HBL PSL کے اسکینڈلز اور تنازعات ۔۔۔۔۔۔پی سی بی اور فرنچائز کے اخراجات اور آمدنی ۔۔۔۔کھلاڑیوں کے اعتراضات اور خدشات ۔۔۔۔۔۔۔اندرونی کہانیاں منظر عام پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف جیوے پاکستان ڈاٹ کام پر

HBL PSL کے اسکینڈلز اور تنازعات ۔۔۔۔۔۔پی سی بی اور فرنچائز کے اخراجات اور آمدنی ۔۔۔۔کھلاڑیوں کے اعتراضات اور خدشات ۔۔۔۔۔۔۔اندرونی کہانیاں منظر عام پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف جیوے پاکستان ڈاٹ کام پر
——————–

HBL پی ایس ایل کے اشتہارات بھارتی IPL کے اشتہارات کا چربا کیوں نکلے😂کیوں

——————-

ایچ بی ایل پی ایس ایل کے اشتہارات بھارتی آئی پی ایل کے اشتہارات کا چربہ نکلے !کیوں ؟
————-
مرتضی اور مجتبی دونوں بھائی کرکٹ کے دیوانے ہیں انہیں دیگر پاکستانیوں کی طرح اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے دنیائے کرکٹ میں پی ایس ایل جیسا کامیاب ٹورنامنٹ متعارف کرایا ہے جس میں دنیا بھر کے کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں اور عالمی سطح پر اس ٹورنامنٹ کی بے حد دھوم مچی ہوئی ہے نامور کھلاڑی پی ایس ایل میں اپنے کھیل کا مظاہرہ کر رہے ہیں کرکٹ انٹرٹینمنٹ اپنے عروج پر ہے کرکٹ کے دیوانوں کو بہترین کھیل مل رہا ہے جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن جب سے مرتضی اور مجتبیٰ کو یہ پتہ چلا ہے کہ ایچ بی ایل HBL پی ایس ایل PSL کے زیادہ تر اشتہارات انڈین آئی پی ایل IPL کے اشتہارات کی نقل ہیں بھارتی شہروں کا چربہ ہے تب سے انہیں پی ایس ایل کے اشتہارات سے بہت الجھن محسوس ہونے لگی ہے وہ اپنے دوستوں اور والدین سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہمارے ملک میں پی ایس ایل کے اشتہارات تیار کرنے والوں کے پاس اتنی ذہنی صلاحیت اور تخلیقی ورائٹی نہیں ہے کہ ہم اپنے اشتہارات خود سے تیار کرسکیں کیا ہماری ایڈورٹائزنگ انڈسٹری نکمی اور نا اہل ہے کیا ہماری ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں اپنے لیے خود نئے اشتہارات بنانے کی اہلیت نہیں رکھتی تو پھر کیا وجہ تھی کہ ایچ بی ایل پی ایس ایل کے اشتہارات کو بھارتی آئی پی ایل کے اشتہارات کی نقل کرکے تیار کیا گیا اس نقالی اور نا اہلی پر صرف مرتضی اور مجتبیٰ کیا فائدہ نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے شائقین کرکٹ میں جس کو یہ بات پتہ چلی ہے وہ ناخوش بھی ہے اور غصے میں بھی ۔۔۔۔۔۔کیونکہ ایچ بی ایل پی ایس ایل کے اشتہار بنانے والوں نے روایتی حریف سے شرمندہ اور شرمسار کرادیا ہے ۔مودی کا بھارت پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں شامل کرنے کے لئے تیار نہیں تھا پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل سے نکال باہر کیا گیا اور پھر پاکستان پر بھارت نے کرکٹ کے دروازے بند کرنے اور پاکستان کو کرکٹ کے میدانوں میں تنہا کر دینے کی سازش کی دس سال تک پاکستان کرکٹ کے میدان کھیلوں کے لئے ترستے رہے غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آنے سے انکار کرتے رہے بڑی مشکل سے نجم سیٹھی کے دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کو عملی شکل دی اور پاکستان کا اپنا برینڈ پی ایس ایل کی شکل میں دنیا کے سامنے آگیا لیکن گزشتہ برس پی ایس ایل کے اشتہارات کے حوالے سے یہ تنازع سامنے آیا کہ زیادہ تر اشتہارات آئی پی ایل کہ انڈیا میں چلنے والے اشتہارات کی نقل ہیں اور اشتہارات بنانے والی ایجنسی نے پاکستان میں وہ اشتہارات شروع دیے جو بھارت میں چل چکے تھے وہی کاپی وہی آئیڈیا وہی زبان وہی الفاظ ۔۔۔۔۔صرف چہرے بدلے اور اس پر پی ایس ایل کا لوگو لگا دیا ۔۔۔۔۔نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔پی ایس ایل کے چوری کئے گئے اشتہارات تنقید نگاروں نے فوری طور پر پکڑ لیا دنیا کو پتہ چل گیا کہ پاکستان سپر لیگ کے اشتہارات ایچ بی ایل پی ایس ایل کے نام سے چل تو رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ انڈیا کی آئی پی ایل میں اشتہارات کی نقل ہیں بھارتی اشتہارات میں جیسے جیسے دکھایا گیا جو جو انداز اپنایا گیا جو کاپی رائٹنگ سامنے آئیں جو الفاظ بولے گئے ۔چائے اور کافی کے کپ کو اٹھانے سے لے کر حیدرآباد دکن کی بریانی سے

لے کر کراچی کی بریانی تک اور بھارت میں اسٹرائک سے لے کر کراچی کی ہڑتال تک ۔۔۔۔۔۔ایچ بی ایل پی ایس ایل کے اشتہارات میں ہو بہو وہی کچھ فلمایا دکھایا گیا جو کچھ انڈیا میں آئی پی ایل کے اشتہارات میں فرمایا اور دکھایا جا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔واقعی ایچ بی ایل پی ایس ایل کے اشتہار تیار کرنے والوں نے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیا ہے اگر ایڈورٹائزنگ کمپنی کے پاس کوئی اچھے آئیڈیاز نہیں تھے تو بھارت کے اشتہارات کی کاپی الفاظ اور انداز کو چوری کرنے اور نقل کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔پاکستان کرکٹ بورڈ سے پاکستان سپر لیگ پی ایس ایل کا ٹائٹل اسپانسر شپ حاصل کرنے کے بعد حبیب بینک لمیٹڈ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کی پرموشن کے لیے اشتہارات تیار کرتی اور اس نے یہ کام ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو سونپا جس نے یہ اشتہارات بنائے لیکن سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا اور پی ایس ایل کے اشتہارات کی وجہ سے ایچ بی ایل اور پی سی بی دونوں کو زبردست تنقید اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور بھارتی اشتہارات کی نقل بلکہ ان کی کاپی الفاظ اور آئیڈیا چوری کر کے پی ایس ایل کے اشتہارات بنانے کی وجہ سے حبیب بینک لمیٹڈ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی شرم ساری کا سامنا کرنا پڑا ایسی نال آئی کی نااہلی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ماضی میں شاید ہی کسی نے کیا ہو جس جس کھلاڑی عہدیدار اور کرکٹ فین کو اس حقیقت کا پتہ چلا اس نے سر پیٹ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انتہائی دکھ افسوس اور شرم کی بات ہے کہ پاکستانی شائقین کو یہ دکھایا گیا جیسے یہ اشتہارات پاکستان نے خود تیار کیے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ان اشتہارات کی حقیقت اور چوری پکڑی گئی لوگوں نے دونوں اشتہارات ساتھ چلا کر بتا دیا کہ آئی پی ایل میں حیدرآباد کی بریانی کا ذکر تھا تو پی ایس ایل میں کراچی میں بریانی پر اشتہار بنا دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئی پی ایل میں ہڑتال کا ذکر کیا گیا تو پی ایس ایل کے اشتہار میں بھی ہڑتال کے آئیڈیا کی کاپی چوری کر لی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔آئی پی ایل میں ایک ٹی کپ کو اوپر اٹھاتے ہوئے دکھایا گیا تو پی ایس ایل کے اشتہار میں بھی ایسا ہی دکھا دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایچ بی ایل پی ایس ایل کے اشتہارات پر محنت نہیں کی گئی بلکہ آئی پی ایل کے آئیڈیاز کاپی الفاظ چوری کر کے اشتہارات بنا کر بھاری معاوضہ لیا گیا اس نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور حبیب بینک کو شرمسار کیا پاکستان کے شائقین کرکٹ آج بھی اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور حبیب بینک لمیٹڈ کی انتظامیہ بتائے کہ پاکستان سپر لیگ کے اشتہارات میں انڈین آئی پی ایل کے اشتہارات کے آئیڈیاز چوری کرنے اور نقل کرنے والوں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے کوئی کاروائی کی بھی گئی ہے یا نہیں ؟

اب مرتضی اور مجتبی سمیت تمام پاکستانی شائقین کرکٹ ایچ بی ایل پی ایس ایل اشتہارات میں انڈیا کے اشتہارات کی کاپی کرنے والوں کی عقل پر ماتم ھی کر سکتے ہیں کیونکہ ایچ بی ایل پی ایس ایل اشتہار بنانے والوں نے اور ان اشتہارات کو منظور کرنے والوں نے اور ان چوری شدہ اور چربہ اشتہاری مہم کا معاوضہ دینے والوں نے اپنا منہ تو کالا کیا سو کیا لیکن پاکستان شائقین کرکٹ کو بھی مودی کے بھارت اور انڈیا کی آئی پی ایل کے اشتہار بنانے والوں کے سامنے شرمندہ کروا دیا ۔۔۔۔۔افسوس صد افسوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئیے آپ کو یاد دلاتے چلیں گے دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بننے والا پی ایس ایل کب کیسے اور کن حالات میں شروع ہوا تھا اور اسے ایک انٹرنیشنل برانڈ بنانے میں پی سی بی نے کتنی محنت کی اور پی سی بی کے ساتھ ایچ بی ایل نے کس قدر رسک لیا اور اتنا بڑا فیصلہ کیا اتنی بڑی انویسٹمنٹ کی

کے سال 2014 کی بات ہے نجم سیٹھی اس بات پر حیرت زدہ تھے کہ پی سی بی کی آمدنی وہ نہیں ہے جو سال دو ہزار نو تک تھی حیرت کی بات اس لیے تھی کہ دیگر کرکٹ کھیلنے والے تمام ملک پیسہ کما رہے تھے لیکن ہمارے یہاں سے کیوں لیٹی ہوئی دہشت گردی کی وجہ سے انٹرنیشنل کھلاڑی نہیں آرہے تھے سیکورٹی بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا پاکستان کے روایتی حریف بھارت نے آئی بی ایل شروع کر کے ساری دنیا کی توجہ حاصل کر رکھی تھی اور خوب کمائی کر رہا تھا اور اپنے شائقین کو تفریح بھی دے رہا تھا ۔۔۔۔۔دیگر ملکوں میں کاؤنٹی کرکٹ بگ بیش لیگ سری لنکن پریمیئر لیگ اور کیریبین پریمیئر لیگ وغیرہ کھیلی جا رہی تھی لیکن پاکستان میں کرکٹ کے میدان سونے تھے پاکستان کو کرکٹ کی دنیا میں تنہا کرنے کے پیچھے ایک سوچی سمجھی منظم سازش تھی پاکستان میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والا حملہ ایک منظم سازش کا حصہ تھا ۔اس واقعے کے بعد ایک ایک کر کے پاکستان سے کرکٹ کے ایونٹ اور غیر ملکی ٹیمیں دور ہوتی گئی اور پاکستان کرکٹ کی دنیا میں تنہائی کا شکار ہوا پاکستان کو عالمی کرکٹ میں زندہ رہنے کے لیے یو اے ای اے کی کرکٹ گراونڈ کا سہارا لینا پڑا اور وہاں پر غیر ملکی ٹیم میں بلا کر ان کے ساتھ کرکٹ سیریز کھیلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نجم سیٹھی نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھولنے کا عزم کیا اور ہر قیمت پر یہاں انٹرنیشنل کرکٹ کو بحال کرنے کا بیڑا اٹھا لیا اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت نے بھی پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے لئے نجم سیٹھی اور پی سی بی کی بھرپور مدد کی ۔۔۔۔۔ پی ایس ایل شروع کرنے کا فیصلہ ہوا اور ایک الگ انتظامی ٹیم بنائی گئی کیونکہ شہریار خان اور پی سی بی کے دیگر لوگ اس وقت کتنا بڑا رسک لینے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے یہ نجم سیٹھی تھے جنہوں نے یہ انقلابی اقدام اٹھایا کچھ لوگ باہر سے لیے اور اس کے بعد پھر پی سی بی کے لوگ بھی آمادہ کیے اور یو پی ایس ایل کا سفر شروع کرنے کے لئے تیاریاں آگے بڑھیں نجم سیٹھی خود متعدد انٹرویوز میں بتا چکے ہیں کہ شہریار خان صرف ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے انہیں T20 ٹی ٹونٹی اورٹی ٹین T10 جیسے کرکٹ فارمیٹ سے زیادہ دلچسپی نہیں اس لیے پی ایس ایل کی ساری ذمہ داری نجم سیٹھی کے کندھوں پر ہی تھی ۔نجم سیٹھی نے امریکہ اور پاکستان سے اچھا کرکٹ مائنڈ اور مارکیٹنگ کے لوگوں پر مشتمل ایک انتظامی ٹیم بنائی اور پی ایس ایل لانچ کرنے کا فیصلہ کیا ۔فرنچائز کے ذریعے پی ایس ایل کا آئیڈیا کامیاب رہا اور ایک ایسا ٹورنامنٹ میں صرف کاغذ پر تھا اور جس پر انویسٹمنٹ کا ایک بہت بڑا رئیس تھا اور کوئی بڑی کمپنی آگے بڑھنے کے لئے اس وقت تیار نہیں تھی پاکستان کرکٹ بورڈ نے 93 ملین ڈالر کمائے اور پی ایس ایل کو یو اے ای میں شروع کردیا گیا ۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کراچی کنگز کے لئے اے آر وائی گروپ نے 24 ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کرتے ہوئے شیر ملی کو کپتان بنایا ۔لاہور قلندر کے لئے قطر ایل نے پچیس ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کی پشاور زلمی کے لیے جاوید آفریدی نے ہر گروپ کے ذریعے سولہ ملین ڈالر انویسٹ کیے ۔۔اسلام آباد یونائیٹڈ پر پندرہ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اور مصباح الحق کو کپتان بنایا گیا ۔کوئٹہ گلیڈی ایٹر پر عمر ایسوسی ایٹس گیارہ ملین ڈالر خرچ کیے اور سرفراز احمد کو کپتانی ملی ۔پشاور زلمی نے شاہد آفریدی کو کپتان بنایا ۔لاہور قلندر نے برینڈن میک کلم کو پتا نہیں دی ۔۔۔۔۔۔۔بعد میں پی ایس ایل میں ملتان سلطان بھی شامل ہوئے جس کے لئے جہانگیر ترین کے بیٹے علیم نے انویسٹمنٹ کی ۔۔،۔۔۔۔۔۔۔پی ایس ایل کی باغی دہ لونگ سے پہلے اس کی ٹائٹل سوٹ کے لیے حبیب بینک لمیٹڈ اور یو بی ایل جیسے اداروں سے رابطہ کیا گیا بعض دیگر کمپنیوں سے بھی بات ہوئی کسی کے پاس اتنی بڑی رقم انویسٹمنٹ کے لیے نہیں تھی یا وہ سپورٹس ٹی وی پر اتنی بڑی انویسٹمنٹ کرنے کے لئے راضی نہیں تھے ۔نجم سیٹھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے حبیب بینک میں اپنے تعلقات استعمال کیے اور حبیب بینک کے متعلقہ حکام کو اس ٹورنامنٹ کی اہمیت فوائد کے حوالے سے پریزنٹیشن دی اور ان کو راضی کر لیا جس کے بعد حبیب بینک نے ابتدائی تین سال کے لئے پانچ ملین ڈالر کی یقین دہانی کراتے ہوئے ٹائٹل اسپانسرشپ لے لی اس طرح پی ایس ایل کا نام ایچ بی ایل پی ایس ایل پڑ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آگے چل کر حبیب بینک نے سال 2018 میں دوبارہ پی ایس ایل کے لئے اپنی انویسٹمنٹ بڑھائیں اور 14 ملین ڈالر سے زیادہ کی انویسٹمنٹ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی بھی ٹورنامنٹ کی کامیابی میں اس کے براڈکاسٹر کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور ٹی وی رائٹس کے ذریعے ٹورنامنٹ لائن پیسے کماتے ہیں پی سی بی نے بھی ایسا ہی کیا تھا لیکن جن کمپنیوں کو براڈکاسٹنگ کے حقوق ملے تھے ان کا انڈین کمپنی آئی ایم جی ری لائنس کے ساتھ اشتراک تھا اور جب پلوامہ حملہ کے بعد بھارت نے پاکستان پر الزامات لگائے تو بھارتی براڈکاسٹر نے پاکستان کی پی ایس ایل کے میچوں کی کوریج سے انکار کر دیا 20 ٹورنامنٹ میں پاکستان کو بہت بڑا دھچکا لگا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے بڑی محنت کر کے Blitz ایڈورٹائزنگ اور Techfront کے ساتھ 40 ملین ڈالر کا نیا معاہدہ کیا جو اگلے تین سال کے لئے ہے اور یہ معاہدہ پچھلے معاہدے سے 358%تین سو اٹھاون فیصد زیادہ income لایا .۔۔۔۔۔۔۔۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پی ایس ایل کی کامیابی بڑھتی گئی تین سال کے دوران پی ایس ایل 18 ملکوں میں اور چالیس ٹی وی چینلز پر براہ راست براڈکاسٹ ہونے لگا یوٹیوب پر اس کی لائیو اسٹریمنگ الگ تھی ایک رپورٹ کے مطابق براڈکاسٹ ریونیو کا 80 فیصد پی سی بی نے اپنی فرنچائز میں تقسیم کرنا تھا اور بیس فیصد خود رکھنا تھا اس کے علاوہ جب یہ میچ شائقین کو اسٹیڈیم کی طرف کھینچنے لگے تو اسٹیڈیم کی ٹکٹ آمدنی اور دیگر اسپانسرشپ شپ اور ٹیم انویسٹر وغیرہ بنانے کی بات ہوئی ۔ابتدا میں علی ظفر نے پی ایس ایل کی کامیابی کے لیے اپنا حصہ ڈالا اور جو ترانے گائے وہ سپر ہٹ ثابت ہوئے اور وہ گانے آج بھی بچے بچے کی زبان پر ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی سی بی اور پی ایس ایل کی انتظامیہ میں تبدیلی آئی اور بعد میں جو ترانے اور گیت تیار کرائے گئے ان کے حوالے سے پی سی بی اور ایچ بی ایل پی ایس ایل کو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کچھ لوگوں نے نے تینوں کو پسند کیا زیادہ تر نے تنقید کا نشانہ بنایا جن میں نامور کھلاڑی بھی شامل تھے ۔پی ایس ایل جب سے شروع ہوا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے اس کے ہر سیزن کے ساتھ ایچ بی ایل اور پی سی بی کو نئی تنقید مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔( جاری ہے )