شادی ہال، ہوٹل بند ہونے سے 65 لاکھ روز گار متاثر ۔ 46 انڈسٹری بند

سچ تو یہ ہے،

۔

بشیر سدوزئی،

مارچ 2020ء جب سے کرونا وائرس وباء نے معاشرے کو گرفتار میں لیا انسانی زندگیوں کو خطرات کے ساتھ، لوگوں کی معاشی صورت حال بھی ابتر ہو چکی۔ روز گار معکوسی کا یہ سلسلہ رکھنے کا نام ہی نہیں لیتا اور نہ کوئی یقین سے کہہ سکتا ہے کہ کب تک چلے گا اور کہاں تھمے گا۔ صنعتوں اور کاروبار کے بند ہونے سے چائنہ کے سواء خوش حال و ترقی یافتہ ممالک بھی گرتی معشیت کو سہارا دینے کی کوشش میں کامیاب نظر نہیں آتے، ترقی پذیر قوموں کی تو حالت ہی غیر ہو گئی۔ ڈوبتی، ابلا پا معشیت کے ساتھ وہ کیا لیپیں اور کیا تھاپیں۔ نہ آگئیں بڑھنے کے نہ پیچھے ہٹنے کے۔فلاحی ریاستوں نے تو اپنے عوام کو ماہانہ نقدی کی صورت میں سنبھالا دیا، لیکن اب وہ بھی پریشان ہیں کہ عوام کی بہترین زندگی کی بحالی کے لیے شب و روز کوشاں امریکا اور یورپین ممالک کی کامیابی کو یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کب تک ممکن ہے ۔ لاکھ سیاسی اختلاف کریں حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں عمران خان کی پالیسی دنیا بھر میں سب سے بہتر رہی اسی لئے پاکستان کرونا وائرس سے نمٹنے کی بہترین حکمت عملی میں تیسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان کی حکومت کہ حکمت عملی، سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ کم آمدنی والے افراد میں 12 ارب ڈالر تقسیم ہونے کے باوجود کرپشن کی ایک شکایت کا بھی نہ آنا کرپشن فری معاشرے کی طرف سفر کی بہترین مثال ہے۔ ویکسینیشین کا عمل ابتداء میں تو بہت سست اور بے ترتیب تھا لیکن اب لگتا ہے کہ رواں سال کے آخر تک 6 کروڑ افراد کو ویکسینیشین ہو سکے گی جیسا کہ اسد عمر نے اعلان کیا ۔ حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں لیکن 12 ارب ڈالر غربت کی لکیر سے نیچے 40 فیصد عوام یعنی 6 کروڑ افراد کے لیے کافی بھی نہیں۔ یہ مسئلہ حکومت چائے بھی تو اپنے وسائل سے حل نہیں کر سکتی۔ کرونا وائرس نے نہ صرف شعبہ صحت کو تہس نہس کر دیا بلکہ عوام کی روز مرہ آمدنی کو تقریبا ختم کر دیا ۔ دھیاڑی دار مزدوروں کا روز گار تو تقریبا ختم ہونے سے کئی گھروں میں فاقہ کشی کا عالم ہے ۔ فوڈ انڈسٹری سے متعلقہ افراد ہوٹل، ریسٹورینٹ کی بندش کے باعث مکمل طور پر بے روز گار ہو چکے جو کوئی دوسرا کام نہیں کر سکتے ۔ شادی ہال اور ہوٹل جو خود ایک بڑی انڈسٹری بن چکے سوا سال سے مکمل بند ہیں ۔ بلکہ اس سے متعلقہ 46 سے زیادہ کاروباری شعبہ جات پر بھی فرق پڑا ۔ کراچی کے عوام شادیوں اور ہوٹلنگ میں کھانے پر خاصی توجہ دیتے ہیں،شادی پر دولہا اور دلہن ہی نہیں سارے گھر والے اور رشتہ دار حتی کہ مندوبین کا پہناوا، آرائش و زیبائش، سب بہت خاص اور مختلف مختلف ہوتے ہیں جب کہ کھانے روایت سے ہٹ کر ذائقہ دار اور خوب تر ہونے پر توجہ دی جاتی ہے۔ پہلے شادی کے صرف تین بڑے فنکشن ہوا کرتے تھے، مہندی، بارات اور ولیمہ، مگر اب برائڈل، شاور، شادی سے پہلے اور بعد کی پارٹیاں بھی ہوتی ہیں ۔ دسمبر میں ایونٹ پلانرز کے پاس وسائل کم اور آرڈر زیادہ ہوتے ہیں جب کراچی میں شادی سیزن زور و شور سے جاری رہتا ہے، سکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں کا سیزن کہا جاتا ہے۔ کوئی ایک دن ایسا نہیں ہوتا کوئی فنکشن نہ ہو یا کوئی شادی ہال خالی مل جائے۔دسمبر کے سیزن میں ہونے والے ایونٹس کی بکنگ سال پہلے یا اس سے بھی قبل کرائی جاتی ہے۔ اچانک طے ہونے والی شادی کے لیے دسمبر میں شادی ہال ملنا بہت ہی مشکل ہے۔ اگر کسی شادی ہال مالک سے وابستگی ہے اور کوئی پروگرام منسوخ ہو جائے تو ممکن ہے وہ مالک تعلق داری کی بنیاد پر جگہ فرام کر دے ورنہ اس بارے میں سوچنا بھی وقت ضائع کرنے کے برابر ہے۔ اس سیزن کی شادیاں بکھرے خاندانوں کے ملاپ کا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں ۔ کراچی کا موسم سب موسموں سے زیادہ موافق ہوتا ہے، سکولوں کی چھٹیاں کے باعث ملک بھر سے بچوں اور خواتین کو پروگراموں میں شرکت کی آسانی ہوتی ہے ۔کرسمس اور سردی نئے سال کی چھٹیوں کی وجہ سے بیرون ممالک پاکستانی پیاروں کی خوشی میں شامل ہوتے ہیں اس لیے ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ بیرون و اندرون ملک بکھرے ہوئے رشتہ دار کسی خاص موقع پر اگٹھے ہوں اور وہ موقع شادی کی تقریب سمجھا جاتا ہے جو دسمبر ہی ہر لحاظ سے موزوں ترین ہے۔شادی ہال میں ایک ایونٹ کا کرایہ ڈیڑھ سے 8 لاکھ روپے تک ہے۔ یہ تین کروڑ کی شہری آبادی کی ضرورت سے کم ہونے کی وجہ سے ہوا ۔ شادی ہالز کی قلت اور ان کے کرائے میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فلاحی مقاصد کے لیے مختص قطعہ آراضی پر تعمیر غیر قانونی سینکڑوں شادی ہالز کو مسمارکر دیا گیا۔ جب کہ پوش علاقوں میں یہ شادی ہال بینکوٹ ہال میں تبدیل ہو رہے ہیں جہاں مکمل ایرکینڈیشن سمیت فائیو اسٹار ہوٹل کی تمام سہولیات میسر کی جا رہی ہیں۔ اس وجہ سے بھی کرائے آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں اس وقت 1500سے زائد شادی ہال ہیں۔ چھوٹے، سے چھوٹے شادی ہال میں بھی 30 سے 35 فراد ملازم یا دھیاڑی دار ہیں ۔ یہ ہال بند ہونے سے 60 ہزار سے زائد وہ افراد بے روز گار ہوئے جو ان ہالز کے اندر کام کرتے تھے۔ جب کہ اس صنعت سے متعلقہ تمام شعبوں میں مجموعی طور پر 15 لاکھ افراد کا روز گار متاثر ہوا ۔ جس سے ہزاروں گھروں میں سخت پریشانی ہے شادی ہالوں کی بندش سے ہار پھول و ڈیکوریشن کے کاروبار سے وابستہ افراد کے علاوہ وڈیو میکرز اورفوٹو گرافرز بھی سخت تشویش میں مبتلا ہیں ۔ان کا کام تو مکمل ہی بند ہو چکا ۔ کچھ عرصہ پہلے لوگ شادی کی تقریبات گھر پر گلی میں یا علاقہ کی کسی کھلی جگہ پر خود ہی کرتے تھے مگر اب گھریلو تقریبات کے لیے بھی ایونٹ پلانرز سے رجوع کیا جاتاہے۔ ایونٹ پلانرز خود ایک انجنیئرنگ ہے جہاں تجربہ کار، تعلیم یافتہ اور ماہر عملے کے ساتھ پلانرز شادی ہال ہو یا گھر تقریب کو سجانے سنوارنے کا پورا منصوبہ بتاتا اور مختلف نقش و نگار کی تصویروں اور ویڈیوز کی مدد سے پریزینٹیشن دیتا ہے، یہ کام بھی لاکھوں کے اخراجات کا ہے۔ اس شعبہ سے بھی ہزاروں افراد وابستہ ہیں جو اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری بھی کی ہوئی ہے ۔ کراچی میں ہوٹل کا کاروبار بھی بہت وسعت پر ہے۔ جہاں شہریوں کو نہ صرف لذیذ کھانے مہیا ہوتے ہیں بلکہ یہ خاندانوں کے لیے بہترین تفریح مراکز بھی بن چکے۔ خاندان کئی دن پہلے ہوٹلنگ کا پروگرام ترتیب دیتے ہیں بلکہ یہ اب ایک پروگرام اور ماہانہ میزانیہ کا حصہ بن چکا۔کرونا وائرس کی وباء سے قبل کراچی کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی ریسٹورنٹ خالی نہیں ملتا تھا ۔ ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ساڑھے تین ہزار اے کلاس ریسٹورنٹ کے ساتھ 50 لاکھ افراد کا روز گار وابستہ ہے اے کلاس ایسے ریسٹورنٹ کو کہا جاتا ہے جہاں دیسی اور کانٹی نینٹل کھانے صاف ستھرا اور بہترین ماحول میں ملیں اگر ہال ہے تو اے سی ہو۔ یہ ریسٹورنٹ بھی بند ہیں ۔حکومت نے تعمیراتی صنعت کو کھول کر نہ صرف ملکی معشیت کو ترقی دینے کی اچھی کوشش کی بلکہ بے روزگاری کو کم کرنے کا بھی بہترین اقدام ہے ۔ اسی طرح شادی ہال انڈسٹری اور ریسٹورینٹز کو کھولنے کے لیے سوچا جائے کہ ایسے کون سے حفاظتی اقدامات ہو سکتے ہیں جن کے استعمال سے اس صنعت کو کھول کر نہ صرف اربوں روپے ریونیو کمایا جا سکے، بلکہ ملک بھر میں لاکھوں افراد کا روز گار بحال ہو ۔ عمران خان کے سمارٹ لاک ڈاون ویژن نے ان برے حالات میں بھی ملک کو گرنے نہیں دیا ۔توقع ہے کہ شادی ہال انڈسٹری کو بھی سمارٹ لاک ڈاون کی چھتری تلے محدود کاروبار کی اجازت دی جائے گی، جہاں بچوں اور بوڑھوں کی شرکت پر پابندی ہو یا ویکسینیشین کی شرط نافذ کی جائے ۔ویکسینیشین کی شرط پر شادی ہال کھولنے سے ویکسینیشین کے عمل میں بھی تیزی آئے گی اور شادی ہال کاروبار بھی شروع ہو سکتا ہے جس سے صرف ملک بھر میں لاکھوں کروڑوں افراد کا روز گار بحال ہو سکے گا ۔