجہ سے جوش اب سب سے زیادہ نظرانداز اور متاثر ہو رہے ہیں پاپولیشن ان میں سرفہرست ہے ۔

یقینی طور پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بہت بڑے بڑے عالمی علاقائی اور قومی چیلنجوں کا سامنا ہے اس لئے ان کے پاس اتنا وقت نہیں پہنچتا کہ وہ پاپولیشن کو زیادہ وقت دے سکیں لیکن یہ سب سے اہم سنگین اور حساس معاملہ ہے اسے بھی وفاقی حکومت اور وزیراعظم کو اپنے ترجیحی ایجنڈے میں شامل رکھنا ہوگا دیکھنا یہی ہے کہ وہ کس طرح ایسا کر پائیں گے ؟

————-
Salik-Majeed—–whatsapp—92-300-9253034