سیاست کے افلاطون

سیاستدان اسی لیے مٹ جاتے ہیں کہ لمحہ ء موجود کی سطحیت میں جیتے ہیں۔ اہلِ علم زندہ رہتے ہیں کہ زمان و مکاں سے بلند، آسمان سے زندگی کو دیکھتے اور غور کرتے ہیں، گہر ڈھونڈتے ہیں۔ دو کمال کے دانشور ہیں۔ نون لیگ کے ارسطو احسن اقبال اور تحریک انصاف کے افلاطون فواد چودھری۔ایسا اور اس قدر عجیب شوشا چھوڑتے ہیں کہ کوئی شاعر کیا کرے گا۔اسی ہنر مندی کے طفیل Point scoring کی اصطلاح رائج ہوئی۔ شیخ نے جب اعلان کیا کہ گالی پنجاب کا کلچر ہے توصفِ ماتم بچھی۔ ماتم کیسا؟ زوال کے زمانے میں یہی ہوتا ہے۔ احسان دانش نے کہا تھا: ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ اور بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو یہ سرزمین انشاء اللہ تابندہ ہو گی کہ اجلے قلوب و اذہان نے بنا رکھی۔ادبار کے یہ دن بیت جائیں گے؛اگرچہ زخم سہنا ہوں گے۔ قدرت اسی لیے چوٹ لگاتی ہے کہ انسانوں میں صبر و قرار پیدا ہو۔ شہنشاہ ایران کے دور میں ایرانی شاعر نے کہاتھا:یہ جوانانِ جری پہ افتاد کا موسم ہے۔ سیاستدانوں اور صحافیوں کے ہاتھوں لغت اور سیاست پہ جو کچھ بیتی ہے، کبھی کوئی اس کااحاطہ کرے گا۔ بلیغ اردو کو نظر انداز کر کے بازاری انگریزی ٹھونسنے پہ ڈاکٹر خورشید رضوی ملول ہوتے ہیں۔ ایک بار کہا: یہ ’’کرنے جا رہا ہوں‘‘ کیا ہوتا ہے؟ مثلاً:احسن اقبال فلسفہ بگھارنے جا رہے ہیں۔ مثلاً: فواد چوہدری نئے افق دریافت کرنے کو روانہ ہیں۔ شیخ روحیل اصغر نے پنجاب کو گالی دی تو فرید الدین شکر گنج ؒ یاد آئے۔اٹھ فریدا ستیا جھاڑو دے مسیت /تو ستا، رب جاگدا، تیری ڈاڈھے نال پریت۔اٹھ فرید، مسجد میں جھاڑو دے۔تیرا رب جاگ رہا ہے۔ تو نے بہت بڑے سے محبت پال لی۔ اردو زبان تو کسی اور رخ پہ بہہ نکلی؛تاآنکہ اقبالؔ نمودار ہوئے اور کسی قدر اس کا لہجہ بدلا۔ پنجابی شاعر آج تک خواجہ کے گل افشاں سائے میں جیتی ہے۔ پھر سلطان باہوؒایسا نادرِ روزگار اٹھا، جس کے بیت مولانا روم کی طرح وارفتگی سے گائے جاتے ہیں۔ الف اللہ چنبے دی بوٹی، مرشد من وچ لائی ہو نفی اثبات دا پانی ملیا ہررگے ہرجائی ہو اندر بوٹی مشک مچایاجان پھلن تے آئی ہو جیوے مرشد کامل باہو، جس ایہہ بوٹی لائی ہو الف سے اللہ،چنبے کی بوٹی ہے، جو مرشد نے من میں لگا دی ہے۔ نفی ء اثبات کی آبیاری کی۔ ہر جگہ، ہر مقام پر۔ اندر اس بوٹی نے کہرام مچا رکھا ہے۔ جی جان ایک امتحان میں ہیں۔ مرشد کا نام ہمیشہ باقی رہے، جس نے یہ بیج بویا۔ سلطان باہوؒ ان نادرِ روزگار شاعروں میں سے ایک ہیں، جو اللہ کی بستی میں شاذو نادر ہی جنم لیتے ہیں۔ چار سو برس سے اوپر بیت گئے۔لگتا ہے ابھی یہیں تھے۔ خواجہ غریب نوازؒ نے کہا تھا: کتنے بادشاہ ہو گزرے ہیں، نام بھی کسی کو یاد نہیں لیکن جنیدؒ و با یزیدؒ، یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ چاند اور سورج طلوع ہوتے رہیں گے،آسمانِ دنیا پہ ستارے جگمگاتے رہیں گے۔ بادل امنڈتے اور برستے رہیں گے۔ دریا بہتے اور ندیاں شور مچاتی رہیں گی۔ جنگل لہلہاتے اور پھول کھلتے رہیں گے۔ شامیں اترتی اور صبحیں سانس لیتی رہیں گی۔ وقت، زمانے، اقوام اور معاشرے اپنے انداز اور تیور بدلتے رہیں گے لیکن سلطان باہوؒ ہر عصر میں اسی طرح زندہ رہیں گے، جس طرح عالمگیری عہد میں جیتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کی کچھ کتب اب بھی غیر مطبوعہ ہیں۔ چھپیں گی تو اہلِ دل کے لیے سرمایہ ء جاں ہوں گی۔ ابھی چند برس پہلے انکشاف ہوا کہ اقبالؔ نے بھی ان سے فیض پایا۔ ان کی مشہور نظم سلطان العارفین کی زمین میں ہے۔ یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ شاہ حسینؒ ہیں ’’چنگا ہویا گڑ مکھیاں کھادااساں بھن بھن توں چھٹیوسے‘‘ اچھا ہوا کہ دنیا کا گڑ مکھیوں نے کھایا۔ ہم مکھیوں کی بھن بھن سے بچے رہے۔ شہنشاہ اکبر کے شیخ الاسلام کو ایک خط میں شاہ نے لکھا: اندر آلودہ، باہر پاکیزہ تے توں شیخ کہاویں راہ عشق دا سوئی دا نکہ دھاگہ ہوویں تے جاویں باطن آلودہ اور ظاہر پاکیزہ اور تم خود کو شیخ کہلاتے ہو۔ عشق کی راہ توسوئی کا سوراخ ہے، دھاگہ بنو تو گزرسکو۔ کس کس کا ذکر کیجیے۔ بلہے شاہ ؒ وہاں سے پرواز کا آغاز کرتا ہے، شاعروں کی جہاں سانس ٹوٹنے لگتی ہے۔اپنے عہد کی منافقت کے خلاف اعلانِ جنگ ’’علموں بس کریں او یار، اکو الف تیرے درکار‘‘ خواجہ غلام فریدؒ ہیں کہ ایک ایک مصرعے میں جہانِ معانی۔ کون ایسا شاعر ہو گا، جس نے اس طرح دلوں پہ حکومت کی ہو۔ جس نے روہی کے صحرا کو مرغزار کر دیا۔ ریگزار میں شاعر کی شبیں ذکر و فکر سے معمور تھیں۔ دور دور تک پھیلی چاندنی میں ساربانوں کی حدی خوانی، گھنٹیوں کی پراسرار صدائیں اور ہرن کاخرام۔خواجہ کے دل پہ نور برستا تو گدازمصرعوں میں ڈھلتا۔ میاں محمد بخشؒ کے باب میں ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا تھا: کبھی ایک مصرعے میں پوری بات کہہ دیتے ہیں کہ غالبؔ ایسا عظیم المرتبت بھی پورے شعر ہی میں نبھا سکے۔جتن دا مل کوڈی پیندا، ہارن دا مل ہیرا۔فتح کا انعام ایک کوڑی اور خود کو ہار دینے کا انعام ہیرا۔ہر زماں از غیب جانِ دیگر است۔ایک دوسرا مصرعہ یہ ہے ’’میں گلیاں دا روڑا کوڑا محل چڑھایا سائیاں‘‘ میں بے نوا تنکا مگر آقانے محل پہ سجا دیا۔پروفیسر صاحب سے پوچھا: شاعر کا آقا کون؟ کہا: ان کے مرشد، رحمتہ اللعالمینؐ ہیں اور خود مالکِ کون و مکاں۔ میاں صاحب کے دو تین سو منتخب اشعار بے اختیار ہو کر کسی فدائی نے مزار پہ لکھ دیے تھے۔اہلِ ذوق دیوار کے سامنے تصویر بنے کھڑے رہتے۔ دانشوروں کا ذکر تھا۔انسانی ذہن اپنی پرواز کی راہیں مگر خود متعین کرتا ہے۔ صوفیا یاد آئے اور سیاستدان بھول گئے۔ ان بیچاروں کا کیا ہے۔ ارسطو فرماتا ہے کہ عمران خان ایٹمی پروگرام کا سود ا کر لے گا۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ جملہ اس آدمی کی زبان سے پھسل گیا، جو ہر موضوع پر اظہارِ خیال کو بے تاب رہتا ہے۔ غور کم کرتا اور بولتا زیادہ ہے۔ سامنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب امریکہ سے اس نے Absolutely not کہا تو جوہری پروگرام پہ کیوں جھکے گا۔قدرت اس پہ عساکر کی ہے۔ یوں بھی قوم نگراں ہے۔ مگر شعبدہ بازی کی سیاست۔ برادرم فواد چودھری ارشاد فرماتے ہیں: الیکشن حکومت کا کام ہے، الیکشن کمیشن کا نہیں۔ اسے تو فقط طریقِ کار طے کرنا ہے۔ بجا کہ الیکشن کمیشن اپوزیشن کی زبان بولنے لگا۔ فواد مگر بھول گئے کہ الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن ہی کا آئینی فریضہ ہے، سرکار کا نہیں۔ سیاستدان اسی لیے مٹ جاتے ہیں کہ لمحہ ء موجود کی سطحیت میں جیتے ہیں۔ اہلِ علم زندہ رہتے ہیں کہ زمان و مکاں سے بلند، آسمان سے زندگی کو دیکھتے اور غور کرتے ہیں، گہر ڈھونڈتے ہیں