رنگیلا کی سیاسی فلم کا سین

سوموار کے روز قومی اسمبلی کی پریس گیلری کا چکر لگانے کا سوچا۔ بجٹ سیشن غور سے دیکھنے اور سننے کا من چاہا۔ سوچا حکومت اور اپوزیشن کا بجٹ پر جو میچ پڑے گا اس کو براہ راست دیکھنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ابھی پوری طرح سیشن شروع بھی نہیں ہوا تھا اور شہباز شریف نے تقریر کا آغاز ہی کیا تھا کہ ہنگامہ ہوگیا۔ اسمبلیوں میں ہنگامے ہونا کوئی بڑی بات نہیں ‘ اسے جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا ہے۔جتنا شور ہو پارلیمنٹ کو اتنا ہی ایکٹو اور مضبوط سمجھا جاتا ہے لیکن اگر یہ کام تین سال سے روزانہ ہو رہا ہو تو پھر کہیں گڑبڑ ہوتی ہے۔ غالباً وزیراعظم اس ہینگ اوور سے باہر نہیں نکل پارہے کہ اس اپوزیشن نے ان کے سارے موڈ کا بیڑا غرق کر دیا جب انہیں وزیراعظم کیلئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد تقریر کا موقع نہ دیا گیا۔ اپوزیشن نے انہیں گھیر لیا اور سخت نعرے بازی کی اور ایسی کی کہ خان صاحب اپنی تقریر کا ذائقہ خراب کر بیٹھے‘ ایسا کہ آج تک وہ ذائقہ بحال نہیں ہوا۔ اس طرح جو لڑائی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تین سال پہلے شروع ہوئی تھی وہ سوموار کے روز تک جاری تھی اور اب روز بروز خوفناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ان تین سالوں میں پارلیمنٹ میں وہ گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے مناظر نظر آئے کہ بندہ ششدر رہ جائے۔
ہر دور میں پارلیمنٹ میں لڑائیاں ہوتی رہی ہیں لیکن جو لڑائیاں اس دفعہ دیکھنے میں آرہی ہیں ان کا اپنا ہی لیول ہے۔ پہلے پارلیمنٹ میں لڑائیاں سیاسی ہوتی تھیں اب یہ ذاتی لڑائیاں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دفعہ پارلیمنٹیرینز کا انٹلیکچوئل لیول بھی بہت گرا ہے۔ ہر اسمبلی میں کچھ اس طرح کے لوگ ہوتے ہیں جنہیں اپنی زبان پر قابو نہیں ہوتا اور وہ اپنے سیاسی مالکان کو خوش کرنے کیلئے کئی حرکتیں کر گزرتے ہیں لیکن اب کی دفعہ لگتا ہے ایسے ارکان کی تعداد کچھ زیادہ ہے جن کے نزدیک انسانی قدریں‘ رویے‘ ایک دوسرے کا احترام ‘ رواداری زیادہ اہم نہیں۔ وہ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے مخالف کو بڑی گالی دے سکتے ہیں۔ جو کچھ فردوس عاشق اعوان اور پی پی پی کے ایم این اے مندوخیل کے درمیان ٹی وی شو میں ہوا اس پر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہے۔ اس طرح کے کام کی بنیاد پہلے سوشل میڈیا پر رکھی گئی تھی پھر اس کے اثرات پارلیمنٹ کے اندر محسوس ہونے لگے اور انجام کار ٹی وی سٹوڈیوز میں بھی تھپڑوں اورگالیوں کی گونج سنائی دینے لگی۔ ہمارا خیال تھا کہ اب شاید سب سیاسی پارٹیوں کے سربراہان ہوش کے ناخن لیں گے اور بیٹھ کر رولز آف گیم طے کریں گے کہ رہی سہی عزت بھی ختم نہ ہو جائے ‘لیکن لگتا ہے فلم ابھی شروع ہوئی ہے‘ ابھی تو معاملات نے مزید بگڑنا ہے۔ ابھی اس سیاسی میخانے میں جام اچھلنے ہیں‘ ابھی تو پگڑیاں اترنی ہیں‘ پائوں کے جوتے سروں پر چلنے ہیں‘ گھر بیٹھی خواتین کی حرمت کا پردہ چاک ہونا ہے۔ یوں اس وقت سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی اپنی عزتیں خطرے میں ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی عزت بچی ہوئی ہے لیکن جو کچھ ہمیں پارلیمنٹ کے فورم پر سننے کو مل رہا ہے اس کے بعد تو کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ پہلے تو پارلیمنٹیرینز کی اپنی عزت کا جنازہ نکلا ‘ اب باری ان کے لیڈرز کی ہے۔ اب حملوں کی زد میں عمران خان‘ بلاول بھٹو اور شہباز شریف خود ہیں۔ ان کی پارٹیوں کے ممبران ایک دوسرے سے زیادہ اب اپنے ان لیڈروں کی شان میں وہ قصیدے پڑھتے ہیں کہ جنہیں سن کر کوئی بھی شریف بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے۔ جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ اپوزیشن لیڈر کی بجٹ تقریر میں حکومتی ارکان رکاوٹ ڈالیں اور ان پر نامناسب آوازے کسے اور ہاؤس کا اجلاس روکنا پڑے تو اس کے بعد کہنے کو کیا رہ جاتا ہے۔ یہی کام اپوزیشن نے کیا تھا جب انہوں نے وزیرخزانہ شوکت ترین کو بجٹ تقریر نہیں کرنے دی ۔سوال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن نے وزیرخزانہ کو تقریر نہیں کرنے دینی یا نہیں سننے دینی یا حکومتی ارکان نے اپوزیشن لیڈر کو نہیں بولنے دینا تو پھر یہ پارلیمنٹ میں کیا لینے جاتے ہیں اور اس قوم کے کروڑوں روپے ہر ماہ خرچ کرتے ہیں؟ گالی گلوچ ‘ شور شرابا اور تھپڑ وغیرہ تو یہ ٹی وی شوز میں کر لیتے ہیں اور اس پر ان کا کوئی پیسہ بھی نہیں لگتا۔ جب یہ سروس شوز میں ان سیاستدانوں کو میسر ہے تو پھر پارلیمنٹ کا آپ نے کیا کرنا ہے؟آپ خود ہی پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دے رہے اور اسے گالی گلوچ کا فورم بنا لیا ہے تو پھراس پر پیسے کیوں خرچ کریں؟
آپ اندازہ کرلیں اس قوم نے کیسی قیادت اور لیڈرشپ کو چن کر اپنے اوپر مسلط کیا ہے؟ کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ قوم ہی ایسی ہے؟ جیسی روح ویسے فرشتے؟کیاعمران خان‘ بلاول بھٹو اور شہباز شریف میں اتنی صلاحیت بھی نہیں تھی کہ کچھ رولز آف گیم طے کرلیتے اور خود کو گالیوں اور ذاتی حملوں سے محفوظ رکھ سکتے؟کوئی بھی پارلیمنٹ چلانا اور اس کی حرمت کا پاس کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے۔ حکومت کو سوٹ کرتا ہے کہ پارلیمنٹ چلے جس سے ووٹ لے کر وزیراعظم کرسی پر بیٹھتا ہے۔ پارلیمنٹ اس کا گھر ہے‘ اپنے گھر کی عزت کرانا سب کا فرض ہوتا ہے۔اگرچہ یہ کام اپوزیشن کا بھی ہے کہ وہ اس گھر کی حفاظت کرے اور اس کا مقام اونچا کرے‘ اسے گرائے نہیں لیکن پھر بھی ہر جمہوری ملک میں حکومت کو زیادہ صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اپوزیشن ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ وہ حکومتِ وقت کو غصہ دلا کر اس سے کوئی غلطیاں کرائے‘ مگر عقل مند اور سمجھدار حکمران ان چالوں میں نہیں پھنستے اور ہر صورت پارلیمنٹ کو عزت و احترام سے چلاتے رہتے ہیں۔ وہ اپوزیشن کے سب ہتھکنڈوں کے مقابلے میں سمجھداری سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں اگر اس وقت پارلیمنٹ گالی گلوچ اور ہنگاموں کا مرکز بن چکی ہے تو اس میں زیادہ نقصان حکومت کا ہورہا ہے۔ حکومت دراصل اپوزیشن کے ہاتھوں ٹریپ ہوچکی ہے اور یہ اپوزیشن کی کامیابی ہے۔ عمران خان اگر اس ہینگ اوور سے نکل پاتے کہ انہیں اپوزیشن نے پہلے روز تقریر نہیں کرنے دی تھی تو خود ان کیلئے بہت بہتر تھا۔ بائیس برس سے زائدہو گئے کرکٹ چھوڑے ہوئے لیکن وہ ابھی تک فاسٹ باؤلر کے مزاج سے نہیں نکل سکے۔ ان کا خیال ہے کہ ہر بیٹسمین جو انہیں چھکا مارے اسے باؤنسر مارنا ضروری ہے۔ اگرچہ ان کے حامی کہتے ہیں کہ خان صاحب کا جارحانہ مزاج انہیں وزیراعظم کی کرسی تک لے گیا ہے‘ اس لیے جہاں انہوں نے خود سیاست میں جارحانہ انداز اپنایا ہوا ہے وہیں اپنے اردگرد ایسے لوگ اکٹھے کررکھے ہیں جو اینٹ کا جواب پتھر تو گالی کا جواب گالی سے دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ خان صاحب کو ہر دفعہ اپنے وزیراطلاعات تبدیل کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ ان کی زبان سے مطمئن نہیں ہوتے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب سب پارٹیوں نے اپنے اندر ان ایم این ایز کو سامنے لانا شروع کر دیا ہے جو مخالف کو اینٹ کی بجائے پتھر ماریں۔ اب شہباز شریف‘ عمران خان اور بلاول بھٹو پتھروں کی اس بارش کی زد میں ہیں۔سوچتا ہوں اس کام میں لذت تو محسوس نہیں کرنے لگے۔
اداکار رنگیلا کی ایک فلم تھی جس میں وہ جب تک روزانہ کسی سے برا بھلا نہ کہلوا لیتا‘ اسے رات کو نیند نہ آتی تھی۔ایک دن اسے کسی نے تھپڑا نہ مارا‘ وہ سارا دن لوگوں سے لڑتا رہا‘ گالیاں دیتا رہا کہ کوئی تو جواباً گالی دے گا۔ سب لوگوں نے اسے نادان سمجھ کر اگنور کیا اور کچھ نہ کہا اور اس بے چارے کو ساری رات نیند نہ آئی۔کہیں یہی حالت ہمارے لیڈروں کی بھی تو نہیں ہوچکی؟