سندھ کے محکموں میں اہم انتظامی تبدیلیاں ۔ کون بنا عتاب کا شکار اور کس پر ہوا بھرپور اعتماد کا اظہار ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام تاثر یہ تھا کہ سندھ کے فیصلے بیرون ملک سے ہوتے ہیں چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس

نے اس تاثر کو مزید پختہ کر دیا اور سندھ میں زمینوں اور ریونیو کے حوالے سے فیصلوں میں یونس میمن کا کردار اہمیت کا حامل ہو گیا

حالانکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور اس سے متعلقہ معاملات میں منظور قادر کاکا کا نام لیا جاتا ہے

جو پاکستان میں نہ ہونے کے باوجود سندھ کے حوالے سے اہم فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور بعض افسران اور مختلف پرائیویٹ افراد کو ان کا فرنٹ مین قرار دیا جاتا ہے اس حوالے سے شکایات سپریم کورٹ تک بھی پہنچیں اور وہاں سے سندھ حکومت کے ذمہ داروں سے سوالات بھی پوچھے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری طرف سندھ کے بعض محکموں میں اہم انتظامی تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کے بعد سرکاری حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کون کون سے افسران عتاب کا نشانہ بنے ہیں اور کس کس پر عنایات ہوئی ہیں یا دوسرے الفاظ میں یہ کہہ لیجئے کہ کس کس افسر پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی انتظامی تبدیلیوں کے حوالے سے کیوں کے کسی عدالتی مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس نہیں آئے اس لئے یہی ماننا چاہیے کہ یہ تمام فیصلے کسی دوسرے ملک سے آنے والی کال پر نہیں کیے گئے بلکہ سو فیصد مقامی فیصلے ہیں اور سندھ کے منتخب وزیر اعلی سید مراد علی شاہ کی منظوری سے سندھ کے چیف سیکریٹری ممتاز علی شاہ کی ہدایت پر

تبادلے اور تعیناتی کے نوٹیفکیشن جاری کئے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہم انتظامی تبدیلیوں کے حوالے سے جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق حال ہی میں گریڈ 20 میں ترقی پانے والے ایکس پی سی ایس افسر ریحان اقبال بلوچ کو زاہد علی عباسی کی جگہ پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کا سیکرٹری تعینات کیا گیا ہے وہ پہلی مرتبہ کسی محکمے کے سیکریٹری بنے ہیں اس سے قبل وہ محکمہ بہبود آبادی میں ڈائریکٹر جنرل گریڈ 20 کی آسامی پر فرائض انجام دے رہے تھے ریحان اقبال بلوچ کا شمار سندھ کے ذہین اور محنتی سرکاری افسران میں ہوتا ہے انہیں سندھ کی وزیر صحت اور بہبود آبادی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا بھرپور اعتماد بھی حاصل ہے اس سے قبل وہ محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم سمیت مختلف اہم محکموں میں اہم پوزیشن پر شاندار انداز سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں انھیں سابق سیکریٹری فضل اللہ پیچوہو کے دور میں ان کا بااعتماد افسر قرار دیا جاتا تھا محکمہ بہبود آبادی میں انہوں نے کم عرصہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے اور سیکریٹری بہبود آبادی کے عہدے پر ان کی تعیناتی اس بات کا ثبوت ہے کہ صوبائی حکومت ان پر گہرا اعتماد کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری طرف زاہد علی عباسی کو محکمہ بہبود آبادی کے سیکرٹری سے ہٹا کر سیکریٹری انویسٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ تعینات کیا گیا ہے صوبائی حکومت کے لیے یہ بھی ایک اہم محکمہ ہے اور زاہد علی عباسی کی اب تک محکمہ صحت اور پاپولیشن ڈیپارٹمنٹ کارکردگی کو صوبائی حکومت نے

تسلی بخش اور قابل ستائش قرار دیا اور مختلف عالمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے بھی زاہد علی عباسی کی کارکردگی کی تعریف کی ۔ صوبائی حکومت ان کی صلاحیتوں اور ذہانت کو انویسٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں بروئے کار لانا چاہتی ہے وہ گریڈ 20 کے پی اے ایس افسر ہیں اور ان کا شمار صوبائی حکومت کے اچھے ذہین اور محنتی افراد میں ہوتا ہے ۔صوبائی حکومت نے سیکرٹری انویسٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت سے آصف اکرام کا تبادلہ کیا ہے

اور انہیں سیکرٹری برائے بین الصوبائی رابطہ تعینات کیا گیا ہے یہ محکمہ اگرچہ بڑی اہمیت کا حامل ہے

لیکن یہاں پر ہونے والی تعیناتی کو سندھ کے سرکاری حلقوں میں زیادہ قابل قدر نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے اور عام تاثر ہے کہ یہاں جس افسر کو تعینات کیا جائے ، سمجھیں صوبائی حکومت نے اسے سائیڈ لائن کر دیا ہے سندھ حکومت نے سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ کے عہدے سے راجہ خرم شہزاد عمر کا تبادلہ کرکے انہیں سیکریٹری ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول تعینات کردیا ہے اور یہاں سے عبدالحلیم شیخ کا اضافی چارج ختم کیا گیا ہے وہ بدستور سیکرٹری خوراک سندھ کی حیثیت سے فرائض انجام دیں گے ۔سندھ کے سرکاری افسران اور ملازمین کے لیے راجہ خرم شہزاد عمر ایک نئے افسر ہیں

کیوں کہ حال ہی میں انھیں وفاقی حکومت نے سندھ میں بھیجا ہے محکمہ ایکسائز سندھ کو صوبے کا ایک انتہائی اہم اور طاقتور محکمہ مانا جاتا ہے یہاں سے سندھ کے خزانے میں بھی پیسہ آتا ہے اور افسران کی جیبوں میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔کچھ افسران ایسے بھی ہیں جو یہاں پوسٹنگ کے باوجود چھٹیوں پر چلے جاتے ہیں جن میں عبدالرحیم شیخ جیسے افسران نمایاں ہیں اور کچھ افسران ایسے ہیں جو یہاں تعیناتی کے لیے بھرپور زور لگاتے ہیں ۔محکمہ ایکسائز ان محکموں میں شامل ہے جہاں دو طرح کے افسران کام کرتے ہیں ایک وہ افسران جو یہاں کے وسائل دفتر پر خرچ کرتے ہیں اور دوسرے وہ افسران جو یہاں کے تمام وسائل اپنے گھر پر خرچ کرنے کو فوقیت دیتے ہیں ۔سندھ کے مختلف محکموں میں ہونے والی تازہ انتظامی تبدیلیوں پر سرکاری حلقوں میں بحث جاری ہے دیکھنا ہے کہ یہ انتظامی تبدیلیاں کس قدر اور کیسی تبدیلی اور اثرات مرتب کرتی ہیں اور کیا ان تبدیلیوں کے نتیجے میں سندھ سرکار کے بارے میں پایا جانے والا عام تا ثر اور خاص طور پر اعلی عدلیہ کے ریمارکس میں کسی قسم کی تبدیلی رونما ہوتی ہے یا نہیں ؟ یہاں تک کہ محکمہ بہبود آبادی کا تعلق ہے تو اس شعبے سے وابستہ ماہرین کا ماننا ہے

کہ پورے ملک میں پاپولیشن کنٹرول کے حوالے سے خریدی جانے والی مصنوعات کی پروکیورمنٹ کا عمل جتنا سندھ میں شفاف ہے کسی اور صوبے میں شاید ھی ہواور اس بات کی گواہی عالمی ادارے بھی دیتے ہیں لیکن افسوس کے سندھ کے بارے میں مجموعی طور پر جو perception بنا ہوا ہے وہ یہاں کی اچھی باتوں کو بھی سامنے نہیں آنے دے رہا حالانکہ سندھ کا محکمہ بہبود آبادی اس وقت تمام صوبوں کے مقابلے میں بہترین پر فارمنس دے رہا ہے اور اس کا سہرا صوبائی وزیر بہبود آبادی ڈاکٹر عذرا پیچوہو اور محکمہ بہبود آبادی کی پوری ٹیم کے سر جاتا ہے جس نے بڑی محنت سے اس محکمے کی کارکردگی کو نکھارا ہے اور اس کے نتائج ہو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قابل تعریف بنایا ہے ۔دوسری طرف محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن اور نارکوٹکس ہے جس نے اپنے ٹیکس اہداف کے حصول میں تو ہمیشہ کامیابی حاصل کی ہے لیکن اس محکمے کے بارے میں عام تاثر کو زمینی حقائق کے مطابق ہے اور محکمہ کے اندر نچلی سطح پر اوپر تک بدعنوانی سرایت کر چکی ہے جس کے خاتمے کیلئے بھرپور آپریشن کی ضرورت ہے ۔سندھ کا محکمہ سرمایہ کاری بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اسے توجہ کی ضرورت ہے اس محکمہ کو زیادہ وسائل اور بااختیار بنانے کی ضرورت ہے یہ محکمہ سندھ کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے جبکہ بین الصوبائی رابطہ امور کا محکمہ بھی اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے خاص طور پر 18ویں ترمیم کے بعد اس محکمے کا کردار بہت وسیع ہو سکتا ہے لیکن اس محکمے کو وہ توجہ اور اہمیت نہیں دی گئی جس کا یہ متقاضی ہے سرکاری حلقوں میں اکثر یہ بحث ہوتی ہے کہ اگر سرکار نے کچھ محکموں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرنا اور ان کو ضروری وسائل اختیار اور توجہ نہیں دینی تو پھر ان کو جاری رکھنے کا کیا فائدہ ان کو بند کر دینا چاہیے ؟ لیکن سندھ سرکار میں بھی ایسے کچھ محکمے ضرور باقی رکھے گئے ہیں جن کا مقصد ان افسران کو وہاں تعینات کرنا ہے جن سے سندھ سرکار کی اہم شخصیات بیزار ہوجائیں یا ناراضگی اور غصے کا اظہار کرنا ہو تو ایسے میں محکمے درکار ہوتے ہیں جنہیں عتاب کا نشانہ بننے والے افسران اور ملازمین کے لیے ڈمپنگ یارڈ کے طور پر استعمال کیا جا سکے ۔
——————

Salik-Majeed———Jeeveypakistan.com——whatsapp——92-300-9253034