آزاد کشمیر ۔۔الیکشن شڈول کا اعلان ۔ لوٹوں کے ساتھ تبدیلی مشکل ہے ۔

سچ تو یہ ہے،


بشیر سدوزئی،

الیکشن کمیشن آزاد جموں و کشمیر کے اعلان کے مطابق آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے 45 حلقوں کے برائے راست انتخابات 25 جولائی 2021 کو ہوں گے ۔ 10 جون کو مظفرآباد میں انتخابی شڈول کا اعلان کر دیا گیا ۔ انتخابی گہما گہمی گئی ماہ سے جاری تھی تاہم چند دن قبل جب پارٹیوں نے امیدواروں کی فہرستیں جاری کرنا شروع کی تو توڑ جوڑ، شروع ہو گئی ۔ حسب امید لوٹے لڑھکنے لگے پنچھی اوڑھنے لگے ۔ایسی بھاگم دوڑ مچی کے اللہ کی پناہ ۔ پرانی پارٹی میں وہی رہا جس کو ٹکٹ ملا۔۔ کہاں کا نظریہ، کہاں کا منشور، بعض لوگوں نے تو پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دے کر دو، دو ٹکٹ پکڑے۔ اس امید کے ساتھ کہ دوحلقوں سے کامیاب ہو کر ایک بیٹی یا بیٹے کے لیے خالی کروں گا ۔اسمبلی گھر کی لونڈی بنے گی ۔ آزادی کے بیس کیمپ میں یہ کھیل تماشہ جاری ہے، دلی میں سہنا، امیت جموں کو الگ ریاست کا درجہ دینے کے لیے سر جھوڑ کر بیٹھے ہیں ۔اللہ ان بے سہارا کشمیریوں پر رحم فرمائے جن کو قتل کرنے دو دن قبل چالیس ہزار تازہ دم بھارت فوجی سری نگر میں اترے ہیں ۔آزاد کشمیر میں انتخابات ایک عرصے سے ہو رہے ہیں ۔80 کی دہائی میں تین سیاست دان سردار محمد ابراہیم خان، کے ایچ خورشید اور سردار عبدالقیوم خان شہرت کی بلندیوں اور تین ہی سیاسی پارٹیاں عوام میں مقبول تھی ۔ جن میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر لبریشن لیگ کے درمیان تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے سوچوں کا ٹکراو کے باوجود ایک دوسرے کے لیے رواداری کی بہترین مثال تھیں۔ اس وقت وہ ابلاپا اور اب سسک رہی ہیں ۔ جن کی قیادت اور پارلیمانی بورڈ کے افراد مقامی اور ریاستی درجہ اول کے شہری ہوتے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی شاخ ظاہر ہے وہی منشور و مقاصد رکھتی تھی جو اس کے مرکز نے منظور کیا تھا ۔ غیر ریاستی افراد پر مشتمل پارلیمانی بورڈ کی جانب سے کشمیر اسمبلی کے لیے امیدواروں کے چناو کا رواج اسی زمانے میں پیپلز پارٹی سے شروع ہوا جو اب غیر تحریری، غیر اعلانیہ قانون بن چکا ۔ اج کوئی فرد کسی فورم کے لیے نامزد یا منتخب نہیں ہو سکتا جس کو بنی گالا، بلاول ہاوس یا جاتی امرہ کی تائید حاصل نہ ہو تو آج کی کشمیری قیادت سے سوال تو بنتا ہے کہ ریاستی تشخص کہاں ہے ۔ لگتا ہے ان کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے جو مفتی اور شیخ خاندان کا ہوا ۔ اس زمانے کے قائدین ریاستی تشخص کا بہت خیال رکھتے اور اس میں عوام کا بھر پورا اعتماد اور ساتھ ہوتا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم کانفرنس تو کسی حد تک ایک دوسرے کے کارکنوں اور ممبران اسمبلی کو اپنے ساتھ شامل کیا کرتی۔ لیکن کے ایچ خورشید نے آزاد کشمیر کے اقتدار کے لیے اس کی ضرورت کبھی بھی محسوس نہیں کی کہ کسی بڑے قبیلہ کا بڑآ آدمی یا سرمایہ دار ان کے ساتھ شامل ہو، تاکہ سیٹ نکل آئے۔ انہوں نے پارٹیاں چھوڑ کر آنے والوں کی کبھی حوصلہ افزائی ہی نہیں کی۔ جموں و کشمیر لبریشن لیگ یوتھ بورڈ کے چئیرمین کی حثیت سے میں خورشید صاحب کے انتقال تک ان کے ساتھ رہا اور قریب سے ان کا طرز سیاست دیکھنے کا موقع ملا۔ جو انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح سے سیکھا تھا ۔ کئی ایسے واقعات کا میں گواہ ہوں جب دوسری پارٹیوں کے بڑے قد آور سرمایہ دار لیڈر خورشید صاحب کے پاس آئے ، اپنی جماعت اور قیادت کو بھرا بھلا کہا اور لبریشن لیگ میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ خورشید صاحب نے اس کو انتظار کا مشورہ دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ جہاں اس کو رہنا تھا وہاں ہی رہا۔۔۔ لوٹا کریسی کے بارے خورشید صاحب کی یہ سوچ تھی کہ سیاست پاکیزہ مشن ہے۔ جس کے لیے سمجھ دار تعلیم یافتہ انسان جواں عمری میں ایک سوچ بناتا ہے کہ میں نے عمر بھر اپنے لوگوں کی خدمت اور نمائندگی کس طرح یا کس انداز میں کرنی ہے ۔وہ اپنی سوچ افراد سے شئیر کرتا ہے کچھ اس کی مخالفت کرتے ہیں کچھ حمایت ۔ اب وہ ہم خیال گروپ کے ساتھ آگئیں بڑھتا ہے۔ جو لوگ راستے کی مشکلات کے باعث ساتھ نہیں چل سکتے سمجھ لیں وہ پختہ نظریاتی نہیں مطلبی ہیں۔اگر آپ کا سفر کامیابی کی طرف ہے اس قافلے میں اگر اچانک کوئی شامل ہونے چاتا ہے تو اس کو پختہ آزمائش کے بغیر قافلے میں شامل نہ کرو خواہ آپ مختصر ہی کیوں نہ ہوں ۔ راستے میں شامل ہونے والا آپ کے نظریات سے مخلص نہیں وہ اپنے کاروبار سے مخلص ہے۔ سیاست میں مطلب آ جائے تو سیاست مشن نہیں کاروبار بن جاتا ہے ۔ پھر چشم عالم نے دیکھا کہ پاکستانی سیاست ایک بڑا اور سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار بنا۔ الیکٹیبل کا استعارہ متعارف ہوا جس کی بولیاں لگنے لگی ۔ الیکٹیبل کو پر لگ گئے اور ایک سے دوسری پارٹی میں اوڑان بھرنے لگے ۔ انتخابی موسم میں یہ اوڑان کچھ زیادہ ہی ہونے لگی۔ الیکٹیبل سیاسی پارٹیوں کے نظریاتی اور مخلص کارکنوں پر بھاری ہونے لگے سیاست تجارت بن گئی اور جمہوریت اسٹاک ایکسچیج ۔جو جتنا بڑا بروکر ہو گا وہ سب سے بڑا بچہ جمہورے ۔ یہ کھیل 1985ء سے شروع ہوا جب ضیاء الحق نے سیاسی پارٹیوں کو توڑنے اور نظریات کو نچوڑنے کے لیے سیاسی کارکنوں کو رقم، پلاٹ پرمنٹ اور وزارتیں دینے کی طرح ڈالی ۔ پھر جو ہوا قوم کے سامنے ہے۔ عمران خان کرکٹ کا میدان سے ریٹائر ہوا تو شوکت خانم کا نشان امتیاز پایا۔ سیاست کے میدان میں آیا تو نوجوان سمجھے کپتان کا گیم میں جوا، سٹہ اور سماجی ورک میں کرپشن سے پاک ہے اب سیاسی میدان بھی پاک ہو گا ۔یہ افسوس ناک امر ہے کہ کرکٹ اور سماجی خدمت کے میدان کے شفاف کپتان کو سیاست کے اسٹاک ایکسچینج میں بروکری کا راستہ کس نے دیکھایا کہ خرید وفروخت میں وہ سب سے آگئیں نظر آتا ہے۔ آج کل آزاد کشمیر کا سیاسی اسٹاک ایکسچینج عروج پر ہے۔ الیکٹیبل کے نام پر امیدواروں کی منڈی لگی ہوئی ہے ۔ راجہ فاروق حیدر خان نے کئی ماہ پہلے پارٹی نہ چھوڑنے کا حلف لینے کا سلسلہ شروع کیا تھا اس کے باوجود پنچھی اوڑان بھر رہے ہیں ، لوٹوں کے لڑھکنے کی آواز آ رہی ہیں۔یہ تو انتہاء ہی ہو گئی کہ صبح 11 بجے مسلم لیگ ن کا جو وزیر تھا شام چار بجے عمران خان کے قافلے میں شامل ہوا، رات 9 بجے وہ پارٹی ٹکٹ لے کر انہی کارکنوں اور لوگوں کو بھاشن دے رہا ہے۔ جو 15 سال سے عمران خان کی انقلابی تقریریں سن سن کر خوش ہو رہے تھے کہ اب نظام بدلے کا نظریات کی سیاست کا بول بالا ہو گا۔ آزاد کشمیر میں ہیلی کاپٹر کی آنیاں جانیاں دیکھ دیکھ کر لوگ عمران خان کی تقریریں یاد کر رہے ہیں جب وہ کردار، اصول اور کرپشن فری سیاست کی باتیں کرتا تھا.جب وہ نوجوانوں کو آگئیں لانے ، میرٹ پر اسمبلی ٹکٹ جاری کرنے اورٹکٹوں کی خرید و فروخت ختم کرنے کی باتیں کرتا تھا۔ آج وہ لوٹے ، کرپٹ اور ٹکٹ خریدنے والے خان صاحب کے ساتھ شامل ہو کر انقلاب لانے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں جو تجربہ ناکام ہوا، وہ آزاد کشمیر میں دوہرایا جا رہا ہے۔ عوام آنکھیں بند کر کے غول کی طرح انہی لوٹوں کے پیچھے پیچھے چل پڑھے۔ بلکہ لوٹا کریسی تو یونین کی سطح پر پہچ چکی۔ کارکن اب ہار ڈال کر فخر کے ساتھ پارٹیاں تبدیل کر رہے ہیں ۔ اب کوئی سیاسی نظریہ باقی نہیں رہا نہ پارٹی منشور ۔ بس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا عمل جاری ہے جس کے ہاتھ لمبے وہ سوچتے ہیں ہمارے ہاتھ میں کچھ لگ گیا۔۔ ممکن ہے ہاتھ میں کچھ لگ بھی گیا ہو مگر ضمیر چلا گیا، گھر سے نہیں جسم سے۔اس ہجوم میں کوئی ایک بھی نہیں کہ پارٹیاں چھوڑنے والوں سے سوال کرے تمارا نظریہ کیا ہے، تمہاری سوچ کیا ہے تمارا عمل کیا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے ان کے پیچھے چلنے والے عوام کے اسی ریوڑ نے سیاست میں الیکٹیبل کی نئی اصطلاع متعارف کرائی۔ جب عوام سیاست میں نظریہ اور سوچ نہیں رکھتے پارٹی منشور نہیں فرد کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ وہ فرد کہاں سے نظریاتی ہو گا ۔اس نے تو نفع بخش کاروبار کرنا اور زیادہ نفع دینے والوں کے ساتھ سودا کاری کرنی ہے ۔ سیاست پھر عبادت اور مشن کہاں رہا ، کاروبار ہی بنے گا ۔اگر سیاست کو عبادت اور مشن بنانا ہے تو سب سے پہلے عوام کو نظریات اور پارٹیوں کی سیاست کرنی ہو گی ۔ الیکٹیبل کا استعارہ ختم ہو گا تو سیاست اور حکومت سے کرپشن ختم ہو گی ۔ اگر آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی جیت بھی جاتی ہے تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی لوگ وہی ہوں گے جو پہلے تھے۔۔۔۔۔ ان سے کیا توقع کہ وہ تبدیلی لائیں گے ۔ خان صاحب قوم مایوس ہو رہی ہے، نوجوان آپ کے پیچھے آور آپ الیکٹیبل کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔اس بھاگم دوڑ میں آپ کیا تبدیلی لائیں گے۔ کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے ۔ لیکن انتظار ہے ہم دیکھیں گے ۔